Thursday, May 23, 2013

سماجی سیاپے!


 

یا حیرت! پنج ست مرن گوانڈناں تے رہندیاں نوں تاپ چڑھے۔ معاشرے میں جو جرم ہو رہا زمہ دار مولوی ہے?

اس سماجی  ڈھانچے کی جو بھی کجی ،کوتاہی ہے اس کی وجہ مُلا ہے۔لسی میں پانی ملائو اور لمبا کرکے پلاتے جائو کسی ایک آدھ کو تو نیند کا جھونکا آئے گا ہی۔ کوئی تو "نمونیا" کا شکار ہو ہی جائے گا۔ اگ اسمانے چڑھی پتنگ کی ڈور طرح جھوٹ کو بھی ڈٰھیل دیتے جائو، اتنا کذب پھیلائو کہ رگ و پے میں رچ بس جائے، سچائی چھپ نہ سکے تو اس کا چہرہ مسخ کر دو، اتنا غبار اٹھا دو کہ گرد ہر سفید، اجلے دامن کو داغدار کئے بغیر نہ چھوڑے۔ یہ فلسفہ صدیوں سے رائج ہے۔ قرنوں سے عمل ہو رہا اس پر۔ برصغیر میں انگریزی مہاشوں کی آمد کے بعد اسلامیان ہند کو اپنی جڑوں سے کاٹنے کے لئے اسی "جھوٹ سبیل" کا ٹھنڈا میٹھا پانی رج رج کے پلایا گیا۔ حق اور سچ کی مخالفت میں کیا کیا طریقے نہ اپنائے گئے۔ کیسی کیسی پروپگینڈہ مشینیں دن رات کذابوں کو ہیرو اور ہیرو کو زیرو بنا کر پیش کرنے کے لئے چلتی رہیں۔ اور پھر تقسیم ہند کے بعد انہیں مشینوں کے پر پرزے رپئیر کر کر۔ ملمع لگا، تیل پانی ڈال تیار کر دیا گیا،ایسی ٹھیٹھ "ولیتی" مشینیں کہ دہائیوں بعد بھی دوڑ رہی ہیں، نہ ہانپی نہ کانپی، بلکہ انڈوں بچوں کے زرئعے بڑھتی ہی جا رہی ہیں، شام ہوتے ہی "میکاپے" چہروں کے ساتھ مائیاں سیاپا کرنے مربع ڈبے میں سج دھج کر بیٹھ جاتی ہیں، اور پھر ہر تان آ کر ٹوٹتی ہے "مذہب پسندوں" پر، ہر "لے" بس کرتی ہے دینداروں کی کسی خرابی پر۔ ڈسکشن کا دورانیہ ختم ہوتا ہے کسی مولانا کے زکر خیر پر۔ موضوع سخن کوئی سا بھی رہے۔ ٹاپک جیسا بھی ہو، وجہ بحث جو مرضی ٹھہرے لیکن غریب ملا  کا زکر کئے بغیر محفل میں گرمی نہیں آتی۔ ڈاکٹروں کی ہڑتال، صلواتیں مولوی کو، سڑک ٹوٹ پھوٹ کا شکار گالیاں مولوی کو، بجلی کا بحران، سب و شتم کا حقدار مولوی، روپیہ کی قیمت بڑھ جائے یا سونے کا بھائو گر جائے میرے ٹی وی پر بیٹھے انٹیلاکچولز کی سوئی مولوی پر ہی اٹکتی ہے۔ بیل کے "ٹل" کی طرح لٹکتی ٹائیاں پہن کر کیمرے کے سامنے بیٹھے جغادری فنکار ملا کے زکر خیر کے بغیر اپنا پروگرام مکمل کر ہی نہیں پاتے، پان ذدہ دندانے تیز کئے "وہی لہجے جو پنواڑی کے کھوکھے پر روا ہو سکتے" ٹیلیویژن سکرینوں پر بولے جاتے اور پھر عوام الناس کو زہنوں میں انڈیلا جاتا کہ ہر فساد کی جڑ ملا ہے، ہر بیماری کی وجہ مدرسہ ہے، ہر مصیبت و ابتلا مولوی کی بنا پر اتری ہے۔ (لیکن استثنائی صورت بھی ہے تیر و تفنگ کا رخ ایسے زاوئے سے سیٹ کیا جاتا کہ "خاص بندے" کبھی زد میں نہیں آتے۔ اور کسی "علامہ" کی طرف رخ سخن تو گناء عظیم شمار ہو گا)۔ قوم کو بتایا جاتا کہ ملا ہی قوم کو تقسیم کئے بیٹھے ہیں، ملا ہی ملت کے فرقے بنائے بیٹھے، مسلک کے نام ہر دھڑے بندیاں کئے ہوئے ہیں، گروہوں میں بانٹا ہوا عوام کو۔ اس زہرناک پروپگینڈے نے ایسی  اثرپزیری  دکھائی ہے کہ ہر کس و ناکس اب مولوی کو برا بھلا کہنا فیشن کا حصہ سمجھتا ہے۔ کہ ایسا نہ کیا تو دقیانوسی کہلایا جاوے گا۔ یا حیرت!

حسرت سی حسرت ہے کہ کبھی کوئی صاف نیت بندہ اینکری کرنے کی بجائے ملا کے اس معاشرے پر احسان بھی گنوا دے۔ اور عوام سے سوال کرے۔ سندھیوں کو اردو والوں سے لڑانے والے ملا ہیں? پنجابیوں سندھیوں میں نفرتیں بڑھانے والے ملا ہیں? پٹھانوں مہاجروں کو مروانے والے ملا ہیں? ہزارہ وال پختون کا جھگڑا شروع کرانے والے ملا ہیں? سرائکی وسیب سے"تخت لاہور" کو گالیاں دلوانے والے ملا ہیں? لیگوں کی سنچریاں ملا نے بنا رکھی ہیں? پارٹیوں کی لائنیں ملا نے لگا رکھی ہیں? تحریکوں کے جھمگٹے مُلا  نے لگائے ہوئے? اس سماج میں ایک سیاسی جماعت سے تعلق رکھنے والے  دوسری جماعت والوں کے ہاں رشتہ نہیں لیتے دیتے زمہ داری کس کی? اس معاشرے میں ایک سیاسی امیدوار کو ووٹ دینے والے مخالف امیدوار کے سپوٹروں کی موت مرگ میں شرکت نہیں کرتے۔ گناۃ گار مسجد کا خطیب ہو گیا? انہیں علاقوں میں سیاسی بنیادوں پر سینکڑوں ہزاروں لوگ موت کے منہ میں چلے جاتے۔ جرم کسی مدرسے والے کے سر? الیکشن ڈرامے کے دوران گائوں کے گائوں ڈانگ ڈنڈا لے کر ایک دوجے پر پل پڑتے کیا کوئی مولوی ایسا کرنے کو کہتا? زات برادری کی بنیاد پر دشمنیاں مولوی پیدا کرتا? سیاسی جماعتوں کے مسلح ونگ مولوی کے کہنے پر ہی بنائے گئے? جن پر ہزاروں بے گناہوں کے خون کا الزام ہوتا۔کیوں کسی سیاستدان کا گریبان نہیں پکڑا جاتا! کسی سماجی کارکن سے سوال کیوں نہیں کیا جاتا? کسی این جی او  والے سے کس لئے نہیں پوچھا جاتا۔ سوال کا حدف بنے تو مُلا۔ تنقید کی زد میں آئے تو مولوی، برا بھلا سہے تو بے چارا  دیندار طبقہ۔ یا تو ٹھیکہ دو معاشرے کا مولوی کو ۔یا پھر ملا کا زکر خیر کرو جتنا حق بنتا ہے۔ جتنا سچ ہوتا ہے۔

3 comments:

  1. کچھ تو ہوا بھی سرد تھی کچھ تھا تیرا خیال بھی،
    ہم کو خوشی کے ساتھ ساتھ ہوتا رہا ملال بھی۔
    پروین شاکر نے یہ والا شعر شائد ایسی صورتحال کیلئے کہا ہوگا۔
    مغرب کی تقلید میں ہم نے داڑھی اور مولوی کی تضحیک کو بطور فیشن اپنا لیا ہے، چند نام
    نہاد داڑھی والوں سے بدظن ہوکے۔

    ReplyDelete
  2. مجھے اپنے قاری صاحب پہ خاکہ لکھنے کا خیال آ گیا

    ReplyDelete
  3. ملا تو اب ایک کریکٹر بن گیا ہے
    جس کے بغیر کسی ڈرامے کا پلاٹ مکمل نہیں ہوتا
    جہاں کچھ نہ ملے ملا کے سر پہ رکھ کے پٹاخے پھوڑ دو
    مائیاں ہی نہیں دین کے ٹھیکیدار بابوں کا بھی یہی حال ہے، دو چار کتابیں پڑھ کے اپنے آپ کو عقل کل سمجھتے ہیں
    ویسے آپس کی بات ہے
    مولویوں نے بھی کم مواقع فراہم نہیں کئے انگلیاں اٹھانے کے لئے
    اپنے ڈیزل کو ہی دیکھ لو

    ReplyDelete

Flickr