Monday, January 28, 2013

کھال اتروائی۔۔۔ افسانہ از عمران اسلم




سَجری کا سودا طے ہو گیا تھا۔ شگوفے کی دھمکیاں، غصہ، ناز نخرے، مِنتیں تَرلے، شور شرابا، بھوک تَرےسب دھرے کا دھرا رہ گیا تھا۔

بس مِدے قصائی نے سَجری کو کھونٹے سے کھولتے وقت اسے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ سجری کو حلال نہیں کرے گا۔ نِرا دودھ دہی کے لئے رکھے گا۔

سجری اُس کے پاس پچھلے نو سال سے تھی۔ اب تو اس کی دوسری نسل جوان ہو رہی تھی۔ اس کے دو بچھڑے مسان ہو کر کھیتوں کا سینہ چیرتے پھرتے۔ ایک بچھی بیماری سے مر گئی اور دو بچھیوں نے اپنے مالکوں کے تھانوں میں رونق لگا رکھی تھی۔

شگوفے کے ابا نے تین نئے کمرے تعمیر کئے تو ماسی شجاع مبارکبادی کے لئے آئی اور تحفے میں سجری کی ماں کا رسہ ان کےصحن میں باندھ گئی تھی۔ ابے کو بڑا انتظار رہا کہ دودھ چِٹی گاں کب گھابن ہو، بچہ جنے اور وہ اس کا دودھ مکھن چکھیں۔

لیکن نصیب! سجری کی پیدائش سے کوئی دو ہفتے ادھر وہ اللہ کو پیارے ہو گئے۔ شگوفے اس وقت یہی مہینے دو کم چھ برس کی رہی ہو گی ۔ پھر اک رات گائے کِن مِن میں آدھی رات تک باہر ہی بندھی رہ گئ۔ جب تک اسے اندر کمرے میں لے جاتے، پالا ہڈیوں میں سرایت کر چکا تھا۔ سَجری کی ماں ایک آدھ ہفتہ ٹھنڈ سے کانپ کر حلال ہو گئی۔

شگوفے کو لگا وہ اس کے ابا کے دکھ میں مر گئی۔ بس پھر اس نے سجری کی سیوا اپنا فرض سمجھ لیا۔ سجری کو کھلانا پلانا، نہلانا ٹہلانا، چرانا، سب اس کی خوشی کا سبب بن گیا۔

سجری نکلی بھی ایسی پیاری، معصوم سی اپنی ماں کی طرح گوری چِٹی ، سر پر معمولی سے سینگھوں کے نشان، درمیان میں ہلکے خاکی بالوں کا ابھرا گُچھا ، دور سے دیکھو تو مانو لگے سورج مکھی کا پھول سوکھا پڑا ۔
لمبوترے کانوں کے اندروں، کھروں اور پنج کلیانی چھوڑ کر ساری کی ساری ملائی ۔ گردن کے نیچے ماس کی ملائم جھالر لٹکی ہوئی، موٹی چکوری آنکھوں میں معصومیت سمیٹے ہوئے۔اس کا کوہان گائوں کے بَیلوں کو شرماتا تھا۔ بھرے صحت مند ، دودھ سے تھَل تھَل کرتے تھن اور دُم تُوت کی، چھلکے بغیر چھمک جیسی، کھروں سے ذرا اوپر ٹھہرتی۔

وہ شگوفے کے لئے ابا کی یاد بھی تھی، سنگی بھی، سہیلی بھی، رازدان بھی۔ اور تابع فرمان بھی ۔ مجال شگوفے کے کہے بغیر وہ چراگاہ چلی جائے۔ یا کسی اور ہاتھ کا کُترا کھا لے۔ شگوفے کا دو ڈَنگ کہیں جانا بھی مشکل تھا کہ اس کی سجری پیاس، ڈھکوس سے مری جاتی لیکن گھونٹ اسی کے ہاتھ کا بھرنا ہوتا۔ شگوفے اترا کر کہتی پھرتی تھی "کوئی ماں کا لعل میری سجری کے تھنوں کو ہاتھ لگا کر دکھا دے سارا تھان کھول کر اس کے ساتھ کر دوں گی۔"

سجری کی صفائی پسندی تو گھر میں کسی کو ایک آنکھ نہ بھاتی، ادھر گوبر پڑا ادھر اس کی بھاں بھاں شروع۔ ادھر مُوت کر زمین گیلی کی ادھر بے چینی سے سینگ دیوار پر رگڑنے لگی۔ جب تک ڈھکائی چھپائی یا صفائی کا کوئی انتظام ہوتا سجری کا رولا ڈنگروں کے کوٹھے میں تھرتھلی مچائے رکھتا۔

ڈَنگروں والے کوٹھے میں کتنی گائیاں آئیں، کتنی بھینسیں ،بکریاں بندھی، کھلیں ،کتنے ڈھور بِکے ،کتنے میمنے اٹھکلیاں کرتے پھرے ،کتنی بھیڑوں نے اونی گولوں جیسے بچے جنے۔ شگوفے کو دو چار دن ان پر بھی بڑا پیار آتا لیکن ان کے آنے جانے پر اس نے کبھی اعتراض نہ جتایا تھا۔ نہ کسی سے پیار بڑھایا نہ کسی سے سنگت بنائی۔

سجری سے اس کی محبت میں عقیدت بھی تھی، ممتا بھی ، بہناپا اور دوستانہ بھی لیکن ان سارے جذبوں میں شریکہ کھاتہ کوئی نہ تھا۔

سوائے جُمرو کے اور کسی کو سجری کے پاس پھٹکنے کی اجازت نہیں تھی۔ جمرو اس کی پھوپھی کا دلارا۔ اور بقول شگوفے کی اماں " سجری کے واسطے اس کا مُنشی۔" سجری کے علاوہ بس جمرو اور اس کی سنگت پکی تھی۔ شگوفے اسے چھیڑنے کو گنگناتی۔ " او میرا ڈھولا، اک سادی سجری، اک جُمرو بھولا" اور پھر اس کا پھولا منہ دیکھ دیکھ قہقہے لگاتی۔

کچی کیریاں توڑ نا ہوں ، چاچے دِتے کے صحن میں لگے امرود چپکے سے اتارنے ہوں یا پھر ماسی وَلیتاں کے پچھواڑے لگے گلابوں سے گلاب اتار کر چوری چوری گلقند ڈالنا ہو۔ شگوفے اور جُمرو کا ایکا رہتا تھا۔ سکول بھی اکٹھے آتے جاتے ، ڈھور چرانے ، لکڑیاں چننے اور ٹوکرے میں پھندہ لگا کر چڑیاں ، کُگھیاں پکڑنے میں دونوں ساتھ ساتھ ہوتے۔
شگوفے کی تمام شرارتوں کی سزا اپنے سر لینے سے جمرو کبھی نہیں گھبرایا تھا۔ وہ چشمے سے پانی بھر تے ہوئے جمرو پر پورا گھڑا الٹ دیتی۔ اور جمرو بس چیخ کر رہ جاتا تھا۔ لیکن موقع ملتے ہی وہ ایکبارگی سارے ادھار مُکا دیتا تھا ۔

جب سجری کو چران واسطے پرلے آموں کے اوپری طرف لے کر جانا ہوتا ، جہاں کی کالی سیاہ چٹانوں اور کھا جانے والے سناٹے میں گونجتی جھینگر کی آوازوں سے شگوفے کو ہمیشہ خوف آتا اور وہ جمرو کو ضد کر کے ساتھ لے جاتی۔ جمرو ہمیشہ چھپ جاتا ۔ ڈر کے مارے اس کی جان پر بن آتی اور وہ سجری کے گلے لگ کر زور زور سے چیختی چلاتی۔"جُمریا ٹُھمریا تجھے لومڑی منہ میں دبا لے جائے جیسے چاچی نذیرو کا چوچا لے گئی"
تیرے اوپر ٹُھل گرے۔ تو نیچے دب جائے۔ اور پھر بڑبڑاتی "اللہ جی جُمرے کو لمبی حیاتی دینا"۔
نمکین آنسو اس کے اناری رخساروں سے ٹپ ٹپ اخروٹ مَلے لبوں تک پہنچتے اور جب اس کی ناک شُونکنے لگتی تو وہ اپنی نیلی چنری سے ناک صاف کرتے ہوئے اسےسامنے آنے کا واسطہ دیتی۔

جب سردیوں میں بخار، زکام اس کی جان کو آ جاتا تو جمرو ہی سجری کے سارے کام کرتا تھا۔ اسے پانی پلانا، کھلانا، چراگاہ لے کر جانا، دودھ دوہنا، یا اس کے بَچھوں کی دیکھ بھال، اس کا تھان صاف کرنا۔


پھر جمرو اپنے ابا کے پاس شہر چلا گیا چھٹی جماعت میں داخلہ لینے کو ۔
اس کا مہینوں بعد گائوں کا چکر لگتا تو وہ سجری کو دیکھنے ضرور آتا۔ شگوفے کی ہمجولیاں کھسر پھسر کرتے ہوئے اس کا جمرو سے رشتہ جوڑ دیتیں، چشمے پر بیٹھیں گائوں کی گھاگ بوڑھیاں اس کے چہرے پر حیا کے رنگوں اور آنکھوں میں رسیلے خیالوں کو دیکھ کر کہتیں "شگوفے اور جمرو کی جوڑی ساون بھادوں جیسی ہو گی"۔ وہ شرمو شرمی جمرو کے سامنے آنے سے کترا جاتی۔ اس برس وہ گیارہویں کا امتحان دے رہا تھا۔

پچھلے ماہ جب جمرو گائوں آیا تو اداسی اُس کے چہرے سے یوں ٹپک رہی تھی جوں سردیوں میں چیڑوں پر سے سوکھ کر سَمرو گرتا ہے۔ وہ اس کی اتری رنگت دیکھ کر دہل گئی تھی۔ لیکن اس کی ہزارہا ضد کے باوجود جمرو اپنی پژمردگی کا سبب بیان کرنے کو تیار نہ ہوا۔
بس جاتے ہوئے سجری کی گردن پر پیار سے ہاتھ پھیرتے ہوئے اسے اتنا کہہ گیا، "دیکھ شگوفیا! سجری کا سودا نہ ہونے دینا۔ "
اور جب اس نے اپنی منکے جیسی آنکھوں سے اسے ایسے دیکھا تھا گویا وہ سٹھیا گیا ہو۔ اور بہکی بہکی باتیں کر رہا ہو تو جمرو نے عجیب انداز سے اسے پھر کہا تھا "شگوفے! وعدہ کر سجری کو جانے نہیں دے گی۔" اسے کچھ سمجھ نہیں آئی تھی۔

لیکن اسے جلد سمجھ آ گئی تھی کہ جمرو کیا کہنا چاہ رہا تھا۔
پچھلی جمعرات کو جب اماں نے سجری کو بیچنے کی بات کہی تھی تو لگا جمرو پرلے آموں والی کالی چٹانوں میں اسے اور سجری کو اکیلا چھوڑ کر چھپ گیا ہے۔ وہ اکڑ گئی تھی "خبردار کسی نے سجری کو کسی کے ہاتھ دینے کی بات کہی۔ آخر ایسی کونسی قیامت آن پڑی جو سجری کو بیچنا!" اور دادی نے مسکراتے ہوئے کہا تھا ۔ "اڑیے تیرے بیاہ کا خرچہ بھی تو پورا کرنا ہے۔ اس گائے کے علاوہ اور کیا رہتا ہے ہمارے پاس!"

بیاہ! "ہاہاہاہا" وہ یوں ہنسی تھی گویا دادی نے کوئی زبردست چٹکلہ اسے سنا دیا ہے۔ "دادی جب بیاہ ہونا ہوا تو پہلے لڑکے کا بندوبست ہو گا۔تب خرچے کا انتظام بھی ہو جائے گا"۔

لیکن سویرے اس کا ماتھا ٹھنکا۔ جب دادے نے اماں کو تاکید کر کے کہا کہ دو تین دنوں میں پیسوں کا انتظام ہو جائے تو شہر سے ضروری سامان منگوا لیا جائے۔یہ تو غنیمت ہوئی کہ مِدا قصائی کہیں باہر گیا ہوا تھا۔ ورنہ اسے دل کی بھڑاس نکالنے کا موقع بھی نہ مل پاتا۔
بیاہ، شادی، رشتہ، نکاح کہاں طے ہو گیا۔ کہاں بات پکی ہوئی! کس سے نسبت ٹھہری! ان سوالوں کے متعلق سوچنے کا وقت کس کے پاس تھا۔ اسے تو فکر تھی بس سجری کی۔ رہ رہ کر اس کا دل بیٹھا جاتا کہ سجری کو قصائی کھول کر لے جائے گا۔ اور پھر ،اس سے آگے اس کو ہول اٹھنے لگتے۔ شگوفے نے ضد کی، اڑی لگائی، منتیں کی، ترلے باندھے، واسطے ڈالے، بھوکا رہ کر دکھایا، اٹواٹی کھٹواٹی لئے پڑی رہی مگر مجال جو کسی کے کانوں پر جوں بھی رینگی ہو۔ ہنس مسکرا کر کہہ جاتے "بچی ہے، بے سمجھ ہے، بچپن سے لاڈ کے ساتھ پالی ہے اس لئے گائے کے جانے کا دکھ تو ہو گا۔

جب اس کا غصہ کچھ اور بڑھا اور اس کا خاموش احتجاج شور شرابے تک پہنچنے لگا اور اس کی آواز پچھواڑے کی دیوار کے ساتھ موجود بیری سے اونچی ہونے لگی تو رد عمل بھی دادا، دادی کی پھٹکار ، چاچے کی خاموشی کی مار سے بڑھ کر مہربان اور مشفق اماں کے طعنوں سے ہوتا ہوا دھموکڑوں تک چلا گیا۔

شگوفے کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ اس کے کانوں میں جمرو کے نام کا طعنہ ڈالا جائے گا۔ اسے سناونیاں سنائی گئیں " اسے یہ فکر نہیں کہ مِدا قصائی سجری کو کھول لے جائے گا، اسے تو یہ غم مارے جا رہا کہ اس کی ڈولی کسی اور کے ویہڑے اترے گی۔"

اور سجری کا سودا نہ کرنے کی دہائیاں دیتی شگوفے کو اپنی عزت کے لالے پڑ گئے۔ اسے یوں چپ لگی جیسے اب نہ بولنے کی قسم کھا لی ہو۔ اپنوں کا طنز اس کی روح کو پَچھ مار گیا جیسے کند کلہاڑا لکڑی کے ٹوٹے کرتا ہے۔ اس کا جی چاہتا چیخ چیخ کر روئے، چلائے، بین ڈالے جیسے رات کو سامنے والے پَیلی سے گرتی ندی روتی ہے ۔

اس کا من کرتا شَنکار مارے جوں آری کش کے آخری رَندّے پر گرنے سے پہلے چیڑ کی چڑچڑاہٹ سے جنگل گونجتا ہے۔ اس کے ساتھ سارے چیڑ، ٹاہلیاں، کیکر، بین کریں۔ اس کے سینے کے اندر چونچیں مارتے غموں کے ہُد ہُد اُڑ جائیں اور سجری بھی آنسو نکالے۔

لیکن اس کا اندر سیلن زدہ ہو گیا تھا، اور گیلی زمین کا دل کتنا فراغ ہو جاتا ہے۔ اپنے سینے پر لگنے والی ہر ضرب برداشت کر جاتی ہے۔ اس کے اتھروں بھی اندر گر رہے تھے،۔کوئی آواز کیسے نکلتی سب کچھ اندر ہی اندر جذب ہو رہا تھا۔ وہ سجری کے پاس پہروں بیٹھی رہتی۔ اسے کہتی بھاگ جا، اس کی رسی کھول کر اسے تھان سے باہر دھکیلتی۔

سجری اپنا تھوتھ اس کے کاندھے پر رکھے جگالی کرتی رہتی۔پرلے آموں کی سیاہ چٹانوں کے پاس چرتی سجری کو دیکھ کر وہ سوچتی کہ کوئی دیو نکلے اور سجری کو اٹھا لے جائے۔ کم از کم وہ چُھری کی ازیت سے بچ جائے گی۔
اس کے کشادہ ماتھے اور رس بھرے کشمیری سیب جیسے سرخ رخساروں کے درمیان لمبوتری ناک ، منکے جیسی آنکھوں کے چواتے نمکین پانی سے تر ہو جاتی۔

مِدا قصائی آیا اور اس کی سجری کو کھول کر لے بھی گیا۔ وہ کچھ نہ کر سکی۔ اس کے تھان میں سجری کے گلے والے ٹَل کی آواز کی بجائے مِدے قصائی کا دَم دلاسا ہی رہ گیا۔ "شگوفے پتر تیری سجری سے پریت کا سب کو معلوم ہے۔ میں کوئی پتھر دل نہیں جو تیری لاڈلی کے گلے چھری چلائوں گا۔ جیسے تیرے تھان رونق، ویسے ہی میرے ویہڑے میں میلہ لگا رہے گا۔ "

ساری دوپہر بغیر کھائے پئیے ، کھاٹ پر پڑی رہی، روتے روتے گلا بیٹھ گیا۔ اماں، دادی نے آ کر تسلی کے دو بول بولے اور پھر اپنے کاموں میں مشغول ہو گئیں۔ اب کون اس کے بچگانہ دکھڑے پر پرسہ دینے بیٹھا رہتا۔
شگوفے کی آنکھیں چو ، چو تھک ہاریں اور گیلی لکڑی کا ان دیکھا دھواں جب انہیں جلانا شروع ہوا تو سکون پہنچانے نیند بھی پہنچ گئی۔ نیند سولی پر بھی آ جاتی ہے اور وہ تو اپنی کھاٹ پر پڑی تھی۔

پچھلے پہر خواب میں سجری کو رسی گھسیٹتے دیکھا تو بے چین ہو گئی۔ لیکن بے بس لڑکی کرتی کیا! پھر سے آنسووں نے اوڑھنی کو چومنا شروع کر دیا۔ اس نے خود کو مِدے کے الفاظ یاد دلائے کہ سجری کو چھری نہیں لگائے گا۔ اچانک اسے جمرو یاد آیا اور جمرو کی بات "سجری کا سودا نہ ہونے دینا۔" اسے لگا آج اس کی جگہ جُمرو پرلے آموں کی سیاہ چٹانوں میں تنہا رو رہا ہے۔

شگوفے کو خیال آیا پرسوں چشمے پر پھوپھی بھی روئی تھی اسے اپنے ساتھ لپٹا کر ، مگر کیوں! شگوفے کا دماغ ایک دم کُھلا اور پھر سے الجھ گیا جوں سَن کی رسی کا گولہ کھاٹ بُنتے ہوئے اچانک ہاتھ سے چھوٹ کر کُھلنے سے تَنی ہوئی رسی بیچوں بیچ اپنے ہی ساتھ لپٹ جاتی ہے۔

"میرے خدایا ! میرا رشتہ بھی طے ہو گیا ہے اور نکاح، رخصتی کی تیاری چل رہی۔" اسے بڑی دیر بعد دھیان آیا اور وہ اٹھ کر بیٹھ گئی۔ اس کے سر میں یہی بات گونجتی رہی، جیسے کسی نے دَندّے پر کھڑے ہو کر کُوک لگائی ہو اور اب ہوائیں سارے پہاڑوں کو سُنا رہی ہوں۔

اُس نے اماں کی کھاٹ کی طرف دیکھا۔ اماں بےسدھ سوئی پڑی تھی، کل فکر کی جو لکیریں اس کے ماتھے پر موجود تھیں اب نظر نہیں آ رہی تھیں۔ اماں کو ہلکے سے پکارنے پر وہ جاگ اٹھی۔ "کیا ہے شگوفے!" اماں نے دُلار سے پوچھا۔ "اماں تو سجری کو بیچ کر خوش ہے؟"

"پتا نہیں کیا سوچ رہی، سو جا! " اماں نیند کی خماری میں بولی۔ "ناں اماں بتا نا" وہ اماں کے پہلو میں اُٹھ آئی۔
"میری جان سجری کے جانے کا سب کو دکھ ہے لیکن تیری رخصتی کے لئے کَکھ اکھٹا بھی تو کرنا ہے نا۔ " اماں نے اسے لاڈ سے ساتھ لگا لیا۔

"گھر میں کیا ہو رہا ہے اماں! مجھے کچھ خبر ہی نہیں اور میرا فیصلہ بھی کر دیا۔ سجری کی طرح" وہ رو پڑی۔ "نہ میری رانی۔ ہم کوئی تیرے دشمن تھوڑی ۔ جو کریں گے اچھا ہی ہو گا۔ اماں اٹھ کر بیٹھ گئی اور اس کے بالوں کو سہلانے لگی۔ " آج پھوپھی ملی تھی چشمے پر۔ مجھے گلے لگا کر روئی تھی۔ اسے بھی سجری کا دکھ تھا۔"
شگوفے کی بات سن کر اماں گہری سوچ میں چلی گئی۔ "پتر تیری بات تیرے تائے کے گھر طے ہوئی ہے۔" اماں کچھ لمحوں کے توقف کے بعد بولی تو اس کی آواز پنجایت کے سامنے بولتے کسی مجرم کی طرح محسوس ہوئی۔
شگوفے کے دماغ میں لگی گھانٹیں اک اک کر کے کھل گئی تھیں۔ جیسے گولے کا الجھا تاگا تانی پر تان دیا جائے۔ اس نے اماں کے ماتھے پر پیار کیا اور اپنی کھاٹ پر جا سوئی۔

صبح دادی، چاچی اس کے ادھر اُدھر ہو رہی تھیں۔ لاڈ پیار، لعن طعن،طنز ، گالیاں کوسنے، منتیں ترلے، واسطے۔ لیکن وہ کوئی بات سننے کو تیار ہی نہیں تھی۔ اس نے شادی سے صاف انکار کر دیا تھا۔ "میری سجری کی باری کسی نے بات سنی تھی!" وہ بار بار یہی بات دہرائے جا رہی تھی۔
"بس کہہ دیا تائے کے صولو سے بیاہ نہیں کرنا"۔ " تو کس سے کرنا؟ جمرے کو تو ہم نے صاف انکار کر دیا ہے۔" دادی نے انکشاف کیا۔ اور اس پر کالا شیش ناگ حملہ آور ہوا۔ وہ چیخی "کس سے پوچھ کر پھوپھی کو انکار کیا! کس سے!"
"اب ٹکے ٹکے کے بچوں سے پوچھنا پڑے گا کہاں رشتہ دینا کہاں نہیں ۔" چاچی ہاتھ نچا نچا کر بولی۔ "اس کے چونچلے دیکھو پہلے ایک گائے کے بیچنے ہر اتنا رولا اور اب پھر بدتمیزی شروع کر دی"

اس نے نمکین آنسو لبوں میں جذب کرتے ہوئے اماں کی طرف دیکھا جو کھاٹ پر اکڑوں بیٹھی ہوئی تھی۔ "پتر تجھے مسئلہ کیا ہے۔ تیرے بھلے کا فیصلہ کیا ہے۔ اور صولو اپنا پتر ہی تو ہے۔" اماں نے بُجھے سے لہجے میں کہا۔
"چاچے نے بھی کچھ نہیں بولا!" دادا کو اسی طرف آتے دیکھ کر اس کی آواز دھیمی ہو گئی تھی" سب کا مشترکہ فیصلہ ہے اور تجھے ماننا پڑے گا۔" دادی نے جیسے دوٹوک فیصلہ سنا دیا۔
ہفتے دو اس نے گھر میں خوب ہلہ مچا رکھا۔ "تم لوگوں نے مجھے بھی سجری سمجھ رکھا۔ وہ چیختی۔ پہلے تو گھر کی خواتین نے بات دبا رکھی۔ کہ سجری کی طرح اب بھی خاموش ہو جائے گی۔
لیکن اس کے شور نے مَردوں کا دھیان بھی اس طرف لگا دیا۔ دادا نے تو اس کی خوب خبر لی ۔ البتہ چاچے نے سرد لہجے میں عورتوں کو کہہ دیا کہ اسے سمجھائو۔ نادانی کی باتیں نہ کرے۔
اس نے اپنی بات منوانے کے سو جتن کر دیکھے۔ اماں کے پائوں پکڑے۔ دادی کے ساتھ بحثیں کیں۔ چاچی سے منہ ماری کر لی۔ پھوپھی کے زریعے چاچا کو کہلوا بھیجا کہ پھر سے سوچو۔ مگر بڑوں کا فیصلہ نہ بدلنا تھا نہ بدلہ۔
ادھر اس کا اٹل رویہ دیکھ دیکھ اماں کا دل کڑھتا۔ لیکن بے بس!
دیہاڑے طے کرنے سے ہفتہ ایک پہلے چاچا، اماں کو سختی سے کہہ گیا " بھرجائی! شگوفے سے کہو مہمان آنے والے ہیں۔ اپنا رونا دھونا ختم کرے۔ مجھے کسی طرح کا تماشا نہیں دِکھانا شریکوں کو۔"
اس رات وہ لیٹی چھت کی بَلیاں گن رہی تھی جب اماں اس کے پاس آ بیٹھی۔ "شگوفے پتر اپنی ماں کی عزت رکھ لے۔" اماں کی آواز بھرا گئی ۔
وہ تڑپ اٹھی۔ "اماں میں نے کِیا کیا ہے؟ "
"میرے بچے تو نے کچھ نہیں کیا لیکن اگر تیری ضد ایسے ہی رہی تو بہت کچھ ہو جائے گا۔ تو نہ بھی بولے تو میں تیرے درد کو سمجھتی ہوں۔ " میرا درد سمجھتی ہوتی تو سجری کو نہ بکنے دیتی۔" اس نے اپنا رونا چہرہ اماں کی گودی میں رکھ دیا۔ "سجری کو اس لئے بیچا کہ پیسوں کی ضرورت تھی تیرے بیاہ کے لئے۔" اماں جب میں کہہ چکی کہ بیاہ نہیں کرنا تو پھر یہ تکرار کیوں!" شگوفے تیز لہجے میں بولی۔

"میرے بچے اب کچھ نہیں ہو سکتا، جمرو کا خیال دل سے نکال دے، ورنہ ساری زندگی طعنے سنتی رہے گی۔ تیری پھوپھی کی مِنتیں کرنے کے باوجود چاچا اور دادا نہیں مانے۔" "اماں! جمرو کی بات کہاں سے آگئی! میں صرف صولو سے بیاہ ناں کرنے کی بات کر رہی۔ تو چاچا کو سمجھاتی کیوں نہیں؟" اس نے ایسے درد بھرے لہجے میں کہا کہ اماں کا کلیجہ کٹ کر رہ گیا۔ وہ شگوفے کو خود سے لپٹا کر نرمی سے بولی۔" میرے بچے میں سب جانتی ہوں۔ سب سمجھتی ہوں۔ لیکن تجھے اپنے تائے کی بہو بننا ہے۔ خدا کے واسطے ضد چھوڑ" اور پھر اماں نے اس کے پیروں میں اپنا دوپٹہ ڈال دیا۔ شگوفے کے آنسو ماں کا دوپٹہ بھگونے لگے۔ اسے لگا جیتے جی گاڑ دی گئی ہو۔ جیسے سارے آسمان کا بوجھ اس کے پیروں پر ہو۔ اور چھت کی بَلیاں ، سارے شہتیر اس کی ٹانگوں پر آگرے ہوں۔ وہ اچھل کر کھاٹ سے نیچے اتر ی اور اماں کے گلے لگ گئی۔ اماں بھی رو رہی تھی ۔ پھر دونوں کی ہچکی بندھ گئی۔

دیہاڑوں والے دن خوب رونق رہی۔ چاند کی تیرہویں کو بارات آنا ٹھہری۔

بوڑھی مائیوں نے خوب ٹپے گائے۔ اور شام کو ڈھولک بھی رکھوا لی گئی۔ شادی والے گھر میں محلے کی لڑکیوں نے خوب ہنگامہ برپا کئے رکھا۔ اس پر کپڑے لتے، سامان کی تیاری، مہمانوں کے بکھیڑوں میں شگوفے سب کچھ بھلائے بیٹھی تھی۔ سوائے سجری کے۔ وہ دو بار جا کر مِدے کے تھان میں بندھی ، بجھی بجھی سجری سے مل کر آئی تھی۔

مایوں بیٹھنے سے پہلے وہ مِدے کی لڑکی کو مہندی کا تھال دے کر سجری کی طرف بھجوا چکی تھی۔

لڑکیوں نے اس کے ہاتھوں پر پھول بوٹے بنائے اور بیچ کہیں "صولت " بھی لکھ دیا۔ ڈھولک کی تھاپ پر ماہئے گائے جاتے اور زو معنی فقروں سے شگوفے کو چھیڑا جاتا۔ ہنسی کے فوارے چھوٹ رہے تھے۔ لڑکیاں بھی گلنار ہوئی جاتیں۔ ساتھ والے کھیت میں دیگیں کھڑک رہی تھیں۔ بارات کے لئے تمام انتظامات مکمل تھے۔ بڑے بوڑھے بیٹھے حقے سے دھویں کے مرغولے چھوڑ رہے تھے۔ اماں ادھر ادھر پھرتی رہی ۔ شگوفے کو لگا کہ وہ اس سے نظریں چرا رہی ہے۔

آسمان بادلوں سے ڈھکا ہوا تھا اور سبھی دعا مانگ رہے تھے کہ کل کا دن سوکھے میں گزر جائے۔ شگوفے من ہی من میں دعا کرتی رہی۔ " اللہ جی اتنی بارش برسے کہ سارے نالے چڑھ جائیں، باراتیوں کو رستہ ہی نہ ملے آنے کا"۔

صبح بارات خیر سے پہنچی، کھانے کے بعد نکاح ہوا اور جلد رخصتی کی گردان شروع ہو گئی۔ ابھی لڑکیوں نے کوئی رسم بھی نہ کی تھی کہ ٹھنڈی ہوائوں میں سیلن بڑھ گئی۔ بَڑوں نے بہتر جانا اور ڈولی منگوا لی گئی۔ شگوفے گھونگٹ میں خشک دِیدوں کے ساتھ سوچ سے عاری سب سے مِلتی ملاتی ڈولی میں جا بیٹھی۔ ڈولی جب سجری کے سُونے تھان کے سامنے سے گزری تو اس کی آنکھوں میں جڑی لگ گئی۔

آدھے راستے میں بارش نے تیزی پکڑ لی۔ کچے، ناہموار، ڈھلوانی، پہاڑی رستے پر لُڑکھتے ، پِھسلتے لڑکوں نے ڈولی کو پانچ میل دور منزلِ مراد پر پہنچا ہی دیا۔ استقبال کے لئے موجود سسرالی عورتوں نے ڈولی سے نکالتے ہوئے رسمیں پوری کیں۔ سجی سنوری دلہن کو کاغذی پھولوں اور رنگ برنگی جھنڈیوں سے سجے حجلہ عروسی میں پہنچا دیا گیا۔

گائوں، محلے کی عورتیں، لڑکیاں نئی دلہن کو دیکھنے اکھٹی ہو گئیں۔ کمرے میں اور باہر برآمدے میں شور مچا ہوا تھا۔ کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ دھیرے دھیرے باقی باراتی بھی پہنچنا شروع ہو گئے ۔ رسموں کے لئے دلہا کو بلایا گیا۔
نندوں نے اپنے شوق پورے کرنے شروع کئے۔ شگوفے اوپرے دل سے سب کرتی رہی۔ درد کی شدت سے اس کا سر پھٹا جا رہا تھا۔ بے آرامی، بے خوابی اور تھکن کے ساتھ ڈیڑھ دو گھنٹے کی رسمی بےگار نے اس کی طبعیت زیادہ خراب کر دی۔ اس کا جی گھبرایا اور قے ہو گئی۔ سب کو کمرے سے نکال کر ساس نے دوا کھلائی، دودھ پلایا اور آرام کے لئے اکیلا چھوڑ دیا۔

گرم بستر میں لیٹتے ہی دوا کے اثر سے شگوفے غنودگی میں چلی گئی۔ باہر کے شور سے آنکھ کھلی تو کمرے میں گُھپ اندھیرا تھا۔ وہ دائیں طرف موجود باری کے کواڑ کھول کر باہر دیکھنے لگی۔ باری کی سلاخوں کو پکڑے وہ سامنے کے دَندے کو دیکھ رہی تھی۔ "میں قید میں ہوں! یا یہ درخت!" اس نے خود کلامی کی۔

چندا کی روشنی سے اٹھکلیاں کرتیں بدلیاں برسنے کو سوچ رہی تھیں۔ ٹھنڈی ہوا اس کے چہرے کو یخ بستہ کر رہی تھی۔ نیچے دائیں طرف والے کھَتے میں بڑا تمبو لگا کر بارش سے بچنے کا انتظام کیا گیا تھا۔ شگوفے آنکھیں پھاڑے مشاہدہ کرنے لگی۔
ایک طرف گڑھے چولہے میں آگ جل رہی تھی۔ ساتھ دیگیں پڑی تھیں۔ دوسری طرف چند مرد ٹَب اور ٹوکرے کے گرد بیٹھے برتن دھو رہے تھے۔ یقینا صبح کے ولیمے کی تیاری چل رہی تھی۔

کھیت کے دوسری طرف سے ایک آدمی کسی جانور کو کھینچتا ہوا کونے میں لے گیا۔ اس کا انداز قصائیوں والا تھا۔
تین چار مرد اس کے آگے پیچھے ہو گئے۔ ایک لڑکا گیس لیمپ اٹھائے ان کے قریب گیا ۔ روشنی میں منظر واضح ہوا تو شگوفے کی جان نکل کر رہ گئی۔ مِدا قصائی سجری کی ٹانگوں میں اڑنگا لگا رہا تھا۔ اس نے چیخنا چاہا تو آواز نے ساتھ چھوڑ دیا۔ اس کی ٹانگیں کانپنے لگیں۔ اسے چھری کی تیز دھار اپنے گلے پر محسوس ہونے لگی۔ اس نے پوری قوت سے سلاخوں کو جھنجوڑ ڈالا۔ اس کے دماغ نے صدمہ برداشت کرنے سے انکار کیا اور وہ بےہوش ہو کر گر پڑی۔

کس نے اٹھا کر بستر پہ رکھا۔ کون کون کمرے میں آیا۔ کس نے اس کو دھونی دی۔ اسے کچھ خبر نہیں ہوئی۔
نسوار، سگریٹ اور سڑے پھلوں کی ملی جلی بو اس کے عصاب سے ٹکرائی تو اس کی حساسیت جاگ اٹھی۔ اسے کاٹے جانے کا احساس ہو رہا تھا۔ جیسے کسی نے تیز چھری چلائی ہو۔ اس کا بدن دُکھ رہا تھا جیسے زور سے بھینچا گیا ہو۔ اسے عریانی کا خیال آیا۔ اس کے جسم پر برائے نام کپڑے تھے۔ "مجھے بےلباس کس نے کیا۔" وہ خود سے پوچھ رہی تھی۔ کمرہ خراٹوں کی آواز سے گونج رہا تھا۔ اسے لگا پرلے آموں کی کالی چٹانوں میں ہزروں جھینگر مل کر اس کا مذاق اڑا رہے ہیں۔
وہ بیٹھ گئی اور اندھیرے میں اپنا لباس ٹٹولنے لگی۔ اس کا ہاتھ کسی جسم سے ٹکرایا اس کے بدن میں خوف بجلی بن کر دوڑا۔ وہ پلنگ سے نیچے اتری اور باری کھول دی۔ سیلی ہوا کا جھونکا اس کے بدن سے ٹکرایا تو وہ قدرے حواسوں میں لوٹی۔ چاند کی ہلکی ہلکی روشنی میں وہ کچھ دیکھنے کے قابل ہوئی، اس کا گوٹے کناری والا سنہری جوڑا پلنگ کی پائینتی پڑا تھا۔
نیچے کے کھَتے سے آتی آوازوں نے اسے سلاخوں سے باہر جھانکنے پر مجبور کر دیا ۔ مِدا قصائی گوشت کے ٹوٹے بنا رہا تھا۔ ساتھ ہی لیمپ کے پاس سجری کی کھال پڑی تھی۔ شگوفے چیخ چیخ کر رونے لگی۔ لیکن خراٹوں کی آواز اس کی چیخوں پر حاوی تھی۔

Wednesday, January 23, 2013

فتاوی ٹیویہ


فتوی صرف مجھ سے پوچھ رے



فتوی لے لو، فتوی لے لو، رنگ برنگے، نیلے پیلے، اودھے اودھے سرخ سنہرے فتوے۔ تازہ بہ تازہ ماڈرن دور سے مطابقت رکھتے فتوے، آئی ایس او 2001 اپرؤوڈ فتوے، میڈ ان کینڈا فتوے، سنگاپور سے امپورٹڈ فتوے۔ ہمارے پاس مشہور و معروف حکومت پاکستان سے منظور شدہ، لندن، واشنگٹن، پیرس، تہران سے کوالیفائیڈ ""عربی، خشک صحرائی فتووں کا توڑ"" ہر برانڈز کے فتاوی جات موجود ہیں۔ ہمارے پاس غامدی،حامدی، قادری، نقوی، سرمدی، جہانگیری اور ثمری ہر قسم کے مفتیان موجود ہیں۔ جن کی "لیاقت" منہ چڑھا کر بولتی ہے اور جن کا "الطاف" عام ہے۔ کلین شیوڈ، "مٹھ" داڑھی والے۔ گٹھ داڑھی والے، چنی داڑھی والے، مونچھ والے اور چکنے چتکبرے مفتی۔ فتوی آپ کی پسند اور سہولت کو مد نظر رکھ کر دیا جاتا ہے۔ گھر پر ڈلیوری کی سہولت موجود ہے۔ ہارڈ لائینر حکومت آنے تک وارنٹی، فتوی کسی بھی وقت تبدیل کروایا جا سکتا ہے۔ ہمارے فتاوی کی اہم خصوصیت ، کہ اسے آپ بقدر و بحساب ضرورت خود بھی موڑ سکتے ہیں، توڑ سکتے ہیں، جوڑ سکتے ہیں، اپنی مرضی سے۔ ہمارے فتوے ٹی وی پر بھی نشر ہوتے ہیں، پی ٹی وی ا
ور لوکل چینلز کے ساتھ ساتھ بی بی سی، سی این این، فاکس نیوز پر سائل کی تصویر کے ساتھ انٹرنیشنل لکھاری "وسعت" قلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے آرٹیکلز بھی لکھتے ہیں۔ آئیے اٹھئے سوال پوچھئے، دماغ "صاف" کی جئے۔ سوچ کو "جلا" بخشئے۔ مولویوں سے جان چھڑائیے۔ ( اور ہمارے شکنجے میں آئیے)۔ اپنی مرضی چلائیے (ہماری مرضی کے مطابق)، سائلہ ہونے کی صورت میں خصوصی توجہ اور بہترین خدمات۔ فتوی کے ساتھ "خدا کے لئے" اور "بول" کی ڈی وی ڈیز مفت میں حاصل کریں۔ ایک سے زیادہ فتوے پوچھنے والے کو ہالی وڈ کی کوئی سی ایک "ان سنسرڈ" مووی کی ڈی وی ڈی دی جائے گی۔ سب سے بہترین فتوی پوچھنے والے کا مختاراں مائی کے ساتھ ڈنر کا اہتمام کیا جائے گا۔.احتیاط " مدارس کے لڑکے بالوں اور "ملا" کی تقریر و تحریر پڑھنے والوں سے خاص دوری بنائے رکھیں۔ 

نوٹ ""فاٹا میں ہماری کوئی برانچ نہیں ہے""

کمپنی کی مشہوری کے لئے پہلا فتوی مفت ( جو ہمارا فتوی نہ مانے وہ کمبخت، ۔ سڑا شدت پسند، دہشت گردوں کا ساتھی، طالبانی زہن، ملا ملانا، انھا کانا۔ بلممم بلمممم )


Monday, January 21, 2013

مہابھارتی دروپدی اور جمہورتی دوشیزہ



"مہا بھارت" میں "دروپدی" کے پانچ خصم بتائے گئے ہیں۔
پاکستانی جمہوریت بھی کچھ اسی تعداد میں "پانڈئووں" کے درمیان گھری ہوئی ہے۔
"بھیم" جب دروپدی کو سوئیمبر میں جیت کے گھر لاتا ہے تو
پانچوں بھائی خوشی سے سرشار بوڑھی ماں کو سناتے ہیں!
دیکھ ماں ہم کیا لائے ہیں۔
ماں دیکھے بغیر کہتی ہے
جو بھی لائے ہو مل بانٹ کر  استعمال کرنا۔
وہ بیٹے بھی ایسے تابع فرمان کے چوں چراں کئے بغیر پانچوں نے دروپدی کو بیوی مان لیا۔
جب مشرف کی آمریت کے شکنجے سے جمہوری دوشیزہ کو سیاستدانوں نے چھڑا لیا تو
اماں امریکہ نے کہا جو بھی ہاتھ لگا صبر شکر کے ساتھ باہمی اتفاق سے مل بانٹ کر کھانا،
بس وہ دن اور آج کا دن تیسرے دن کی ناراضی نے چوتھا سویرا نہیں دیکھا۔
اس کے بعد "دروپدی" پر کیا بیتی اور اس کا کیا حشر ہوتا رہا!
مہا بھارت پڑھنے کی بجائے
 اپنے سیاستدانوں کے کرتوت دیکھئے اور "جمہووووریت"  کا پور پور نچڑا بدن۔

Thursday, January 17, 2013

سادگی بمعہ بےچارگی



رہے نہ پٹھان کے پٹھان۔ اٹھارہ لاشیں، خون جما دینے والی سردی، اور تین چار سو بندہ۔ اکٹھے ہو کر چلے تھے گورنر ہائوس کے سامنے دھرنا دینے، مطالبات منوانے۔ کوئیٹہ والی فلم دہرانی تھی کیا؟ لیکن تمہارے سین کا، تمہارے ایکٹ کا تو کسی نے سکرپٹ لکھا ہی نہیں۔ کسی نے تمہیں کہا تھا دھرنا کرنے کو؟ کہیں سے ہدایات ملی تھیں؟ نہیں نا! پھر کیوں کیا؟ کیا تم سمجھ رہے تھے کہ تمیں بھی آرام سے بیٹھا رہنے دیا جائے گا۔ یا پھر تمہاری ہاں میں ہاں ملائی جائے گی۔ یا پھر تمہاری غم خواری کو سول سوسائٹی اٹھ کھڑی ہو گی۔ (اللہ کے ولیو! سول سوسائٹی کا اپنا کرائیٹیریا ہے آواز بلند کرنے کا۔) یا پھر تم سمجھ بیٹھے تھے کہ تمہارے لئے بھی اسلام آباد ( یہ شہر خرابات بےچارہ ویسے ہی رِندان خرابات کی چراگاہ بنا ہوا۔) میں برگر بچے کوئی جلوس نکالیں گے۔ یا پھر زندہ دلان لاہوریے فوڈ سٹریٹ میں مہکتے پکوانوں کو چھوڑ کرتمہارے لئے ہائے ہوکار مچا دیں گے۔ یا پھر کراچی والے ساحل سمندر کی مست ہوائوں کی سیر کو چھوڑ کر کسی سرد روڈ ہر تمہارے حق میں بیٹھ جائیں گے۔ یا پھر کوئٹہ والوں کو اپنا دکھ یاد آ جائے گا اور وہ اظہار یکجہتی کریں گے۔ اوئے سادیو! کہیں یہ تو نہیں سمجھ لیا تھا کہ مولانا فضل الرحمان کہیں سے اپنے لال رومال کے ہمراہ ظاہر ہوں گے اور تمہاری اشک شوئی فرمائیں گے۔ یا پھر سید منور حسن آ کر تمہیں اپنی شستہ اردو میں پرسہ دیں گے۔ تمہاری ڈھارس بندھائیں گے۔ یا پھر حافظ سید صاحب مرید کے کی سڑک بلاک کر دیں گے۔ یا پھر جناب مسعود اظہر بہاولپور میں حکومتی مشینری جام کر دیں گے۔ خدا کے بندو تم سمجتے کیا ہو خود کو! ایک تو صرف اٹھارہ لاشیں لے کر بیٹھے۔ اوپر سے صرف تین سو آدمی۔ بھیا بڑے لیڈروں کو بھلانے کے لئے زیادہ لاشیں، زیادہ مجمع اکھٹا ہونا چاہئے۔ اور ہاں پورے پاکستان میں تبھی ھنگامہ ہو سکتا، تبھی ہلچل مچ سکتی جب کارِ سرکار ہو۔ ( سرکار چاہے اسلامآباد، پنڈٰی والی ہو، چاہے سات سمندر پار والی)۔ تمہارا خود ساختہ ڈرامہ کسی اسکرپٹ کا حصہ نہیں تھا س لئے تمہیں اٹھانا پڑا۔ پلس کو لاشیں بھی لے کر جانی پڑیں، ظاہر ہے اتنی انسانیت تو ہے نا ہماری پلس میں۔ آئیندہ خیال رکھنا چھلیو! اور ہاں جب اپنی اپنی لاش لینے جائو تو جیب میں پانچ سات ہزار روپے لازمی رکھ لینا۔ لاشیں ایسے ہی تو نہیں مل جاتی ناں






Monday, January 14, 2013

رگِ جنسیت اور اچھا دھاری ناگن




وہ چُنی آنکھوں والا مجمع کو ہپناٹائز کیے ہوئے تھا۔ یوں لگتا کہ  لوگ سانسیں روکے کھڑے ہوں۔ اس کے ہر ہر فقرے پر رگوں میں گرمی دوڑنے لگتی۔ ہر کلمے پر جسم میں سنسنی دوڑ جاتی۔ اس کی آواز کا زیر و بم ریڑھ کی ہڈی میں عجیب سا احساس بیدار کر رہا تھا۔  اس کے اشارے لوگوں کے چہرے پر شادمانی کے رنگ بکھیر دیتے اور اس کی حرکات سے ان کی ہنسی چھوٹ جاتی۔ وہ بالغوں کے لطیفے سنا سنا کر انہیں  اپنی جانب توجہ رکھنے پر مجبور کر دیتا۔ وہ اپنے کام میں ماہر تھا۔ اور اس کے سامنے  زندگی کی چکی میں پستے پستے کمر کو دوہرا کئے لوگ۔ اس کو ان کی نفسیات کا بخوبی علم تھا اور یوں لگتا وہ ان کی رگ رگ سے واقف ہے۔ وہ انہیں باتوں باتوں میں باور کراتا جاتا کہ وہ مختلف النوع مردانہ بیماریوں میں مبتلا ہیں اور اس کی وجہ آج کل کی ناخالص ملاوٹ شدہ خوراک، سہل پسندی ، بچپن کی غلط کاریاں اور  حالات حاضرہ میں آسانی سے دستیاب فحش  مواد ہے۔ ہر کوئی دل ہی دل میں اس کی حکمت کی داد دے رہا تھا۔  لڑکے بالے ایک دوسرے کا ہاتھ دبا کر کھی کھی کر کے ہنس دیتے۔ جوان کن اکھیوں سے اک دوجے کی جانب دیکھتے جیسے ان کی چوری پکڑی گئی ہو۔ بوڑھے اپنے گھٹنوں پر ہاتھ رکھے دونوں پیروں کے بَل بیٹھے آہ کہہ کر رہ جاتے۔ وہ انہیں بیماریوں کی آشنائی کے ساتھ ساتھ  ان کا علاج بھی تجویز کر رہا تھا۔ مریضوں کی سہولت کے لئے مختلف قسم کے تیل، گولیاں، کیپسول اس کے سامنے پڑی شیشیوں، بوتلوں  میں موجود تھے۔ جنہیں وہ وقتا فوقتا طریقہ استعمال بتلاتے ہوئے کسی نہ کسی فرد کے ہاتھ پر رکھتے ہوئے نقدی وصول کرتا جاتا۔ لوگوں کی دل پشوری کے لئے شیشے کے مرتبان میں کچھ سانڈے بھی موجود تھے۔ سامنے چند پٹاریاں کھلی پڑی تھیں جن میں سے چھوٹے چھوٹے رنگ برنگے سانپ جھانکتے نظر آتے اور وہ انہیں  ہر بار ہاتھ سے اندر کر دیتا۔  دوائی بیچنے ، نسخے دینے، لطیفے سنانے کے دوران ہی اس نے ایک دیو مالائی داستان بھی شروع کر   رکھی تھی۔ جس میں سے تھوڑا تھوڑا حصہ تجسس بڑھا بڑھا کر مجمع کے سامنے پیش کر رہا تھا۔   اس نے مجمع کا دھیان ایک بڑی پٹاری کی جانب  لگا رکھا تھا۔ "سجنو مترو! اس پٹاری میں جو ناگن ہے وہ شیش ناگ کے قبیلے کی ہے اس ناگن کو پکڑ میں لانے کے لئے ہمارے بزرگوں نے بہت جتن کئے۔ یہ ناگن سو سال کی ہو کر اس قابل ہو جاتی ہے کہ انسان کا روپ دھار سکے"۔  اس کی چمکتی جلد سولہ سالہ دوشیزہ کے حسین چہرے کی مانند ہوتی ہے اور اس کی آنکھوں میں ایک جوان حسینہ کی چشم مےگوں کا سا نشہ ہوتا ہے۔ تمہیں اگر اکیلے میں مل جائے تو ایک حسین دوشیزہ کی طرح    جلوے دکھا کر تمہارے حؤاس پر قابو پا لے گی اور پھر تمہارا کام تمام کر دے گی"۔  وہ یہ تمام باتیں اس انداز میں کر رہا تھا کہ افراد کا تجسس انتہا کو پہنچ رہا تھا ۔ لوگ بےتاب ہو کر پٹاری کی طرف دیکھتے کہ کب وہ پٹاری کھلے اور وہ اس قاتل حسینہ کا دیدار کر سکیں۔ کچھ منچلے تو ایک دوسرے کے کانوں میں سرگوشیاں کرتے  ۔ "کاش جنگل میں کہیں ملاقات ہو جائے ایسی ناگن سے ،پھر چاہے ڈس ہی لے"۔
وہ مجمع سے مخاطب تھا۔ "میرے بزرگو! دوستو یہ ناگن ہمارے بزرگوں نے  بڑی مشکلوں سے بس میں کی تھی۔ سکندر اعظم کی بادشاہت کا زمانہ تھا۔ بادشاہ ایک بار جنگل میں شکار کھیلنے گیا اور دوستوں سے بچھڑ کر راستہ بھٹک گیا۔ بادشاہ جب سخت گرمی سے نڈھال، پیاس سے بے حال  ہو کر بے ہوش ہو گیا  ۔  تو  ہوش میں آنے کے بعد کیا دیکھتا ہے کہ ایک خؤبصورت ، حسین، جوان ، ماہ پارہ عورت اس کے سرہانے بیٹھی ہے۔  خیر جی بادشاہ اسے بھی ساتھ ہی اپنے محل  میں لے آیا اور شادی رچا لی"۔ چُنے نے اپنے الفاظ میں ایسا ماحول بنا دیا تھا کہ سبھی لوگ ٹک دیدم ہو رہے تھے۔ " جناب من   عورت خؤبصورت ہو، جوان ہو، ناز نخرے جانتی ہو ۔ گفتگو کا سلیقہ اسے معلوم ہو تو مرد کے دل میں اتر جاتی ہے۔ وہ عورت بھی بادشاہ کے دل میں کُھب گئی۔ بادشاہ دن رات اس کے گن گاتا اور صبح شام اس  ساتھ گزارتا۔ کچھ عرصہ گزرا ۔ بادشاہ کی صحت گرنا شروع ہو گئی۔   دن بدن اعضاء میں کمزوری آتی گئی اور تھوڑے دنوں میں ہی بادشاہ بستر سے جالگا۔  بہت علاج ہوا۔ بہت حکیم آئے لیکن کچھ کارگر نہ ہوا۔ آخر ایک سیانے بوڑھے کو بلایا گیا۔ اس بابے نے آتے ہی بادشاہ کے پاس سے سب کو ہٹا دیا"۔  چُنا آدمی کہانی سنا رہا تھا اور دم سادھے لوگ اس داستان کے خاتمے کوبےتاب۔ " اس بوڑھے نے بادشاہ سے عرض کیا کہ تمہارے محل میں کسی باہر والی شے کا سایہ ہے۔ بادشاہ نے حیران ہو کر کہا کہ میرے نوکروں اور میری بیوی کے علاوہ یہاں کوئی نہیں۔ خیر بوڑھے نے اپنا حساب لگایا اور بادشاہ کو حیران کن خبر سنائی کہ تمہاری  بیوی انسان نہیں بلکہ ایک ناگن ہے۔ بادشاہ نے ماننے سے انکار کیا تو  بوڑھے نے کہا " تم خود اس کا اندازہ کر سکتے ہو"۔ بوڑھے  نے بادشاہ کو ایک قیمتی راز بتلاتے ہوئے کہا"۔ چُنے نے وقفہ کرتے ہوئے  مجمع کی طرف غور سے دیکھا جیسے اندازہ لگا رہا ہو زور خطابت کا۔ اور پھر بادشاہ کے قصہ کہنے لگا۔ " بوڑھے نے بادشاہ کو  ران میں موجود ایک خفیہ رگ کے بارے میں بتلایا اور کہا کہ آج رات جب تمہاری بیوی تمہارے پاس آئے ، اور تم   پیار کرتے ہوئے اسے بےلباس کرو تو اس رگ کو مسلنا اگر وہ اصلی عورت ہوئی تو  تمہارے ساتھ لپٹ جائے گی۔ تم سے اور زیادہ پیار کرے گی۔ اس کی آنکھوں میں لالی آجائے گی اور اس کی سانسیں تیز تیز چلنے لگیں گی"۔ چُنا دیکھ رہا تھا کہ مجمع  کے تمام افراد خیالوں ہی خیالوں میں بادشاہ کی خلوت گاہ میں پہنچے ہوئے تھے۔   اس نے  لوگوں کو ایک خوشخبری سنائی۔ "سوہنے بھرائو۔ ہمارے بزرگوں، پرکھوں سے   وہ راز ہمیں بھی معلوم ہے۔ وہ خفیہ رگ کہ جس کو چھونے سے عورت مرد کی غلام بن جاتی ہے۔ اس کے لئے اپنی جان بھی نکال دیتی ہے۔ میں  بعد میں آپ کو اس رگ کا بتاتا ہوں"۔ اس دوران مجمع میں موجود افراد کی تعداد سو تک جا پہنچی پندرہ بیس بچے بھی بڑوں کی بغلوں سے جھانک رہے تھے۔ چُنے نے خدا  رسول کے واسطے دے کر بچوں کو باہر نکلنے کا کہا اور پھر جنسی تلذذ سے بھرپور کچھ فقرے کسے۔ مجمع میں قہقہے پھوٹے اور انتظار کا وہ تنائو جو لوگ اپنی رگوں میں محسوس کر رہے تھے کچھ کم ہوا۔    لوگوں میں  اب ناگن کے دیدار کے ساتھ ساتھ اس رگ کے بارے جاننے کا اشتیاق بھی پیدا ہو گیا تھا۔ چُنا پھر سے تقریر کرنے لگا۔"  میرے بھائیو میں آپ کو سکندر اعظم کا قصہ سنا رہا تھا۔  تو ہوا یوں کہ رات کو بادشاہ نے  بوڑھے کے سمجھائے ہوئے طریقے پر عمل کرتے ہوئے اپنی ملکہ سے خوب پیار کیا،  اسے بےلباس  کر دیا اور پھر دھیرے دھیرے  اس کی رگ تک ہاتھ لے جا کر اس کومسل دیا۔ اسی وقت ہمارے بزرگ جو کھڑکی میں سے چھپ کر  سارا معاملہ دیکھ رہے تھے۔ انہوں نے کیمرے سے  اس کی ران کی فوٹو کھینچ لی۔ رگ مسلتے ہی اس حسین عورت کی جون بدلنے لگی اور وہ دیکھتے ہی دیکھتے ناگن بن گئی۔ سکندر اعظم دکھ اور خیرت کے مارے بےہوش ہو گیا۔ ناگن جوں ہی  کھڑکی کے راستے باہر نکلنے لگی۔ ہمارے بزرگوں نے اسے   پر پانی سفید چادر ڈال کر پکڑ لیا۔ یوں یہ اچھا دارھی ناگن ہمارے خاندان کے قبضے میں آگئی"۔  مداری سانپوں کا تماشہ دکھا کر پیسہ کماتے ہیں۔ حرام ہے ہم نے کبھی اس کی کمائی کھائی ہو۔ ہم محنت  کر کے آپ کی صحت کے لئے دوائی بناتے ہیں"۔ چُنے کی دوائی کی پڑیا،  طاقت والے کیپسول اور سانڈے کے تیل والی شیشیاں دھڑا دھڑ بک رہی تھیں۔
ایک منچلے نے آواز لگائی۔ "سرکار وہ خفیہ رگ تو دکھائو"۔  چُنے نے فورا قریب دھری ایک  بڑی سی کتاب کھولی اور اس میں   فریم شدہ تصویروں میں سے ایک ڈھونڈ کر  نکالی اور مجمع کو دکھانے لگا۔ "یہ دیکھئے  سارے انسانی  بدن کی رگیں"۔  اور پھر انگلی پھیر پھیر کر اہم حصے گنوانے لگا۔ سبھی حاضرین اشتیاق  اور غور سے تصویر کو دیکھ رہے تھے۔ ران کی ایک رگ پر اس نے زور سے انگلی جمائی اور بولا" یہ رگ ،جنسیات کی شہ رگ ہے۔"
 دوائی خرید لینے اور تصویر دیکھنے کے بعد  ہر کوئی جلدی نکلنے کے چکروں میں تھا۔ ہر کوئی اس خیال سے سرشار آگے کو چل دیتا کہ اب میری بیماری جڑ سے کٹ گئی اور اتنی اہم  بات بھی معلوم پڑ گئی۔  دس بیس منٹ میں مجمع  چَھٹ گیا۔ چند ہی لوگ باقی بچ رہے۔ کچھ تو  چُنے کے ساتھ کھسر پھسر کر کے اپنی مردانہ بیماریوں کے لئے  رازدارانہ مشورے لے رہے تھے اور کچھ اشتیاق سے پٹاریوں میں موجود سانپوں کو دیکھ رہے تھے۔   ایک اسکولیا لڑکا چُنے کے پاس آیا اور بولا ۔ " استاد جی وہ شکل بدلنے والی ناگن تو دکھا دو"۔ چُنے نے ناگواری کے ساتھ اس کی طرف دیکھا اور ایک چھوٹے لڑکے کو  اسے اسکولئے  کو پٹاری کھول کر شیش ناگ دکھانے کو کہہ کر اپنے گاہکوں کی طرف متوجہ ہوگیا۔
پٹاری کھلی اور اس میں سے پھن والا کوبرا سانپ  شوں شون کرتا باہر نکلا۔ اسکولیا لڑکا قدرے غصے اور ناامیدی کے انداز میں چلایا۔ "استاد  دو  گھنٹے  زلیل کرنے  کے بعد دکھائی  تو  تصویر بھی    بیالوجی والی اور سانپ بھی میرے اسکول کی لیبارٹری والا۔ 


خونِ خاک نشیناں


سوات کے تبلیغی مرکز میں شہید ہونے والے بھائیو! تمہارا خدا حافظ،
 ابھی تو تمہارے لہو کی مہک بھی در و دیوار سے نہ گئی ہو گی
 ابھی تو تمہارے جسم کے اڑے چھیتڑے چھت پر چمک رہے ہوں گے،
 ابھی تو تمہارے اجلے پیرہن فرش پر جگمگا رہے ہوں گے۔ ابھی تو تمہارے سروں کی دستاریں اور ٹوپیاں تک وہیں کی وہیں دھری ہوں گی ۔ 
ابھی تو تمہارے سجدوں کے نشان بھی چٹائیوں پر کندہ ہوں گے۔ ابھی تمہاری چادریں وہیں ٹنگی ہوں گی۔ابھی تک تہماری تسبیحوں کے موتی  جھلملا رہے ہوں گے۔ ابھی تو تمہاری فضائل اعمال کے اوراق وہیں پھڑپھڑا رہے ہوں گے۔
میرے محترم بھائیو ابھی تمہارے موزے وہیں کونے میں پڑ
ۓ بستروں پر دھرے ہوں گے۔ 
 وہ چولہا بھی شاید ابھی تک جل رہا ہو کہ جس پر کسی مہمان کے آںے پر چائے تیار ہو رہی ہو گی۔ 
ابھی تک تمہاری مسواکوں سے تمہارے لبوں کی خوشبو پھوٹ رہی ہو گی۔ اور ابھی تک تم رب رحمان کی نعمتوں سے فیض یاب ہو رہے ہو گے، ابھی تک تم جنت کی کھلی کھڑکیوں سے رب غفار کی جنتتی حوروں کے حسیں چہرے کا نظارہ کر چکے ہو گے۔   لیکن میرے پیارے تبلیغی بھائیو معاف کرنا میں تمہیں ابھی خدا خافظ کہوں گا۔
 کیوں کہ تمہاری اس بازار میں ویلیو نہیں۔ یہاں تمہارا لہو بے مول ہے۔ 
یہاں تمہاری موت بےکار ہے۔ اور میرے محترم تبلیغیو میں تمہارے لئے زیادہ دیر آواز بلند نہیں کر سکتا۔
وجہ! وجہ یہی میں تمہارے مشن کو حق سچ سمجھتے ہوئے بھی دنیا کی طعن و تشنیع کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ 
تمہیں پتا ہے نا! دنیا والے تمہیں بنیاد پرست کہتے ہیں،
 تمہیں پتا ہے نا! لوگ تمہیں مجاہدین کا پشتی بان سمجھتے ہیں (حالانکہ عرصہ ہوا تم نے بھی کھل کر حمایت ترک کر رکھی تھی) عوام تمہارے مراکز کو شدت پسندوں کی پناہگاہ سمجتھی ہے۔ 
لوگ کہتے ہیں تم فرقہ واریت پھیلاتے ہو۔ ( تمہارے منشور۔چھ نمبروں میں تو اکرام مسلم ۔ اولیں درجات میں ہے)۔ 
پیارے تبلیغی بھائیو تمہارا پرسہ دے دیا، دل کا بوجھ ہلکا ہو گیا، 
اب میں تمہارے لہو کا حساب مانگنے سے تو رہا۔ اب میں تمہاری موت پر آواز اٹھانے سے رہا۔ 
ایسا کر بھی لوں تو کیا ہو گا۔ کوئی جاگ جائے گا؟ کوئی سن لے گا؟ کوئی اس طرف توجہ دے لے گا؟
مشکل، ناممکن۔ پیارے تبلیغیو! تم فراعنہ وقت کی گُڈ لسٹ میں نہیں ہو، تم بادشاہ وقت کی آںکھوں میں کھٹکتے ہو۔ تم نمرودِ جہاں کے لئے ٹھنڈا بارود ہو۔ تم زریت ابلیس کے سینوں پر دال دلو اور پھر یہ امید رکھو کہ تمہاری لاشوں پر کوئی آہ و بکا بلند ہو گی؟ تمہاری میتوں پر کوئی ماتم کناں ہو گا؟ 
تمہارے جنازوں کو بیچ بازار سلامیاں دی جائیں گی۔
اور ویسے بھی میرے سوہنیو! تمہیں طالبان نے مارا ہے؟
 تم پر حملہ آور لشکر جھنگوی والے تھے؟ تمہارے مرکز میں دھماکہ القائدہ والوں نے کیا؟ نہیں تو پھر تمہاری موت بھی عام سی ہے۔ یہاں پِٹ سیاپا اسی کا جسے طالبان کی گولی لگے۔
 یہاں ماتم اسی کا جس کے مرنے کی زمہ داری لشکر جھنگوی والے لیں
 اور یہاں آہ و بکا اسی کے لئے جسے القائدہ والوں نے قتل کیا ہو۔ 
تمہارے مرنے پر شور مچا بھی لوں تو کیا؟ 
تم ایک اکثریتی مسلم ملک کے بھیڑ بکریوں کے گروہ خوابیدہ سے متعلق۔ تم ٹُن قوم کے سائیں لوگ۔ 
خدا کے بندو تمہارے لئے آواز کیوں بلند کروں؟ تمہارے ساتھ کے پینتیس چھتیس ہزار مر گئے۔ تم بھی مر گئے۔ کیا ہوا؟ تمہارا مرنے کے شور شرابے سے نہ اسلام آباد کو مسئلہ نہ راولپنڈی والوں کو خارش۔ 
اس لئے آرام سے سو جائو اپنی اپنی قبروں میں۔۔  اور ہاں دو چار دن بعد ان سوچوں کی توقع بھی نہ کرنا۔
 تیجا، چوتھا۔ چالیسواں پینتالیسواں تم کرتے نہیں۔ اور دھرنے پر تمہارے "اللہ لوک" امیر صاب یقین نہیں رکھتے۔ نہ کوئی تعزیتی کانفرنس۔ نہ جلسے جلوس۔ نہ دیگیں شیگیں۔ نہ ہڑتال پڑتال اور نہ چھان بین،
 خاک نشینوں۔ بدنصیب قوم کے فرزندوں تمہارا لہو رزق خاک ہوا۔ جائو اپنے اللہ کا صلہ تمہیں کافی ہو۔

Flickr