Tuesday, February 19, 2013

میڈیا اور مذہبی منافرت


پاکستان میں جاری   انسان کُشی، مسلمان کُشی جہاں قابل مذمت ہے وہاں حساس دلوں کے لئے باعث رنج بھی ہے اور باعث تشویش بھی ۔ کوئی بھی صاحب  عقل، زی شعور شخص اس کی حمایت نہیں کر سکتا۔ کسی شخص، گروہ یا فرقے کو فقط اس لئے ٹارگٹ کرنا  انتہائی بیہمانہ فعل ہے۔ لیکن کیا صرف مذمت، احتجاج، شور شرابے، پِٹ سیاپے، رولے رپے، اور بیان بازیوں سے یہ مسئلہ حل ہونے کو ہے؟ اس کا جواب نفی میں ہے کیوں کہ ہم لوگ وجوہات کے متعلق کبھی سنجیدگی سے غور ہی  نہیں کرتے۔ کتے کو چھوڑ کر کان کے پیچھے بھاگنے سے کیا حاصل۔ امریکی جنگ میں ہر اول دستہ بننے کے ثمرات سیمٹتے ہوئے  ہمیں کسی طور کراہنا  نہیں چاہیے۔
دہشت گردی کے واقعات کے ڈھانڈے مذہبی منافرت سے ملانا کوئی مشکل بات نہیں لیکن کیا ہم میں سے کوئی اس بات پر غور کرنا چاہے گا کہ اس کے پیچھے سالوں کی معاشی، معاشرتی، سماجی ناہمواریوں اور ناانصافیوں کا وجود بھی ہے۔ اس کے پیچھے  بین الاقوامی کھلاڑی بھی ہیں، مقامی رکھیلیں بھی اور بے وقوف، پرپگینڈے   کا شکار عوام بھی۔
اور اس کے پیچھے ہمارا مین اسٹریم میڈیا بھی ہے۔ وہی میڈیا جو ہمیں  دن رات مذہبی ہم آہنگی کا درس دیتے نہیں تھکتا۔ وہ اخبارات و رسائل جو صبح شام  بین المسلکی محبت کے پرچارک کا ڈھونگ کرتے ہوئے اکتاتا نہیں۔ بین السطور ، ڈھکے چھپے طریقے سے نفرت، دشمنی، غصہ، اور احساس کمتری کا ٹیکا بھی لگاتا جاتا ہے۔ یہ الگ بات کہ ٹیکے کی سوئیاں اتنی باریک  کہ ہمیں محسوس نہیں ہوتا اور زہر ہماری رگوں میں اتر چکا ہوتا ہے۔

  بی بی سی کو ہی لی جئے ۔آزاد ، بے باک، لبرل صحافت کا علمبردار، سچائی کا ٹھیکدار اور غیرجانبداری کا دعوی دار۔
لیکن افسوس صد افسوس جب ایسے بین القوامی صحافتی ادارے کی طرف سے غیر محسوس طریقے پر نفرتوں کو بڑھاوا دینے کی کوششیں ہو رہی ہوں تو پھر یہ کہنے میں کیا مضائقہ کہ پاکستان میں غیرملکی ، استعماری، ایجنٹ اپنا خنجر آستیوں میں رکھے ان ہی زرائع کو استعمال کرتے ہوئے ہماری پشت میں گھونپنے کی کوشش کرتے ہیں۔

  لاہور میں ایک ڈاکٹر اور اس کا بیٹا قتل ہوتا ہے۔ اور خبر بنتی ہےشعیہ قتل۔  کراچی میں دس افراد مارے جاتے ہیں نہ مسلک بتایا جاتا ہے نہ فرمایا جاتا ہے کہ فرقہ وارانہ بنیادوں پر کوئی "سُنی" قتل ہوا ہے۔
 کیا بی بی سی مذہبی منافرت پھیلانے میں پیش پیش ہے؟
 کیا  مقتول کا مسلک بتلانا ضروری ہوتا ہے۔ اور اگر ضروری ہوتا ہے تو "سنی" اس  نمائش و فہمائش سے محروم کیوں ہیں۔ پھر بی بی سی والوں کو صبح قتل ہونے والے کے بارے   شام تک کیسے معلوم پڑ گیا کہ مقتول ڈاکٹر اور ان کا صاحبزادہ ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہوئے ہیں؟
زاتی دشمنی، ڈکیتی کی واردات، خاندانی جھگڑے کیا صرف "سنی" کے لئے ہی رہ گئے ہیں۔ اور اہل تشیع کا ہر مرنے والا کیا "ٹارگٹ کلنگ" کا شکار ہے۔
زرا سوچئے!



Sunday, February 17, 2013

ڈھڈو کے قیمے

بچپنے میں سنتے تھے کہ کسی مقام سے "کبابوں" والا پکڑا گیا ۔ وجہ !  جی وہ  "ڈھڈو" کا قیمہ بنا کر کباب بناتا تھا۔ کہیں کانوں میں پڑتا کہ کسی شہر میں  کسی ہوٹل کی  لذیذ  مٹن کڑاہی، کسی "کتے" کے گوشت کی مرہون منت تھی۔ کسی قصاب کے گوشت کی زیادہ بِکری کی وجہ "کھوتے" کے گوشت کی ملاوٹ بیان کیا جاتا۔ کہیں پکوڑوں میں بھنگ ملا کر گاہکوں کو عادی کرنے کا  الزام لگتا۔ اور کہیں "چکن سموسہ" میں "چوے" بھون بھون کر ڈالنے کی کہانیاں جنم لیتی تھیں۔ یہ تو بچپن کی کھتائیں ہیں۔ والدین اپنے بچوں کو  بازاری چٹ پٹی چیزیں کھانے سے روکنے کے لئے ایسے بہانے بناتے ہی رہتے ہیں۔ جیسے "بائو" آ گیا کہہ کر بچوں کو سلایا جاتا ہے۔ لیکن پچھلے کچھ عرصے سے کیمرے کی آنکھ جو کچھ دکھا رہی ہے وہ سب دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ  پیارے پاکستان میں سب کچھ ہی لذیذ بنا کر کھلایا جا رہا اور " ہم عوام" چسکے لے لے کر سب  "ڈپھے" جا رہے ہیں۔
ہمارے معدوں کی مانند ہمارے دماغوں میں بھی ایسی ہی "حرام دیاں" اشیاء مصالحے لگا لگا کر، کڑاہیوں میں بھون بھون کر ، خوبصورتی سے سجا سجا کر  "گھسیڑی" جا رہی ہیں۔ اور ہم  سدا کہ چسکورے    "لیائی" جائو کای آوازیں لگاتے جا رہے ہیں۔
کل "بے بےسے" کی ویب سائیٹ پر لاہور میں منعقدہ ایک "کتب میلے" کا حال بیان ہوا۔ 
 اچھی بات ہے۔ ایسے مواقع کی کوریج بہت ضروری اور اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔  اور پڑھتے ہوئے یوں ہی محسوس ہوا کہ "مٹن کڑاہی" کی خوشبو نتھنوں میں گھس کر رال ٹپکنے کا بندوبست کر رہی ہو۔ لیکن آخری پیرے تک پہنچ کر نجانے کیوں پچھلے دنوں بھارتی چینل پر نشر کردہ  وڈیویاد آ گئی.جس میں گھر کی پرانی ملازمہ ہنڈیا پکاتے ہوئے، ساڑھی کا پلو ہٹا کر گلاس میں   موت کرتی ہے۔ اور پھر بڑے آرام سے وہ گلاس ہنڈیا میں انڈیل دیتی ہے۔ 
یہ صرف اک چھوٹی سی مثال ہے کہ ہمارا میڈیا ہماری "دماغی غذائوں" اور ہمارے "نفسیاتی پکوانوں" میں کیا کچھ، اور کس ہوشیاری سے ملمع کاری کر کے ڈال رہا ۔

Saturday, February 16, 2013

تشنگی


Broken Heart by Katerina Caristan

My heart became empty. Once again. Once more I have failed and I have depended on something that wasn’t real. It felt real and I almost got fooled but it was like a mirage in desert. Just an illusion. 
At the bottom of my heart there are things and wishes and feelings that only me and Allah knows…there are certain emotions that I try to guard tightly so they don’t surface to the outside world, because when they do I become vulnerable. I become exposed and easy target. My soul continues to search for the other half that will complete me in this life. The one person who will fulfill my days with laughter love and happiness and my nights with serenity and peace. 
I continue to search for answers and I continue to fail. There are moments when I feel I am getting closer but the moment I become relaxed and feel I can almost reach it is the exact moment when everything crumbles and once again I fall down to my knees. My head touches the ground, my eyes fill up with tears and my heart bleeds…I want to say thousand words and all I am able to whisper is Ya Allah…. I feel ashamed of myself. And at that moment it’s just me and my Lord. He knows me and every corner of my heart. I have so much love for him and he is the only one that never disappoints me or hurts me.. Alhamdulillah. 
I feel angry at my self. I wish sometimes I can be mean and careless, but I cant. I trust. I depend on others the way I want them to depend on me. I expect all the things that I would do for the other person. Unfortunately it is not always the case. Some people come in my life just a visitors, some come to teach me a lesson and some come to stay..I am still waiting . I know you will stay one day. Is it today? This hour? this minute… 
Patience is what I ask of him always. It is something that I struggle with always. I trust his timing and everything that comes with it. But somedays it’s harder than others. Some days I feel lonelier. Its December,,another day and another month. The leaves fall of trees and it gets chilli. I will wait for the spring . And maybe my heart will bloom like flower after winter. But for now…it will sleep.


ترجمہ
میرا دل ایک بار پھر خالی ہو چکا ہے۔ ایک بار پھر میں  نےبے عقلوں کی مانند ایک ایسی شے پر بھروسا کر لیا جس کی کوئی حقیقت نہیں تھی، جو فقط سراب تھی، حباب تھی۔ میرے دل کی اتھاء گہرائیوں میں خواہشات کا بسیرا ہے، میرا دل تمنائوں کی آماجگاء ہے، جنہیں صرف میں جانتا ہوں یا میرے رب کو معلوم ہیں۔ دل کے نہاں خانوں میں چھپے ایسے بےشمار جذبات ہیں جنہیں میں نے سینت سینت کر رکھا ہوا ہے۔ دنیا والوں کی نگاہوں سے اوجھل، کیوں کہ اگر میرے جذبات کی بھنک  لوگوں کو ہو جائے تو وہ مجھ پر ہنسیں گے، پھبتیاں کسیں گے۔
میری روح سدا  اپنی تکمیل چاہتی ہے، ہمیشہ اپنے کھوئے ہوئے چین کو تلاشتی ہے۔ ایک ایسے ندیم کی کھوج میں رہتی ہے جو اسے مکمل پن کا احساس دلائے۔ میرا وہ ساتھی جو دن میں مسکراہٹوں سے، خوشیوں سے، محبتوں سے مجھے سرشار کر دے۔ اور رات کو اس کی بدولت چین اور سکون کی دولت حاصل ہو۔
میری جستجو جاری رہتی ہے اور ناکامی کا سامنا بھی اسی تواتر سے ہوتا ہے۔ کبھی ایسے لمحات بھی آتے ہیں جب مجھے محسوس ہوتا ہے کہ منزل قریب آ پہنچی، اور جب یہ احساس میرے پژمردگی میں ڈوبے اعضائ کو سکون بخشنے لگتا ہے۔ اور اسی لمحے سب کچھ اتھل پتھل ہو جاتا ہے۔
میں گھٹنوں کے بل گر جاتا ہوں، میرا سر سجدے میں جا لگتا ہے۔ اور آنسو میری آنکھوں سے رواں ہوتے ہیں۔ میں بہت کچھ کہنا چاہتا ہوں لیکن شدت جذبات کی وجہ سے میرے لبوں سے فقط "یا اللہ" ادا ہو پاتا ہے۔ مجھے خودپر شرمندگی ہوتی ہے۔ اس وقت میں ہوتا ہوں اور میرا رب ہوتا ہے، جو میرے دل کی ہر دھڑکن سے واقف ہے۔ وہ زات باری تعالی جو مجھے کبھی مایوس نہیں کرتا اور میرے دل میں اللہ کی محبت سب سے بڑھ کر ہے۔ اس نے ہمیشہ میرے زخموں کے لئے مرہم پیدا فرمایا۔ کبھی میرا جی چاہتا ہے کہ میں سب سے لاتعلق ہو جائوں ، بے پرواہ ہو جائوں، لیکن مشکل ہے، مجھے بھی دوسروں پر بھروسہ کرنا پڑتا ہے جیسے وہ مجھ پر کرتے ہیں۔ میں دوسروں سے بھی وہی توقعات وابسطہ کر لیتا ہوں کہ وہ مجھ سے ویسا سلوک کریں جیسی اچھائی میں کرتا ہوں۔ لیکن بدقسمتی سے ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا۔ کچھ لوگ میری زندگی میں مسافر کی طرح آئے، کچھ مجھے سبق سکھانے کو ٹکرائے اور چند ایک جو میرے ساتھ ساتھ رہتے ہیں۔ میں انتظار کر رہا ہوں۔ کسی بہترین لمحے کا، جب کوئی آئے گا، ابھی، اسی وقت یا کسی اور خوبصورت لمحے میں۔ میں اللہ سے صبر کی توفیق مانگتا ہوں۔ مجھے اس کے بہترین فیصلے کا یقین ہے۔ اور اس فیصلے کے خوبصورت ثمرات کا اندازہ بھی۔ لیکن کبھی کبھار کوئی دن، کوئی لمحہ بہت بھاری گزرتا ہے، میں خود کو تنہائی کے حصار میں محسوس کرتا ہوں۔ دسمبر کا ایک اور سرد دن، شجر اپنا سبز لبادہ اتار رہے ہیں۔ پیلے پتوں کا نظارہ تکلیف دہ ہے۔ مجھے بہار کا انتظار ہے۔ شاید میرے دل کی کلی بھی کھِل اٹھے۔ میرا افسردہ دل بھی مسکرائے۔ لیکن ابھی اس پر اداسی کی دھند چھائی ہوئی ہے۔

Thursday, February 14, 2013

اُدھڑی عِجت


 بھلا سا نام تھا اس کا۔ لیکن زہن پر زور دینے سے فقط اس کی شبیہ ابھری اور اس کی "چھیڑ" یاد آئی۔   "شبراتی بمب"  شاید  ہم  نے ہی اسے یہ لقب دیا تھا ۔ جس کی وجہ پٹاخے کی آواز سن کر اس کا  چیخنا بھی تھا  ۔   اور اس کے علاوہ     اس کے حلیے ، جسم اور چال ڈھال کی بنا۔گول مٹول ، گٹو سا ، چہرہ چھوٹا سا  سرخی مائل اور سر بھی قدرے پچکا ہوا۔  یوں لگتا جیسے رسیوں والے بمب کے اوپر  پٹاس کی نلی رکھی ہو۔ آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئی۔ پلکیں ہمیشہ چپکی ہی رہتیں جوں کسی نے گوند ڈال کر جوڑ دی ہوں، اور وہ مجبوری کے تحت غور سے دیکھ رہا ہو۔ موٹی سی ناک اور نتھنوں سے  ہمیشہ غباروں کا  اخراج۔ جو ہوا کے زور سے پھٹتے اور شبراتی بمب پہلے ہاتھ کے پچھلی طرف سے ، پھر ہتھیلی سے صاف کرتے ہوئے پورے چہرے پر مل دیتا۔  مٹیالی شرٹ جس کی جیب ہمیشہ ہی ایک  طرف سے پھٹ کر باہر کو جھانکتی رہتی۔ سرمئی پینٹ کے پائینچے قدرے گھٹوں تک، زپ ہمیشہ ہی ٹوٹی ہوئی، اور پچھواڑے سے قدرے کھنچی کھنچی جیسے زبردستی ٹانگی گئی ہو۔ سردیوں میں کروشیے سے بنی نیلی جرسی اور چھجے والا ٹوپ  پہن کر آتا   تو یوں نظر آتا جیسے  کسی نے  ٹوکرے میں گُڈا بٹھا کر اسے نیلا پردہ کرا دیا ہو۔
یہ  بات بھی سردیوں کی ہی ہے۔ تیسری جماعت کے شروع میں موصوف کسی وجہ سے سکول چھوڑ کر گئے، لیکن آگے قبولے نہ گئے اور واپس    ہمارے پلے آ پڑے۔  شبراتی بمب اپنی  بے تُکی شرارتوں اور جواب ملنے پر کُڑیوں سے بھی بھیڑا رونے کی وجہ سے ہم جماعتوں کے علاوہ میڈموں کا بھی ناپسندیدہ  بن چکا تھا۔ ایک دن  سہ ماہی ٹیسٹوں کے بعد جب ساری میڈمیں سکول کے صحن میں  موجود آم کے پیڑ کے پاس کرسیاں ڈالے دھوپ سینکتے ہوئے مالٹے چھیل چھیل کر کھا رہی تھیں۔     موضوع گفتگو  اچھے اور گندے بچوں کی طرف مُڑ گیا۔  ہماری میڈم جوش خطابت میں کہہ ئی کہ استاد پر بھی منحصر ہے ، وہ بچوں کو کیسی تربیت دیتا ہے کیا سکھلاتا ہے۔کسی نے ہماری  کلاس انچارج کو طعنہ دیا کہ "شبراتی بمب" کو تو تم سدھار نہیں سکیں۔ بات تو تکار تک بھی  پہنچی۔
خرابی قسمت "شبراتی بمب" کی  ۔ موصوف کوئی شکایت لے کر اس محفل میں جا پہنچے۔ غبارے پھلاتی ناک کو ہتھیلی سے رگڑتے ہوئے، بھاں بھاں روتے ہوئے، ہچکیاں لے لے کر جناب نے اپنا قصہ درد میڈموں کے گوش گزار کیا۔ خدا کی کرنی کہ  سہ ماہی امتحان میں بھی "انڈہ" لے کر میڈم کے لئے خفت کا سبب بن رہے تھے۔
مختصر یوں کہ  ہمیشہ کی کھلی زپ کو میڈم نے  بند کرنا چاہا اور شبراتی بمب کی "او"     کے بعد چیخیں سات جماعتوں نے سن لیں۔ زپ اپنا کام دکھا چکی تھی۔
لاڈ پیار، پچکار، دلاسہ، مالٹوں کا لالچ،  شرارت کرنے والے بُرے بچوں کو ڈنڈے سے مارنے کی تسلی۔ لیکن سب کارِ بے کار شبراتی  بمب کے بے سدھ  رونے کی آواز  نے جلاد قسم کی ہیڈ ماسٹرنی کو  بھی متوجہ کر لیا ۔جناب عالیہ  اپنے آفس سے باہر تشریف لائیں۔  معاملہ دیکھا اور غصے میں شبراتی بمب کو "کُکڑ" بنا دیا۔  
"کُکڑ  پن" شبراتی کو زیادہ دیر برداشت نہ ہوا اور    موصوف پیچھے کو گرے۔ اس دوران  تنگ پینٹ  پچھواڑے کے زور سے      اُدھڑ چکی تھی اور شبراتی کی شرٹ باہر نکالنے کے باوجود   اس کی "عجت" سکول کے سارے بچے دیکھ رہے تھے۔


Wednesday, February 6, 2013

رند بلا نوش کی توبہ (دوسرا حصہ)



حضرت شاہ ابرار صاحب (خلیفہ حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی )کے ایک خلیفہ حضرت مولانا حکیم محمد اختر صاحب نے اپنے ایک بیان میں جو کچھ ارشاد فرمایا ہے ، ملاحظہ ہو
 :
’’یہاں ایک بات یاد آئی ۔ جب اللہ تعالیٰ ہدایت کا دروازہ کھولتاہے تو جگرؔ جیسا شرابی توبہ کرتاہے ۔ میر صاحب جو میرے رفیق سفر جوہیں، انہوں نے جگر کو دیکھا ہے ،اتنا پیتاتھاکہ دوآدمی اٹھاکر اس کو مشاعرہ میں لے جاتے تھے مگر ظالم کی آواز ایسی غضب کی تھی کہ مشاعرہ ہاتھ میں لیتا تھا لیکن جب ہدایت کا وقت آگیا تو دل میں اختلاج شروع ہوا ۔ گھبراہٹ شروع ہوئی کہ اللہ کو کیا منہ دکھائوں گا۔ جب ہدایت کا وقت آیا تو دل کو پتہ چل گیا کہ کوئی ہمیں یاد کررہاہے   ؎
محبت دونوں عالم میں یہی جاکر پکار آئی
جسے خود یار نے چاہا اسی کویادِ یار آئی
حضرت نبانی رحمتہ اللہ علیہ تابعی ہیں، فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ کو یاد فرماتے ہیں تو مجھ کو پتہ چل جاتاہے کہ اللہ مجھے یاد فرمارہے ہیں ۔ خادم نے پوچھا کہ اس کی کیا دلیل ہے ؟ فرمایا کہ دلیل قرآن پاک کی ہے : ’’تم مجھ کو یاد کرو میں تم کو یاد کروں گا ‘‘۔
بہرحال جب جگرؔ صاحب کو اللہ تعالیٰ جذب فرمایا تو اس کے آثار ظاہر ہونے لگے   ؎
سُن لے اے دوست !جب ایام بھلے آتے ہیں
گھات ملنے کی وہ خود آپ ہی بتلاتے ہیں
غرض اب جگر ؔصاحب کی ہدایت کا آغاز ہوتاہے ۔ آغازِ ہدایت اس شعر سے ملا   ؎
اب ہے روز حساب کا دھڑکا
پینے کو تو بے حساب پی لی
یعنی اب دل دھڑ ک رہاہے کہ قیامت کے دن اللہ کو کیا جواب دوںگا جب وہ پوچھے گا کہ ظالم میں نے شراب کوحرام کیا تھا اور تو اس قدر پیتا تھا،تجھے شرم نہ آئی ،خیال نہ ہواکہ مجھے قیامت کے دن پیش ہوناہے ۔پس فوراً خواجہ عزیز الحسن صاحب مجذوب (خلیفہ حضرت اشرف علی تھانویؒ ، اور شاعر ان کا مجموعہ کلام  "کشکول مجذوب" کے نام سے موجود ہے ) سے مشورہ لیاکہ خواجہ آپ کیسے اللہ والے ہوگئے ؟ کس کی محبت نے آپ کو متبعِ سنت بنایا ؟آپ تو ڈپٹی کلکٹر ہیں ۔ ڈپٹی کلکٹر اور گول ٹوپی اور لمبا کُرتا اور عربی پاجامہ اور ہاتھ میں تسبیح !! میں نے دنیا میں کہیں ایسا ڈپٹی کلکٹر نہیں دیکھاہے ۔یہ آپ کی ’’ٹر‘‘ کس نے نکال دی اے مسٹر؟فرمایا تھا نہ بھون میں حکیم الامت نے یہ ٹر نکالی مسٹر کی ٹرکو مس کردیا ۔ تو کہا کہ مجھ جیسا شرابی بھی تھانہ بھون جاسکتاہے ،شرط یہ ہے کہ میں وہاں بھی پیوں گا کیونکہ اس کے بغیر میرا گذارہ نہیں ۔خواجہ صاحب تھانہ بھون پہنچے اور کہاکہ جگرؔ صاحب اپنی اصلاح کے لئے آنا چاہتے ہیں لیکن کہتے ہیں کہ میں خانقاہ میں بھی بغیر پئے نہیں رہ سکتا ۔ اور جگر کا لکھا ہوا رقعہ جس پر صرف ایک شعر موجود تھا ۔ مولانا اشرف علی تھانوی کی خدمت میں پیش کر دیا۔

بہ سرِ تو ساقی مستِ من آید سرورِ بے طلبی خوشم
اگرم شراب نمی دھدبہ خمارِتشنہ لبی خوشم
(’’اے میرے مدہوش ساقی! تیرے دل میں یہ بات ہے کہ میں تجھ سے کچھ نہ مانگوں۔ ٹھیک ہے اگر تو مجھے شراب نہیں دیتا تو میں اِسی تشنہ لبی کے خمار میں ہی خوش ہوں۔‘‘)
جگر
مولانا خود بھی فارسی شاعری کا درک رکھتے تھے
چنانچہ انھوں نے جگر کے خط کو پڑھا تو ان کی مراد سمجھ گئے۔ اس کے بعد انھوں نے کاغذ کے دوسری جانب مندرجہ ذیل شعر لکھ کر جگر کو واپس بھجوا دیا۔
نہ بہ نثرِ نا تو بے بدل، نہ بہ نظم شاعر خوش غزل
بہ غلامی شہہ عزوجل و بہ عاشقی نبیؐ خوشم
(’’اے جگر تیرا تو یہ حال ہے لیکن میرا یہ حال ہے کہ نہ میرا کسی عظیم ادیب کی تحریر میں دل لگتا ہے اور نہ ہی مجھے کسی بڑے شاعر کی شاعری خوش کرتی ہے۔ بلکہ میں تو اللہ تعالیٰ کی بندگی میں اور اپنے پیارے نبی  کی غلامی میں ہی خوش رہتا ہوں۔‘‘)
مولانا تھانوی نے مسکرا کر کہا کہ جگرؔ صاحب سے میرا سلام کہنا اور یہ کہنا کہ اشرف علی ان کو اپنے مکان میں ٹھہرائے گا ،خانقاہ تو ایک قومی ادارہ ہے ،اس میں تو ہم اجازت دینے سے مجبور ہیں لیکن ان کو میں اپنا مہمان بنائوں گا ۔رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مکان میں جب کافر کو بھی مہمان بناتے تھے تو اشرف علی ایک گنہگار مسلمان کو کیوں مہمان نہ بنائے گا جو اپنے علاج اور اصلاح کے لئے آرہاہے؟جگرؔ صاحب نے جب یہ سنا تو رونے لگے اور کہاکہ آہ !ہم تو سمجھتے تھے کہ اللہ والے گنہگاروں سے نفرت کرتے ہوں گے لیکن آج پتہ چلا کہ ان کا قلب کتنا وسیع ہوتاہے۔
بس تھانہ بھون پہنچ گئے اور عرض کیا کہ حضرت اپنے ہاتھ پر توبہ کرادیجئے اور چار باتوں کے لئے دعا کیجئے ۔ سب سے پہلے تو یہ کہ میں شراب چھوڑ دوں ، پرانی عادت ہے   ع
چھٹتی نہیں منہ سے یہ کافر لگی ہوئی
اللہ تعالیٰ کے کرم سے اب مے نوشی چھوڑنے کا ارادہ کرلیااور دوسری درخواست دعا یہ کہ مجھ کو حج نصیب ہوجائے ۔ تیسری درخواست کہ میں داڑھی رکھ لوں او رچوتھی درخواست کہ میرا خاتمہ ایمان پر ہو۔ حضرت نے دعاء فرمائی ۔ اور صاحبان مجلس نے امین کہا۔
بعد ازاں مولانا تھانوی نے جگر سے کچھ سنانے کی فرمائش کی۔ جگر نے محفل میں نہایت سوزوگداز سے اپنی یہ غزل سنائی۔
کسی صورت نمودِسوزِ پنہانی نہیں جاتی
بجھا جاتا ہے دل چہرے کی تابانی نہیں جاتی
صداقت ہو تو دل سینوں سے کھینچنے لگتے ہیں واعظ
حقیقت خود کو منوا لیتی ہے، مانی نہیں جاتی
چلے جاتے ہیں بڑھ بڑھ کر مِٹے جاتے ہیں گر گر کر
حضور شمعِ پروانوں کی نادانی نہیں جاتی
وہ یوں دل سے گزرتے ہیں کہ آہٹ تک نہیں ہوتی
وہ یوں آواز دیتے ہیں کہ پہچانی نہیں جاتی
محبت میں ایک ایسا وقت بھی دل پر گزرتا ہے
کہ آنسو خشک ہوجاتے ہیں طغیانی نہیں جاتی
جگر وہ بھی سرتاپا محبت ہی محبت ہیں
مگر اِن کی محبت صاف پہچانی نہیں جاتی

جگرؔ صاحب تھانہ بھون سے واپس آئے تو شراب چھوڑ دی ،توبہ کرلی شراب چھوڑنے سے بیمار ہوگئے ۔ ڈاکٹروں کے بورڈ نے معائنہ کیا اور کہاکہ جگر ؔصاحب آپ کی موت سے ہم بے کیف ہو جائیں گے آپ قوم کی امانت ہیں تو تھوڑی سی پی لیجئے تاکہ آپ زندہ تو رہیں ۔ جگرؔ صاحب نے کہاکہ اگر میں تھوڑی تھوڑی پیتا رہوں گا تو کب تک جیتا رہوں گا ۔ ڈاکٹروں نے کہاکہ پانچ دس سال اور چل جائیں گے ۔فرمایا کہ دس سال کے بعد اگر میں شراب پیتے ہوئے اس گناہِ کبیرہ کی حالت میں مروں گا تو اللہ کے غضب او رقہر کے سائے میں مروں گا اور اگر ابھی مرتا ہوں جیسا کہ آپ لوگ مجھے ڈرا رہے ہیں کہ نہ پینے سے تم مرجائو گے تو میں اس موت کو پیار کرتاہوں ۔ ایسی موت کو میں عزیز رکھتاہوں کیونکہ اگر جگر ؔکو شراب چھوڑنے سے موت آئی تو اللہ تعالیٰ کی رحمت کے سائے میں جائوں گا کیونکہ یہ موت خدا کی راہ میں ہوگی کہ میرے بندہ نے ایک گناہ چھوڑ دیا ۔ اس غم میں یہ مراہے میری نافرمانی چھوڑنے کے غم میں اسے موت آئی ہے ،میرے قہروغضب کے اعمال چھوڑنے میں میرے بندہ نے جان دی ہے، یہ شہادت کی موت ہے ۔
غرض جگر ؔصاحب نے شراب چھوڑ دی اور جب حج کو جانے لگے تو داڑھی پوری ایک مشت رکھی ۔ سوچاکہ اللہ کو کیا منہ دکھائوں گا اور روضہ مبارک پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کیا منہ لے کر جائوں گا ۔
غالباً اسی زمانے کی بات ہے کہ ایک مرتبہ تانگے میں سوار ہو کر کہیں جا رہے تھے۔ تانگے والا باربار نہایت ترنم سے یہ شعر پڑھ رہا تھا:
چلو دیکھ کر آئیں تماشا جگر کا
سنا ہے وہ کافر مسلماں ہوگیا
تھوڑی دیر بعد تانگے والے نے پچھلی نشست سے ہچکیوں کی آواز سنی۔ پیچھے مڑ کر دیکھا تو ایک مولوی صاحب رو رہے تھے۔ تحقیق پر معلوم ہوا کہ یہی جگرمرادآبادی ہیں۔
حج کے متعلق دعا  بھی قبول ہوئی۔ ۱۹۵۳ء میں جگر کو حج بیت اللہ کی سعادت نصیب ہوگئی۔ حج کے ایام میں ایک اتفاقی حادثے کے سبب جگر کو مدینہ منورہ میں زیادہ دنوں تک قیام کا موقع بھی مل گیا۔ حج کے بعد جگر صاحب اکثر بے تکلف احباب میں فرمایا کرتے تھے۔ ’’میں نے 4 دعائیں کروائی تھیں۔ تین تو میری زندگی میں ہی پوری ہوگئیں اور چوتھی دعا (کہ خدا میری مغفرت کرد ے) بھی اِن شاء اﷲ قبول ہوگی۔‘‘ جگرصاحب کا اصل میدان غزل تھا۔ اسی میدان کے شاہ سوار تھے لیکن شاید بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ جگر نے کچھ نعتیں بھی کہیں۔ شراب نوشی کے بعد جگر نے جو پہلی نعت کہی وہ مکمل نعت اور واقعہ پہلے عرض ہو چکا ہے۔، اس کا مطلع یہ ہے
اِک رند ہے اور مدحتِ سلطانِ مدینہؐ
ہاں اِک نظرِ رحمت سلطانِ مدینہؐ
بشکریہ اردو ڈائیجسٹ، روزنامہ کشمیر عظمی

Saturday, February 2, 2013

رند بلانوش کی توبہ



رئیس المتغزلین حضرت جگر ؔمردآبادی پچپن ہی سے حسن پرست واقع ہوئے تھے۔ آٹھ نو سال کی عمر تھی جب اپنے چچا کے ایک کرایہ دار کی بیوی کا حسن ان کی آنکھوں میں سما گیا تھا۔اس کے بعد وحیدن، روشن فاطمہ،نسیم،سندری ، مندری اور شیرازن جیسی عورتوں کے حسن کاوہ شکار ہوتے رہے ور ان کے عشق میں بیمار بھی۔ چودہ پندرہ برس کی عمرمیں انگورکی بیٹی سے تعارف ہوا اور جب یہ کافر ادا منہ لگی تو پھر چھڑائے نہ چھٹی۔ لاکھ توبہ کرتے مگر انگور کی بیٹی ایک بار جب ان کے سامنے آجاتی توبہ دھری کی دھری رہ جاتی۔کبھی لہراکے پی جاتے تو کبھی شرماکے پی جاتے اور کبھی رحمت تمام کو باتوں باتوں میں بہلاکے پی جاتے۔شراب ان کی گھٹی میں اپنامستقربنا چکی تھی اوران کی شیروانی میں بوتل ہمیشہ پڑی ملتی۔کبھی اپنے مرشد حضرت اصغرؔ گونڈوی سے دعا کی درخواست کرتے اور اپنے ہی جیسا نرگس مستانہ بنانے کی فرمائش کرتے تو کبھی شاہ عبد الغنی منگلوری کے در پر حاضر ہوکررہنمائی کی التجا کرتے ۔ وہ اپنی رندی وبلانوشی پرنادم بھی ہوتے اور شرمندہ بھی ۔ اسے ترک کرنے کی کوشش بھی کرتے مگرجس دل پر پیہم وار لگے ہوں اس کے کاری زخم کو شراب کے علاوہ اور کس شے سے قرار مل سکتا تھا۔وہ آوارہ ہوگئے تھے، عینک فروشی سے جو کچھ ہاتھ آتا اسے شراب میں لٹادیتے اور عالم مدہوشی میںان کا جذبۂ شوق جدھر لے جاتا وہ پھرتے رہتے۔کئی کئی دن گھر نہیں آتے۔ جانے کہاں کہاں بیٹھ کر شراب پیتے رہتے۔جیسے جیسے دل پر وار ہوتا،ضرب لگتی دل کی آہ شاعری بن جاتی۔بڑی سادگی سے وہ اپنے قلب وجگرکے سوز پنہاں کو شاعری کے پیکر میں ڈھال دیتے۔جیسے جیسے درد بڑھتارہا، شغل مے نوشی اور بادہ نوشی میں اضافہ ہوتا رہا اور شاعری پروان چڑھتی رہی۔جب جگر کے مخصوص ترنم میں ان کا مخصوص کلام سامعین کی سماعتوں سے ٹکراتا تو دلوں میں گھر کرلیتا، سامعین جھوم جھوم جاتے عش عش کر اٹھتے۔وہ دن مشاعروں کے موسم بہار اور اردو شعر وادب کے عروج کے دن تھے۔جگر ؔمرادآبادی کا نام ہی مشاعروں کی کامیابی کی ضمانت بن گیا تھا۔ شاعری کی شہرت کے ساتھ مے نوشی میں بلا کا اضافہ ہوگیا تھا۔ منتظمین مشاعرہ انہیں بھر بھر کر پلاتے اور جی بھر کر سنتے اور حظ اٹھاتے۔کبھی شراب کے لیے انہیں عینکوں کاکاروبار کرنا پڑتا تھا مگراب یہ حالت تھی کہ انہیں شراب پلانے میں لوگ اپنی سعادت سمجھنے لگے تھے۔مشاعرہ جگرؔ اور شراب لازم ملزوم بن گئے تھے۔کوئی مشاعرہ جگرؔ کے بغیر کامیاب تسلیم نہیںکیا جاتا تو جگرؔ شراب کے بغیر کچھ پڑھ بھی نہیں سکتے تھے اور جب پڑھتے تو ایسا کلام سامنے آتا کہ گلی کوچوں میں مدتوں دہرایا جاتا۔مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ کوئی مذاق میں بھی کہہ دیتا’’ وہ دیکھوجگر صاحب آرہے ہیں‘‘تو بے شمار آنکھیں اس طرف اٹھ جاتیں۔

جگرؔ صاحب نے ہمیشہ شغل مے نوشی کی اور صرف غزلیں کہیں۔جن دنوں بھوپال ہاؤس میں جگر صاحب ٹھہرے ہوئے تھے نعت کے مشہور شاعراور زائرحرم کے خالق جناب حمیدؔ صدیقی بھی وہیں ٹھہرے ہوئے تھے اور جگرؔصاحب سے ملنے آیا کرتے تھے۔ایک مرتبہ حمیدؔ صدیقی ان سے ملنے آئے جگر ؔعالم سرشاری میں لیٹے ہوئے کوئی غزل گنگنا رہے تھے۔ تپائی پر بوتل رکھی ہوئی تھی۔ جیسے ہی حمیدؔ صدیقی پر نظر پڑی وہ گھبراگئے اور کہا میں نے آپ کو منع کیا تھا کہ ایسے وقت میرے پاس نہ آیا کریں۔ انہوں نے کہا حرج ہی کیا ہے۔ میں آپ کے اس شغل سے واقف بھی ہوںاور معترض بھی نہیں۔ جگرصاحب نے کہا بات معترض ہونے کی نہیں ہے اس عالم میں اگر میں آپ سے نعت سنوں تو کیسے سنوں۔ اور وہ آب دیدہ ہوگئے۔

جگرؔجیسے شرابی شاعر کا یہ اعلیٰ شعور۔ اللہ اکبر! جگرؔ نے کبھی نعت نہیں کہی صرف غزلیں کہتے رہے اور دل کا غبار کاغذ پر اُنڈیلتے رہے۔جگرؔ صاحب نے پہلی نعت اجمیر کے مشاعرے کے لیے کہی۔اس نعت کا عجیب وغریب شان نزول پاکستان کے مشہورومعروف تذکرہ وخاکہ نگار ڈاکٹر ساجد حمید نے کچھ ا س طرح بیان کیاہے :

’’ اجمیر میں نعتیہ مشاعرہ تھا، فہرست بنانے والوں کے سامنے یہ مشکل تھی کہ جگر ؔصاحب کو اس مشاعرے میں کیسے بلایا جائے ، وہ کھلے رند تھے اورنعتیہ مشاعرے میں ان کی شرکت ممکن نہیں تھی۔ اگر فہرست میں ان کانام نہ رکھا جائے تو پھر مشاعرہ ہی کیا ہوا۔ منتظمین کے درمیان سخت اختلاف پیداہوگیا۔ کچھ ان کے حق میں تھے اور کچھ خلاف۔

در اصل جگرؔ کا معاملہ تھا ہی بڑا اختلافی۔ بڑے بڑے شیوخ اور عارف باللہ اس کی شراب نوشی کے باوجود ان سے محبت کرتے تھے۔ انہیں گناہ گار سمجھتے تھے لیکن لائق اصلاح۔ شریعت کے سختی سے پابند مولوی حضرات بھی ان سے نفرت کرنے کے بجائے افسوس کرتے تھے کہ ہائے کیسا اچھا آدمی کس برائی کا شکار ہے۔ عوام کے لیے وہ ایک اچھے شاعر تھے لیکن تھے شرابی۔ تمام رعایتوں کے باوجود مولوی حضرات بھی اور شاید عوام بھی یہ اجازت نہیں دے سکتے تھے کہ وہ نعتیہ مشاعرے میں شریک ہوں۔آخر کار بہت کچھ سوچنے کے بعد منتظمین مشاعرہ نے فیصلہ کیا کہ جگر ؔکو مدعو کیا جانا چاہیے۔یہ اتنا جرات مندانہ فیصلہ تھا کہ جگرؔ کی عظمت کا اس سے بڑااعتراف نہیں ہوسکتاتھا۔جگرؔ کو مدعو کیا گیا تووہ سر سے پاؤں تک کانپ گئے۔ ’’میں رند، سیہ کار، بد بخت اور نعتیہ مشاعرہ! نہیں صاحب نہیں‘‘ ۔

اب منتظمین کے سامنے یہ مسئلہ تھا کہ جگر صاحب ؔکو تیار کیسے کیا جائے۔ ا ن کی تو آنکھوں سے آنسو اور ہونٹوں سے انکار رواں تھا۔ نعتیہ شاعر حمید صدیقی نے انہیں آمادہ کرنا چاہا، ان کے مربی نواب علی حسن طاہر نے کوشش کی لیکن وہ کسی صورت تیار نہیں ہوتے تھے، بالآخر اصغرؔ گونڈوی نے حکم دیا اور وہ چپ ہوگئے۔

سرہانے بوتل رکھی تھی، اسے کہیں چھپادیا، دوستوںسے کہہ دیا کہ کوئی ان کے سامنے شراب کا نام تک نہ لے۔دل پر کوئی خنجر سے لکیر سی کھینچتا تھا، وہ بے ساختہ شراب کی طرف دوڑتے تھے مگر پھر رک جاتے تھے، شیرازن سے ہمارا رشتہ فراق کا ہے لیکن شراب سے تو نہیں  لیکن مجھے نعت لکھنی ہے ، شراب کا ایک قطرہ بھی حلق سے اتراتو کس زبان سے اپنے آقا کی مدح لکھوں گا۔ یہ موقع ملا ہے تو مجھے اسے کھونانہیں چاہیے، شاید یہ میری بخشش کا آغاز ہو۔ شاید اسی بہانے میری اصلاح ہوجائے، شایدمجھ پر اس کملی والے کا کرم ہوجائے، شایدخدا کو مجھ پر ترس آجائے۔

ایک دن گزرا، دودن گزر گئے، وہ سخت اذیت میں تھے۔ نعت کے مضمون سوچتے تھے اور غزل کہنے لگتے تھے، سوچتے رہے، لکھتے رہے، کاٹتے رہے، لکھے ہوئے کو کاٹ کاٹ کر تھکتے رہے، آخر ایک دن نعت کا مطلع ہوگیا۔ پھر ایک شعر ہوا، پھر تو جیسے بارش انوار ہوگئی۔ نعت مکمل ہوئی تو انہوں نے سجدۂ شکر ادا کیا۔

مشاعرے کے لیے اس طرح روانہ ہوئے جیسے حج کو جارہے ہوں۔ کونین کی دولت ان کے پاس ہو۔ جیسے آج انہیں شہرت کی سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچنا ہو۔ انہوں نے کئی دن سے شراب نہیں پی تھی، لیکن حلق خشک نہیں تھا۔ادھر تو یہ حال تھا دوسری طرف مشاعرہ گاہ کے باہر اور شہرکے چوراہوں پر احتجاجی پوسٹر لگ گئے تھے کہ ایک شرابی سے نعت کیوں پڑھوائی جارہی ہے۔ لوگ بپھرے ہوئے تھے۔ اندیشہ تھا کہ جگرصاحب ؔ کو کوئی نقصان نہ پہنچ جائے یہ خطرہ بھی تھاکہ لوگ اسٹیشن پر جمع ہوکر نعرے بازی نہ کریں۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے منتظمین نے جگر کی آمد کو خفیہ رکھا تھا۔وہ کئی دن پہلے اجمیر پہنچ چکے تھے جب کہ لوگ سمجھ رہے تھے کہ مشاعرے والے دن آئیں گا۔جگر اؔپنے خلاف ہونے والی ان کارروائیوںکو خود دیکھ رہے تھے اور مسکرارہے تھے    ؎

کہاں پھر یہ مستی کہاں ایسی ہستی

جگرؔ کی جگر تک ہی مے خواریاں ہیں

آخر مشاعرے کی رات آگئی۔جگر کو بڑی حفاظت کے ساتھ مشاعرے میں پہنچا دیا گیا۔

’’رئیس المتغزلین حضرت جگر مرادابادی!‘‘

 اس اعلان کے ساتھ ہی ایک شور بلند ہوا، جگر نے بڑے تحمل کے ساتھ مجمع کی طرف دیکھا…’’آپ لوگ مجھے ہوٹ کررہے ہیں یا نعت رسول پاک کو،جس کے پڑھنے کی سعادت مجھے ملنے والی ہے اور آپ سننے کی سعادت سے محروم ہونا چاہتے ہیں‘‘۔شور کو جیسے سانپ سونگھ گیا۔ بس یہی وہ وقفہ تھا جب جگر کے ٹوٹے ہوئے دل سے یہ صدا نکلی ہے

اک  رند ہے اور مدحتِ سلطان مدینہ

ہاں کوئی نظر رحمتِ سلطان مدینہ

جوجہاں تھا ساکت ہوگیا۔ یہ معلوم ہوتا تھا جیسے اس کی زبان سے شعر ادا ہورہا ہے اور قبولیت کا پروانہ عطا ہورہا ہے۔نعت کیا تھی گناہگار کے دل سے نکلی ہوئی آہ تھی،خواہشِ پناہ تھی، آنسوؤں کی سبیل تھی، بخشش کا خزینہ تھی۔وہ خود رو رہے تھے اور سب کو رلا رہے تھے، دل نرم ہوگئے، اختلاف ختم ہوگئے، رحمت عالم کا قصیدہ تھا، بھلا غصے کی کھیتی کیونکر ہری رہتی۔’’یہ نعت اس شخص نے کہی نہیں ہے، اس سے کہلوائی گئی ہے‘‘۔مشاعرے کے بعد سب کی زبان پر یہی بات تھی۔ اس نعت کے باقی اشعار یوں ہیں:

دامان نظر تنگ و فراوانیِ جلوہ

اے طلعتِ حق طلعتِ سلطانِ مدینہ

اے خاکِ مدینہ تری گلیوں کے تصدق

تو خلد ہے تو جنت ِسلطان مدینہ

اس طرح کہ ہر سانس ہو مصروفِ عبادت

دیکھوں میں درِ دولتِ سلطانِ مدینہ

اک ننگِ غمِ عشق بھی ہے منتظرِ دید

صدقے ترے اے صورتِ سلطان مدینہ

کونین کا غم یادِ خدا ور شفاعت

دولت ہے یہی دولتِ سلطان مدینہ

ظاہر میں غریب الغربا پھر بھی یہ عالم

شاہوں سے سوا سطوتِ سلطان مدینہ

اس امت عاصی سے نہ منھ پھیر خدایا

نازک ہے بہت غیرتِ سلطان مدینہ

کچھ ہم کو نہیں کام جگرؔ اور کسی سے
کافی ہے بس اک نسبت ِسلطان مدینہ  


جاری ہے۔
بشکریہ 

ڈاکٹر شمس کمال انجم

kahsmiruzma.net

....................................................

Flickr