Tuesday, June 11, 2013

بدنامی

حضور! حضور! ہم سے کیا غلطی ہوئی؟ کیا رات والا مجرا جناب کو پسند نہ آیا؟
جناب کی حساس طبعیت پر کہیں " طبلے" کی تھاپ تو گراں نہیں گزری!
کہیں ایسا تو نہیں پازیب کی جھنکار نے کانوں میں ناگوار احساس کو بیدار کیا ہو!
یا پھر گھنگھروئوں کی  آواز حضور پر بھاری ہو!
ہمارے ٹھمکوں میں کوئی کمی رہ گئی؟
آواز کی لوچ صحیح نہ تھی!
پان کی گلوری میں چونا زیادہ تو نہ لگا دیا موئی نے!
راگنی نے حضور کے مزاج کو افسردہ تو نہ کر دیا!
کیا موئی نے خوشبو لگا رکھی تھی؟
اف یہ گرمی۔ حضور کہیں پسینے کی بو تو ناگوار نہیں گزری؟
اے ہے! کیا معلوم  کم بخت نے کمریا کو لچکایا بھی کہ نہیں۔
ہماری لونڈیا کی خؤش لباسی میں کوئی شکن تو نہ رہ گئی؟
حضور! بتائیے ناں۔
فانوس کی روشنی تو کہیں آنکھوں کو چھب نہ گئی ہو!
اے   سرمیلے!
گائو تکئے کو دیکھ زرا۔ کہیں کوئی تکلیف دہ شے تو نہیں گھسی اس میں۔
اور ہاں نشست کو بھی اچھی طرح جھاڑیو!
حضور۔ ہماری بدنصیبی جو آپ کا مزاج بھاری ہو گیا۔ ورنہ ماں قسم ہم نے تو اپنی سی کسر نہ چھوڑی آپ کی خوشی کے لئے۔
"حضور" (گہری سوچ سے چونکتے ہوئے۔
اوں! کیا ہوا زہرہ بائی؟ کیا بڑبڑائے جا رہی ہو؟
حضور! آپ کا وہ لونڈا ہے ناں، وہ کیا نام اس کا ۔ ارے وہ سرخ بالوں والا۔
سارے شہر میں ڈھنڈیا پٹوا رہا کہ ہم کوٹھے  کے لئے مجرے کا سامان اس سے خریدتے۔
"حضور"، تو کیا ہوا؟ اس سے خرید لیا کوئی فرق پڑا؟

نہیں حضور! لیکن کوٹھے کی بدنامی ہوتی ہے۔

ہماری جنگ، پیاری جنگ

سن 2004  کا مارچ۔  ہلکی ہلکی سردی  ،لیکن ماحول الیکشن کی گہما گہمی سے گرم۔ ماہرین، مبصرین اور تجزیہ نگار اس بار بھی پیپلز پارٹی کے جیتنے کے  سو فیصدی امکانات ظاہر کر رہے تھے۔ سیاسی پنڈت  پیپلز پارٹی آف اسپین کے پچھلے ٹریک ریکارڈ ، معاشی پالیسیوں، عوام دوست اقدامات کو دیکھتے ہوئے سوشلسٹ پارٹی کے جیتنے کے لئے بہت کم نمبر دینے کو تیار تھے۔
گیارہ مارچ 2004 اسپین کے عام ا نتخابات میں فقط تین دن باقی تھے۔ لوگ بے چینی سے ووٹنگ والے دن کا انتظار کرتے ہوئے ،  سیاسی تقریروں، مباحثوں اور ٹی وی پروگراموں  کی جانب   متوجہ تھے ۔  میڈرڈ کے ریلوے اسٹیشنوں پر قیامت ٹوٹ پڑتی ہے۔ یکے بعد دیگرے بم دھماکے۔ تباہ شدہ ریل گاڑیاں، جلے کٹے جسم۔  ایک سو نوے لاشیں اور ہزار کے قریب زخمی۔ سارا اسپین سوگ میں ڈوب جاتا ہے۔   مباحثوں کا رخ دھماکوں میں ہوئے جانی نقصان ، اس کی وجوہات اور اس کے پیچھے موجود ہاتھ تلاشنے کی طرف مڑ جاتا ہے۔  الزام القائدہ پر لگایا جاتا ہے۔ اور وجہ ہسپانوی دستوں کی عراق میں موجودگی۔سوشلسٹ پارٹی والے اعلان کرتے ہیں  کہ برسر اقتدار آتے ہی عراق سے اپنے فوجیوں کو واپسی کا حکم دیں گے۔ 14 مارچ کو مقررہ تاریخ پر انتخابات ہوتے ہیں اور سیاسی نجومیوں کی تمام تر پشین گوئیوں کے برعکس سوشلسٹ پارٹی بھاری اکثریت سے انتخابات جیت جاتی ہے۔ ماہرین جیت کی وجہ فقط عراق سے فوجیوں کی واپسی کے اعلان کو قرار دیتے ہیں۔   یاد رہے کہ اس سے تین مہنے قبل عراق میں سات ہسپانوی سپاہی بم دھماکے میں اپنی جان سے ہاتھ دھو  چکے تھے۔
پیپلز پارٹی کی تمام تر بہترین کارکردگی کے باوجود ہسپانوی عوام نے فقط آخری  پلوں میں  ایک بم دھماکے کی زمہ داری اس حکومت  پر ڈالی اور انہیں بری شکست سے دو چار کر دیا۔
سوشلسٹ پارٹی کاوزیر اعظم دوسرے دن اعلان کرتا ہے کہ عراق سے تیرہ سو فوجیوں کی واپسی کا حکم جاری کر دیا گیا ہے۔
امریکہ، نیٹو، یورپی یونین، اتحادی، دوست اپنی سی کر کے دیکھ لیتے ہیں، دھونس، دھمکیاں، پابندیوں کی باتیں۔ لیکن ہسپانوی حکومت کا ایک ہی جواب " جنگ ہماری نہیں، ہم کیوں مفت میں اپنے بندے مرواتے پھریں"۔ جائو! جو کرنا ہے تم کرو"۔
یوں اسپین نے اپنے تمام نیٹو ، یورپی اتحادیوں، دوستوں کی ناراضی مول لی لیکن صرف ایک سو نوے بندے مروا کر سدھر گیا اور عراق سے اپنے لونڈے واپس بلوا لئے، دہشت گردی کی جنگ کے متعلق اپنی داخلہ و خارجہ پالیسی میں بہت ساری تبدیلیاں کر ڈالیں۔
اور ایک پاکستانی قوم ،ایک لاکھ کے قریب بندہ مروا لیا۔ اربوں کا نقصان کروا لیا۔ لاکھوں اپاہج ہو گئے۔ ملک کا دیوالیہ نکل گیا۔ "گھر آٹا نہیں اور امان دانے پسوانے گئی" والا حساب ہو رہا لیکن  کوئلوں کی دلالی میں ایسا لطف آ رہا کہ  پرائے چولہے کی آگ کو اپنے بستر پر رکھ کر ہلارے لے رہے۔
معلوم ہی نہیں کہ جنگ کہاں سے شروع ہوئی! کس نے شروع کی! کیوں شروع ہوئی! ایک لاکھ (اف خدایا! ایک لاکھ کی گنتی گنتے بھی سانس پھول جاتی) انسانوں کو کھا گئی "ہماری جنگ"۔ لیکن نہ سر نہ پیر! نہ منہ نہ متھا۔
شاید اس بار سوئی قوم نے اس "ہماری جنگ" کے خلاف بھی فیصلہ دیا ہے اور پچھلے تمام "گندے انڈوں" کو اٹھا کر باہر گلی میں پھینک دیا ہے۔ نئی حکومت کو جہاں معاشی مسائل، بجلی، گیس، مہنگائی کے معاملات حل کرنے کا مینڈیٹ ملا ہے وہاں بجا کہ خارجہ و داخلہ پالیسیوں سے ستائی قوم نے ان "امور" کی تسلی بخش بہتری کے لئے بھی ووٹ ڈالا ہے۔ نون لیگ ، جماعت اسلامی، پی ٹی آئی، جے یو آئی، یہ تمام جماعتیں اس "ہماری جنگ" کو پرائی جنگ سمجھنے والی جماعتیں ہیں اور اس کا حل گفت و شنید، مذاکرات اور بات چیت میں تلاشنے کی پالیسی کے بیانات داغتی رہی ہیں۔  اب اللہ کرے کہ  میاں نواز شریف ساب بھی "جوز لیوس" ( 2004 کا ہسپانوی وزیر اعظم) کی طرح دلیرانہ، جرات مندانہ اور حقیقت  پر مبنی قوم کی امنگوں کے مطابق اس جنگ سے " خروج" کا فیصلہ کریں۔ ہم دعا گو ہیں کہ "پھجے کے پائیوں"  میں وہ غیرت موجود ہو جس کی ایسے فیصلوں کے لئے اشد ضرورت ہوتی ہے۔

بیکار کی بیگار سے جان چھڑا کر کم از کم اپنے بندے تو مرنے سے بچائیں۔ طالبان سے مذاکرات کرنے ہیں یا لڑائی کرنی ہے بعد کی بات لیکن اس میں تو دو رائے نہیں کہ "ہماری جنگ" نے ہی ہمیں اس مقام پر لا کھڑا کیا کہ ہمارا بدن چور چور اور انگ انگ  زخمی، اور زخم زخم رس رہا ہے۔

Flickr