Saturday, March 15, 2014

سیانا کسان!

"قد افلح" کی کھیتی کب لہلہاتی ہے! جب بنجر سینے پر ضرب کلیمی کا اثر ہوتا ہے۔ قد افلح کا پرنور سبزہ کب پھوٹتا ہے! جب حب جاء والی سوکھی زمین پر زکر الہی سے انوار کی بارش ہوتی ہے۔ قد افلح کا بیج کب بویا جاتا ہے! جب دلوں سے ہر "غیر" جھاڑ جھنکاڑ صاف کر دیا جائے۔ قد افلح کا موسم کون سا! جب سردیوں میں وضو کے پانی سے کپککاہٹ طاری ہو جائے، جب گرم دوپہروں میں مسجد کو جاتے پسینہ شرابور کر جائے، جب رات کی گھنی تاریکی میں رب کی پکار لگے۔جب کبھی خشیت الہی سے آنکھیں جھڑی بن جائیں۔جب کبھی حب الہی سے چہرہ تمتما اٹھے۔ بھری جوانی کی تمام تر رعنائیوں میں، بڑھاپے کی ساری کمزوریوں میں، جب اعضاء جوارح کانپنے لگیں، جب ہوش جانیں لگیں۔ قد افلح کا موسم باقی رہتا تا وقتیکہ توبہ کا در نہ بند ہو جائے۔ قد افلح دنیا سے بے نیازی میں، قد افلح واحد لاشریک کے سامنے عجز اختیار کرنے میں، قد افلح جب سنت رسول کے سوتوں سے سیرابی قلب ہوتی ہے۔ قد افلح ۔ فلاح ملتی ہے اس فلاح کو جو کھیتی کو تیار کرنے میں تساہل نہ برتے، کھیتی لہلہاتی ہے اس کسان کی جو زمین کا سینہ چیرنے میں کوتاہی نہ دکھائے، جس کے ہل کے پھل تیز رہیں، جس کی زمینوں کی سیرابی بروقت ہو، جس کی فصل میں فالتو جڑی بوٹیاں نہ ہوں۔ جس کی حسیں تیز تر ہوں موسموں کے بدلنے سے قبل، وقت کے ڈھلنے سے پہلے جو بوائی کر لے۔ فلاح پاتا ہے وہ کاشکار جو
ناہموار زمین کو سیدھا کر لے، جو اونچے نیچے ٹیلوں کو نرم بنا لے، جو جھا ڑ جھنکار کو ختم کر لے۔ کامیاب ہوتا ہے وہ زمیندار!! فلاح ملتی ہے اس کاشتکار کو! قد افلح کی خوشخبری ہے اس جاگیردار کے لئے! جس نے اپنی زمین "پٹواریوں " سے بچا لی۔ جس نے اپنے کھیت گرداورں سے محفوظ کر لئے، جو اپنے قطعے "محکمہ مال" کی ہیرا پھری سے بچا پایا۔ جو شریکوں کی دست درازیوں سے اپنے کھلیانوں کی حدود کی حفاظت کر سکا۔ قد افلح جس نے اپنی زمینوں کے لئے سینے پر زخم لگوائے، قد افلح جس نے اپنی محنت بچانے کو لاٹھی اٹھائی، قد افلح جس نے اپنی فصل کی حفاظت خاطر سینہ تانا، قد افلح جس نے غیرت کھائی، قد افلح جس نے اپنی اولاد کے حق کے لئے لڑائی کی، قد افلح جو پرکھوں کی میراث کی خاطر غصہ ہوا۔ قد افلح جس نے پسینے کے ساتھ لہو بہایا۔ قد افلح جس نے جان گنوائی۔ فلاح وہی اور فلاح اسی کی جس نے خود کو، اپنی فصلوں کو، اپنی زمینوں کو، اپنے کھلیانوں کو رب کے حکم کے مطابق جہد مسلسل کر کے بچا لیا!


Saturday, March 1, 2014

سچائی کی پنہائیوں میں! پہلا حصہ۔

  ارن دھتی کہتی ہے ، "زمین ایک رِستے زخم کے جیسے  لہولہان ہے، سرخ دھول  نتھنوں سے ہوتی پھیپھڑوں میں بھر جاتی ہے۔ ان کے چہرے  لال ہیں، بال مٹیالے ہیں، لباس گرد میں اٹے ہوئے ہیں، آتے جاتے ٹرک ان کی زمینوں کا خزانہ چرا کر راستوں سے دھول اڑاتے گزرتے ہیں"۔ اور  بقول ارن دھتی رائے ، وہ  اپنے سونا   چین کی جانب جاتا دیکھ کر حسرت سے آہ ہی بھر سکتے ہیں۔

 دو ہزار نو کے شروع میں ہندوستانی سرکار نے " سبز شکار" کا ارادہ بنایا۔ ایک بڑا عمل جراحت، "گرین ہنٹ"   ان  "سبز پوش سرخوں" کے خلاف جو تین   دھائیوں سے دہلی سرکار کی ناک میں دم کئے ہوئے ہیں۔ اس تحریک میں سانولے لڑکے،  سلونی لڑکیاں،  کالی بھجنگ عورتیں، توانا    مرد،  بے ڈھول بوڑھے  شامل ہیں   وہ نکسل باڑی جو ھندوستان  کے پانچ سے زائد صوبوں اور پچاس سے زیادہ اضلاع کو اپنی لپیٹ میں لئے ہوئے ہے۔ وہ مائو نواز باغیوں کی تحریک جس نے  جنوب مشرق کی پوری پٹی پر اپنا اثر بنا رکھا ہے۔   کرناٹکا،  مہارشٹرا، جھاڑ کھنڈ، بہار چھتیس گڑھ، بنگال، اڑیسہ، آندھرا پردیش، کیرلا اور تامل ناڈ تک کو  اپنے قابو میں کر رہے۔ دیہاتوں میں، جنگلوں میں،  دریائوں میں ، پہاڑوں اور دلدلی علاقے میں اپنا اثر و رسوخ رکھنے والی کیمونسٹ مسلح تحریک کے پاس  دو  لاکھ سے زائد رضا کار ہیں۔  چالیس ہزار کے لگ بھگ لڑاکے ۔ بہادر، بے دھڑک، موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر زندگی گزارنے والے دیہاتی۔  جان ہتھیلی پر رکھ کر جینے والے قبائلی۔ سنگ دل ،گلے کاٹنے والے۔ سخت جان ، دشمن کو نہ بخشنے والے۔ دیش دروہی، بقول من موہن سنگھ  ہندوستانی ریاست کے لئے سب سے بڑا اندرونی خطرہ، وطن دشمن  جو اپنی ہی سر زمین کو لہو لہان کر رہے۔٭٭  ہندومت کے تکفیری ،  اپنے فوجیوں کو   "مسلمان" قرار دے کر مارنے والے٭٭۔   پولیس والوں کے سینے چھلنی کرنے والے۔

ریل کی پٹڑیاں اکھاڑنے والے،  بسوں کو اغوا کرنے والے۔" آدی واسیوں "کے لئے  ھیرو اور  ہندوستانی میڈیا       کے بقول  دہلی سرکار کے سر کا  درد۔ ہندوستانی زمین کا ناسور۔ جو  اپنے علاقوں پر کالا جنگلی قانون لاگو کرنا چاہتے۔ جو ترقی کے دشمن ہیں، جو وطن کو پتھر کے زمانے میں دھکیلنا چاہتے۔   بھدے،  بد شکل، کم عقل، جاہل  مائو نواز قبائلی۔ ۔  آسان الفاظ میں سمجھئے تو ہندوستان  میں نکسلیوں کے بارے ویسی ہی کہانیاں مشہور جوں پاکستانی میڈیا  "طالبان" کے لئے پیش کرتا ہے
پاکستانی میڈیا  "طالبان" کے لئے پیش کرتا ہے۔


لیکن سب لوگ آنکھیں بند کر کے یقین کرنے والے نہیں ہوتے۔ خاص کر جب معاملہ انسانیت کا ہو، مسئلہ  زندہ جانوں کا  ہو۔  ارن دھتی رائے بھی سچ کے متلاشیوں میں سے ایک تھی۔ جو کھوٹے کو کھرے سے الگ کرنے کی سوچ رکھتی ہے، اور اس کے لئے ہمت بھی۔

ارن دھتی سچ کو اپنی آنکھوں سے  مشاہدہ کرنا چاہتی تھی۔ وہ ان کے دلائل، ان کی منطق اپنے کانوں سے سننا چاہتی تھی۔  انہیں جانچنے، پرکھنے اور سمجھنے  کے لئے، ان کی نفسیات پڑھنے کے لئے، ان کا رہن سہن دیکھنے کے لئے، ان کی سوچ، ان کے خیالات اور  ان کے جذبات جاننے کے لئے  ان کے پاس پہنچ گئی۔
اس کے بائیس دن کا سفر جنگل کنارے سے شروع ہوا ۔ جو گھنے  درختوں کے تاریک سائے  سے ہوتا اونچے نیچے رستوں پر چلتا، دریا کی لہروں پر ہچکولے کھاتا کسی گائوں کی پگڈنڈی تک پہنچ جاتا ہے۔ کبھی کسی آدی واسی کی جھونپڑی تک، اس کے چولہے سے اٹھتے دھویں کی لکیروں میں  زندگی کی بےثباتی کو جاننے کی کوشش کر رہی تھی۔ کسی علاقے کے سکول میں پڑھتے بچوں  تک، ان کی آنکھوں میں جھانکتے ، ارن دھتی حقیقت تلاشنے کی سعی میں مصروف تھی۔  ان قبائلیوں کے کندھوں سے لٹکتی بندوقوں کے دھانوں سے جھانکتے بھیانک حقائق،  جو  وسطی شہروں کے اے سی لگے کمروں میں ، ٹی وی پر میکاپے چہروں والی نیوز کاسٹر، اور جھریوں کو چھپائے چیختے چنگاڑتے تجزیہ نگاروں کی زبان سے کبھی سمجھ نہ آسکیں.وہ ان کہی سچائیاں جو اپنا آپ  ظاہر کرنے کو بے تاب لیکن کوئی نظر ہی نہیں، جو دیکھ سکے۔ کوئی صاحب نظر ہی نہیں جو پرکھ سکے۔


بقیہ حصہ وقفے کے بعد۔


Flickr