Thursday, February 27, 2014

ہر جابر وقت!!

شمال مغرب میں تباہی کے بادل منڈلا رہے۔ توپیں بجلیاں بن کر کڑکنے کو تیار اور آہنی پرندے پنجوں میں گولہ بارود بھر کر گرانے کو بے چین۔
غریب بستوں کو ملیامیٹ کرنے کا منصوبہ آخری مراحل میں، پچیس پچاس "بے زبانوں" کو ہر روز "طالبان" کہہ کر زندہ درگور کرنے کے جواز تراشے جا رہے۔ "بے جوڑ دوستانہ" دامے درمے سخنے فوج اور حکومت کو کھینچ کھانچ کر "آپریشن تھیٹر" میں لے آیا ہے۔ بے گناہوں کا خون پہاڑوں کو آبشار بنائے گا اور میدانوں کو سیراب کرے گا۔ شمال پھر سرخ ہونے جا رہا، افق کی سمت لالی بڑھے گی۔ لیکن جلتے جسموں کی بو، تڑپتے انسانوں کی چیخیں، بچوں کی سسکیاں، عورتوں کے بین، بوڑھوں کے بددعائیں شاید ہم تک نہ پہنچ سکیں، شاید ہی کوئی ملالہ "میران شاہ" سے بی بی سی کو اپنی ڈائری بجھوا سکے، شاہد ہی کسی یوسفزئی کے گھر پر ڈاکومنٹری بن پائے۔ شاید ہی ہمیں کبھی معلوم ہو سکے کہ "ملالہ کی دوست" کی ڈائری پر کسی فوجی نے "رومانوی اشعار" لکھے۔ خاک نشینوں کی گنتی کون کرے گا، لہو میں لتھڑے لاشوں کا حساب کس لئے ہو گا۔ بس "آپریشن" کے آخر میں کہہ دیا جائے گا۔ کامیاب رہا!۔
قوم کے کانوں میں "امریکی ڈالر زدہ" جہاد کا کا "بھونپوں" بجایا جا رہا۔ طبل جنگ کی ڈم ڈم سنائی دے رہی۔ پاک سرزمین کو "دہشت گردی" کے پنجوں سے نکالنے کی "امید" دکھائی جا رہی۔
قوم کو "وار ہسٹریا" میں مبتلا کیا جا رہا۔ بےہوشی والی دوا اس قدر چھڑکائی جا رہی کہ ہوش آنے پر بھی ہوش نہ آنے کا۔

نہ تباء شدہ گائوں ، نہ ملیامیٹ علاقہ، نہ گری چھتوں کا دلدوز منظر، نہ ٹوٹی ڈیوڑیوں کا دل دہلانے والا نظارہ، نہ لہو لہان لاشوں کا زکر، نہ چیتھڑے بنے انسانوں کا تذکرہ، نہ معصوم بچوں کے سرخ لاشے، نہ عورتوں کے کٹے پھٹے اجسام، نہ چیخیں، نہ آہیں، نہ سسکیاں، نہ شور شرابا، نہ رولا رپا نہ بدعائیں نہ التجائیں۔ نہ بزرگوں کی پگڑیوں کی بے توقیری کا دھڑکا، نہ عزت ماب مائوں بہنوں کی بے عزتی کا احساس۔ نہ ہنستے بستے مسکینوں کی بے گھری کا غم، نہ لٹے پٹھے قافلوں کا الم۔

نو بجے کے شو میں سنئیے دیکھیے اور سمجھئے فقط "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دہشت گرد مارے گئے"

باقی کا تجزیہ ""تاریخ اکہتر کے آئین"" کی روشنی میں خود کر لے گی۔


بیرون دریا کچھ نہیں۔



" گنہ گار ہو اس لئے اسلامی نظام کی بات نہ کرو" اخیر نتیجہ تمام تر منطق کا یہی نکلتا، یعنی چرسی کو ہسپتال کا نام نہیں لینا چاہئے، بیمار ، علاج کا سوچ نہیں سکتا!  مریض دوا کی گفتگو نہ کرے!! اور زخمی پھاہوں کا زکر نہ چھیڑے!! وہ جو کیچڑ میں پھسل کر گر پڑا اسے صفائی کو یاد رکھنے کی ضرورت نہیں، وہ جو کھڈے میں پڑا ہوا اسے بولنا نہیں چاہئے کہ "اُس طرف کا راستہ ہموار ہے، اِس طرف کو مت آئیو" پہلے  صحت مند ہو لو پھر صحت افزا مقام کو چلیں گے۔ پہلے ناسور ٹھیک ہو  جائے ، مرھم بعد میں دیکھیں گے۔   خلافت کی بات کرتے ہو! "ہوں" پہلے چھ فٹ  پر اسلام تو نافذ کر لو۔ اسلامی قوانین کا  زکر کرتے ہو! پہلے  اپنا آپ تو سنوار لو۔   بات تو مناسب لگتی  ۔"کتنے منافق ہیں، چوری بھی کریں گے، رشوت بھی کھائیں گے، دھوکہ بھی دیں گے، ناحق مال بنائیں گے، قتل و غارت بھی کریں گے، زنا کو معیوب نہ سمجھیں گے، شراب کے نشے میں دھت رہیں گے، "ہوں" بڑے آئے اسلامی نظام کے دعویدار۔    منطق کی میزان پر تولیں، انصاف کی نظر سے دیکھیں تو یہ تمام ، عام، لوگ اسی معاشرے، اسی سماج کا حصہ ہیں۔ ممکن ان کی "باقائدہ تعلیم" کم ہو،  وہ زمانے کے حالات سے نابلد ہوں۔ لیکن وہ اسی معاشرے کے فرد  ہیں، تھوڑا سا احساس رکھنے والے، کچھ سوچ، کچھ خیال، ہلکا پھلکا تجزیاتی زوق، اور مشاہداتی شوق ان کا بھی ہو گا۔  "اتی سی" عقل ان میں بھی ہو گی۔ تھوڑی سی سمجھ انہیں بھی ہو گی۔   اس معاشرے کی منافقت سمیت زندگی بسر کرتے ہوئے جب  کبھی یہ "منافق" لوگ  ایک "یوٹوپئائی اسلامی نظامِ خلافت" کی بابت خواب دیکھتے، یا اس کا زکر کرتے، یا اس کی خواہش کا اظہار کرتے۔، تو ان کی اس موجودہ نظام سے جھنجلاہٹ بول رہی ہوتی، اس جاری طریقہ کار ِ زندگی سے اکتاہٹ جھلک رہی ہوتی۔  اور لاشعور کے کسی کونے میں یہ ادراک ہلکورے لے رہا ہوتا کہ "اسلامی نظام" کی جو بات کہی جاتی ہے اگر وہ نافذ ہو جائے تو اس  جبر، ظلم، استحصال، کی چکی سے نکلا جا سکتا۔  اِس "منافقت" سے بچا جا سکتا۔ انہیں اس  امر کا بخوبی ادراک ہوتا ہے کہ "چوری کی سزا پر  ہاتھ کٹتے ہیں" زنا پر کوڑے لگتے ہیں یا سنگساری ہوتی ہے۔ نماز نہ پڑھنے  پر تعزیر  لاگو ہوتی ہے۔ رشوت لینے پر سر عام  ھنٹر پڑ سکتے۔  حقدار کا حق مارنے پر پھینٹی لگے گی، دھوکہ دہی، قتل ، لڑائی جھگڑے،  منشیاتی استعمال، حدود کو پھلانگنے پر بے حد سنگین  سزائوں کا اطلاق ہو سکتا۔   وہ جانتے ہیں، سمجھتے ہیں،  اسی لئے تو وہ "اسلامی نظام " کی بات کرتے ہیں۔ کیونکہ یہ تمام، عام، لوگ اس معاشرے کی رگ رگ سے واقف ہیں، اور اس کی منافقت کے علاج سے بھی،   اور "اسلامی نظامِ خلافت" کی خواہش کا اظہار کرنے والے  چاہتے ہیں کہ  نظم و ضبط ، حدود و قیود  میں رہ کر ہی "منافقت" سے جان چھوٹ سکتی۔

Flickr