Monday, January 14, 2013

خونِ خاک نشیناں


سوات کے تبلیغی مرکز میں شہید ہونے والے بھائیو! تمہارا خدا حافظ،
 ابھی تو تمہارے لہو کی مہک بھی در و دیوار سے نہ گئی ہو گی
 ابھی تو تمہارے جسم کے اڑے چھیتڑے چھت پر چمک رہے ہوں گے،
 ابھی تو تمہارے اجلے پیرہن فرش پر جگمگا رہے ہوں گے۔ ابھی تو تمہارے سروں کی دستاریں اور ٹوپیاں تک وہیں کی وہیں دھری ہوں گی ۔ 
ابھی تو تمہارے سجدوں کے نشان بھی چٹائیوں پر کندہ ہوں گے۔ ابھی تمہاری چادریں وہیں ٹنگی ہوں گی۔ابھی تک تہماری تسبیحوں کے موتی  جھلملا رہے ہوں گے۔ ابھی تو تمہاری فضائل اعمال کے اوراق وہیں پھڑپھڑا رہے ہوں گے۔
میرے محترم بھائیو ابھی تمہارے موزے وہیں کونے میں پڑ
ۓ بستروں پر دھرے ہوں گے۔ 
 وہ چولہا بھی شاید ابھی تک جل رہا ہو کہ جس پر کسی مہمان کے آںے پر چائے تیار ہو رہی ہو گی۔ 
ابھی تک تمہاری مسواکوں سے تمہارے لبوں کی خوشبو پھوٹ رہی ہو گی۔ اور ابھی تک تم رب رحمان کی نعمتوں سے فیض یاب ہو رہے ہو گے، ابھی تک تم جنت کی کھلی کھڑکیوں سے رب غفار کی جنتتی حوروں کے حسیں چہرے کا نظارہ کر چکے ہو گے۔   لیکن میرے پیارے تبلیغی بھائیو معاف کرنا میں تمہیں ابھی خدا خافظ کہوں گا۔
 کیوں کہ تمہاری اس بازار میں ویلیو نہیں۔ یہاں تمہارا لہو بے مول ہے۔ 
یہاں تمہاری موت بےکار ہے۔ اور میرے محترم تبلیغیو میں تمہارے لئے زیادہ دیر آواز بلند نہیں کر سکتا۔
وجہ! وجہ یہی میں تمہارے مشن کو حق سچ سمجھتے ہوئے بھی دنیا کی طعن و تشنیع کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ 
تمہیں پتا ہے نا! دنیا والے تمہیں بنیاد پرست کہتے ہیں،
 تمہیں پتا ہے نا! لوگ تمہیں مجاہدین کا پشتی بان سمجھتے ہیں (حالانکہ عرصہ ہوا تم نے بھی کھل کر حمایت ترک کر رکھی تھی) عوام تمہارے مراکز کو شدت پسندوں کی پناہگاہ سمجتھی ہے۔ 
لوگ کہتے ہیں تم فرقہ واریت پھیلاتے ہو۔ ( تمہارے منشور۔چھ نمبروں میں تو اکرام مسلم ۔ اولیں درجات میں ہے)۔ 
پیارے تبلیغی بھائیو تمہارا پرسہ دے دیا، دل کا بوجھ ہلکا ہو گیا، 
اب میں تمہارے لہو کا حساب مانگنے سے تو رہا۔ اب میں تمہاری موت پر آواز اٹھانے سے رہا۔ 
ایسا کر بھی لوں تو کیا ہو گا۔ کوئی جاگ جائے گا؟ کوئی سن لے گا؟ کوئی اس طرف توجہ دے لے گا؟
مشکل، ناممکن۔ پیارے تبلیغیو! تم فراعنہ وقت کی گُڈ لسٹ میں نہیں ہو، تم بادشاہ وقت کی آںکھوں میں کھٹکتے ہو۔ تم نمرودِ جہاں کے لئے ٹھنڈا بارود ہو۔ تم زریت ابلیس کے سینوں پر دال دلو اور پھر یہ امید رکھو کہ تمہاری لاشوں پر کوئی آہ و بکا بلند ہو گی؟ تمہاری میتوں پر کوئی ماتم کناں ہو گا؟ 
تمہارے جنازوں کو بیچ بازار سلامیاں دی جائیں گی۔
اور ویسے بھی میرے سوہنیو! تمہیں طالبان نے مارا ہے؟
 تم پر حملہ آور لشکر جھنگوی والے تھے؟ تمہارے مرکز میں دھماکہ القائدہ والوں نے کیا؟ نہیں تو پھر تمہاری موت بھی عام سی ہے۔ یہاں پِٹ سیاپا اسی کا جسے طالبان کی گولی لگے۔
 یہاں ماتم اسی کا جس کے مرنے کی زمہ داری لشکر جھنگوی والے لیں
 اور یہاں آہ و بکا اسی کے لئے جسے القائدہ والوں نے قتل کیا ہو۔ 
تمہارے مرنے پر شور مچا بھی لوں تو کیا؟ 
تم ایک اکثریتی مسلم ملک کے بھیڑ بکریوں کے گروہ خوابیدہ سے متعلق۔ تم ٹُن قوم کے سائیں لوگ۔ 
خدا کے بندو تمہارے لئے آواز کیوں بلند کروں؟ تمہارے ساتھ کے پینتیس چھتیس ہزار مر گئے۔ تم بھی مر گئے۔ کیا ہوا؟ تمہارا مرنے کے شور شرابے سے نہ اسلام آباد کو مسئلہ نہ راولپنڈی والوں کو خارش۔ 
اس لئے آرام سے سو جائو اپنی اپنی قبروں میں۔۔  اور ہاں دو چار دن بعد ان سوچوں کی توقع بھی نہ کرنا۔
 تیجا، چوتھا۔ چالیسواں پینتالیسواں تم کرتے نہیں۔ اور دھرنے پر تمہارے "اللہ لوک" امیر صاب یقین نہیں رکھتے۔ نہ کوئی تعزیتی کانفرنس۔ نہ جلسے جلوس۔ نہ دیگیں شیگیں۔ نہ ہڑتال پڑتال اور نہ چھان بین،
 خاک نشینوں۔ بدنصیب قوم کے فرزندوں تمہارا لہو رزق خاک ہوا۔ جائو اپنے اللہ کا صلہ تمہیں کافی ہو۔

5 comments:


  1. خوشی ہوئی تحریر دیکھ کر کہ سوشل میڈیا پر کوئی تو ہے جسے انکا بھی غم ہے اور ان کے لیے بھی کسی نے دو لفظ لکھے ہیں۔اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔

    ReplyDelete
  2. اللہ مرحومین کے درجات بلند فرمائیں اور انہیں اپنے پاس سے اعلیٰ ترین درجات سے نوازیں۔ آپ کی تحریر نے رلا دیا۔
    انا للہ و انا الیہ راجعون۔

    ReplyDelete
  3. اللہ تبارک تعالی دین سیکھنے کی طلب میں نکلنے والوں کے درجات بلند فرمائے

    ReplyDelete
  4. مظلوموں کی گواہی تو وقت خود دیتا ہے لیکن وہ وقت اس ملک کے مقدر میں نہیں اللہ ان کے درجات بلند فراماۓ

    ReplyDelete

Flickr