Tuesday, June 11, 2013

ہماری جنگ، پیاری جنگ

سن 2004  کا مارچ۔  ہلکی ہلکی سردی  ،لیکن ماحول الیکشن کی گہما گہمی سے گرم۔ ماہرین، مبصرین اور تجزیہ نگار اس بار بھی پیپلز پارٹی کے جیتنے کے  سو فیصدی امکانات ظاہر کر رہے تھے۔ سیاسی پنڈت  پیپلز پارٹی آف اسپین کے پچھلے ٹریک ریکارڈ ، معاشی پالیسیوں، عوام دوست اقدامات کو دیکھتے ہوئے سوشلسٹ پارٹی کے جیتنے کے لئے بہت کم نمبر دینے کو تیار تھے۔
گیارہ مارچ 2004 اسپین کے عام ا نتخابات میں فقط تین دن باقی تھے۔ لوگ بے چینی سے ووٹنگ والے دن کا انتظار کرتے ہوئے ،  سیاسی تقریروں، مباحثوں اور ٹی وی پروگراموں  کی جانب   متوجہ تھے ۔  میڈرڈ کے ریلوے اسٹیشنوں پر قیامت ٹوٹ پڑتی ہے۔ یکے بعد دیگرے بم دھماکے۔ تباہ شدہ ریل گاڑیاں، جلے کٹے جسم۔  ایک سو نوے لاشیں اور ہزار کے قریب زخمی۔ سارا اسپین سوگ میں ڈوب جاتا ہے۔   مباحثوں کا رخ دھماکوں میں ہوئے جانی نقصان ، اس کی وجوہات اور اس کے پیچھے موجود ہاتھ تلاشنے کی طرف مڑ جاتا ہے۔  الزام القائدہ پر لگایا جاتا ہے۔ اور وجہ ہسپانوی دستوں کی عراق میں موجودگی۔سوشلسٹ پارٹی والے اعلان کرتے ہیں  کہ برسر اقتدار آتے ہی عراق سے اپنے فوجیوں کو واپسی کا حکم دیں گے۔ 14 مارچ کو مقررہ تاریخ پر انتخابات ہوتے ہیں اور سیاسی نجومیوں کی تمام تر پشین گوئیوں کے برعکس سوشلسٹ پارٹی بھاری اکثریت سے انتخابات جیت جاتی ہے۔ ماہرین جیت کی وجہ فقط عراق سے فوجیوں کی واپسی کے اعلان کو قرار دیتے ہیں۔   یاد رہے کہ اس سے تین مہنے قبل عراق میں سات ہسپانوی سپاہی بم دھماکے میں اپنی جان سے ہاتھ دھو  چکے تھے۔
پیپلز پارٹی کی تمام تر بہترین کارکردگی کے باوجود ہسپانوی عوام نے فقط آخری  پلوں میں  ایک بم دھماکے کی زمہ داری اس حکومت  پر ڈالی اور انہیں بری شکست سے دو چار کر دیا۔
سوشلسٹ پارٹی کاوزیر اعظم دوسرے دن اعلان کرتا ہے کہ عراق سے تیرہ سو فوجیوں کی واپسی کا حکم جاری کر دیا گیا ہے۔
امریکہ، نیٹو، یورپی یونین، اتحادی، دوست اپنی سی کر کے دیکھ لیتے ہیں، دھونس، دھمکیاں، پابندیوں کی باتیں۔ لیکن ہسپانوی حکومت کا ایک ہی جواب " جنگ ہماری نہیں، ہم کیوں مفت میں اپنے بندے مرواتے پھریں"۔ جائو! جو کرنا ہے تم کرو"۔
یوں اسپین نے اپنے تمام نیٹو ، یورپی اتحادیوں، دوستوں کی ناراضی مول لی لیکن صرف ایک سو نوے بندے مروا کر سدھر گیا اور عراق سے اپنے لونڈے واپس بلوا لئے، دہشت گردی کی جنگ کے متعلق اپنی داخلہ و خارجہ پالیسی میں بہت ساری تبدیلیاں کر ڈالیں۔
اور ایک پاکستانی قوم ،ایک لاکھ کے قریب بندہ مروا لیا۔ اربوں کا نقصان کروا لیا۔ لاکھوں اپاہج ہو گئے۔ ملک کا دیوالیہ نکل گیا۔ "گھر آٹا نہیں اور امان دانے پسوانے گئی" والا حساب ہو رہا لیکن  کوئلوں کی دلالی میں ایسا لطف آ رہا کہ  پرائے چولہے کی آگ کو اپنے بستر پر رکھ کر ہلارے لے رہے۔
معلوم ہی نہیں کہ جنگ کہاں سے شروع ہوئی! کس نے شروع کی! کیوں شروع ہوئی! ایک لاکھ (اف خدایا! ایک لاکھ کی گنتی گنتے بھی سانس پھول جاتی) انسانوں کو کھا گئی "ہماری جنگ"۔ لیکن نہ سر نہ پیر! نہ منہ نہ متھا۔
شاید اس بار سوئی قوم نے اس "ہماری جنگ" کے خلاف بھی فیصلہ دیا ہے اور پچھلے تمام "گندے انڈوں" کو اٹھا کر باہر گلی میں پھینک دیا ہے۔ نئی حکومت کو جہاں معاشی مسائل، بجلی، گیس، مہنگائی کے معاملات حل کرنے کا مینڈیٹ ملا ہے وہاں بجا کہ خارجہ و داخلہ پالیسیوں سے ستائی قوم نے ان "امور" کی تسلی بخش بہتری کے لئے بھی ووٹ ڈالا ہے۔ نون لیگ ، جماعت اسلامی، پی ٹی آئی، جے یو آئی، یہ تمام جماعتیں اس "ہماری جنگ" کو پرائی جنگ سمجھنے والی جماعتیں ہیں اور اس کا حل گفت و شنید، مذاکرات اور بات چیت میں تلاشنے کی پالیسی کے بیانات داغتی رہی ہیں۔  اب اللہ کرے کہ  میاں نواز شریف ساب بھی "جوز لیوس" ( 2004 کا ہسپانوی وزیر اعظم) کی طرح دلیرانہ، جرات مندانہ اور حقیقت  پر مبنی قوم کی امنگوں کے مطابق اس جنگ سے " خروج" کا فیصلہ کریں۔ ہم دعا گو ہیں کہ "پھجے کے پائیوں"  میں وہ غیرت موجود ہو جس کی ایسے فیصلوں کے لئے اشد ضرورت ہوتی ہے۔

بیکار کی بیگار سے جان چھڑا کر کم از کم اپنے بندے تو مرنے سے بچائیں۔ طالبان سے مذاکرات کرنے ہیں یا لڑائی کرنی ہے بعد کی بات لیکن اس میں تو دو رائے نہیں کہ "ہماری جنگ" نے ہی ہمیں اس مقام پر لا کھڑا کیا کہ ہمارا بدن چور چور اور انگ انگ  زخمی، اور زخم زخم رس رہا ہے۔

8 comments:

  1. رستا رہے حکمرانوں کی بلا سے

    ReplyDelete
  2. یہ ہے وہ بلاگنگ، یہ ہے وہ وقت کی پکار، یہ ہے وہ فریضہ جسے ہر لکھاری نے فرض سمجھ کر ادا کرنا ہے۔ شکریہ

    ReplyDelete
  3. یہ جنگ ہماری‎ ‎جنگ نہیں

    ReplyDelete
  4. اگر امریکہ تمام تر جدید فوجی ساز و سامان، جاسوسی کا نیٹ ورک اور بے پناہ دولت ہونے کے باوجود طالبان کو شکست نہیں دے سکا ہے اور مذاکرات کا خواہشمند ہے تو ہم ایسا کیوں نہیں کر سکتے ہیں؟ ویسے بھی ہماری تو طالبان سے جنگ ہی امریکی امداد پر چل رہی ہے اور ہم اس قابل ہی نہیں ہیں کہ اس جنگ کا بوجھ برداشت کر لیں. ایسی صورت میں کل جب امریکہ یہاں سے چلا جائے گا اور ہماری امداد محدود ہو جائے گی تو کیا ہم یہ جنگ اپنے خرچے پر جاری رکھ سکیں گے؟

    ReplyDelete
  5. اسپین کی سرحد عراق کے ساتھ نہیں ملتی۔
    اسپین میں کسی بھٹو اور پھر فوجی ڈکٹیٹر نے نزویراتی گہرائی کے نام پر پڑوسی ملک کی ماں بہن ایک نہیں کی تھی۔
    اسپین میں بیس برس تک دینی تعلیمی اداروں میں کوڑھ کی کاشت نہیں کی جاتی رہی تھی۔
    اسپین اور پاکستان میں بڑا فرق ہے صاحب۔
    یہ جنگ جہاں سے مرضی شروع ہوئی تھی، جس نے بھی شروع کی تھی (وہ وہ جس اسی ملک کے حکمران اور مقتدر لوگ تھے کوئی مانے یہ نا مانے)، آج کی حقیقت یہ ہے کہ یہ جنگ ہمارے گلے پڑا ڈھول ہے۔ جسے بجانا ہی پڑے گا۔ عسکریت پسند اتنی آسانی سے واپس نہیں جائیں گے۔ اور نہ یہ کہہ دینے سے کہ یہ جنگ ہماری جنگ نہیں، سب کچھ پلک چھپکتے میں ٹھیک ہو جائے گا۔ دعا کریں جب امریکہ یہاں سے دفع ہو جائے تو ہمارے دائیں بازو کے دانشوروں کے "سب ٹھیک ہو جائے گا" والے خیالات نصف بھی درست ثابت ہو جائیں۔ حالات اس کے الٹ نظر آ رہے ہیں۔ افغانستان میں عدم استعحکام بڑھے گا اور اس کا نتیجہ پاکستان میں مزید دہشت گردی کی صورت میں نکلے گا۔

    ReplyDelete
    Replies
    1. پیارے شاکر بھیا یہ "ڈگڈگی" کب تک ہم بجائیں گے۔ اسے گلے سے اتارے بغیر کوئی حل ہو گا؟

      نو مور۔۔۔ تو کہنا ہی پڑے گا۔ جان چھڑانی ہی ہو گی۔ ورنہ پھر خمیازہ تو بھگتنا پڑے گا جیسے بھگت رہے۔

      رہی طالبان کے ہتھار نہ رکھنے کی بات اور ان سے مذاکرات کی بات تو میرے پیارے بھیا۔ ہندوستانیوں نے ہمارا ملک توڑ دیا تھا۔ مشرقی پاکستان میں کتنے پاکستانی مارے گئے تھے۔ ہمارے نوے ہزار جوان پکڑ لئے تھے۔ ان سے کتنی جنگیں ہوئی۔ مذاکرات کرتے رہے ناں؟

      برطانیہ اور آئرش ریپبلک آرمی والوں کا قصہ زیادہ پرانا نہیں، دونوں مذاکرات کی میز پر بیٹھے ناں؟ فلپائین کے مورو مسلمانوں کے ساتھ فلپینیوں نے امن کے لئے مذاکرات کئے ناں؟ ابھی پچھلے ہفتے ہندوستان میں مائو نواز باغیوں نے سو کے قریب انڈٰین پھڑکا دئے، کانگریس کے کرتا دھرتا سیاستدان بھی بھون دئیے گئے۔ کہیں سنا آرمی آپریشن شروع ہوا؟ جیٹ طیاروں نے بمباری شروع کی؟ فوج نے چڑھائی کی؟ نہیں، ان سے مذاکرات کے لئے کچھ بندوں کو تیار کیا گیا۔

      اور تو اور ہمارا مائی باپ امریکہ بھی یہی فارمولا اپنا کر افغانستان سے باعزت واپسی چاہ رہا۔ تو ہم کیوں پیچھے بیٹھے منہ تک رہے۔ یاد رہے کسی زمانے میں مکتی باہنی ملک دشمن اور انسانوں کی قاتل تھی پھر اسی مکتی باہنی کے لوگوں کو ہماری ہی فوج نے سلیوٹ مارے۔ کبھی نیاے این پی والے پابند سلاسل تھے۔ کبھی نیپ والے غیر قانونی تھے آج وہ سب ملکی دھارے میں شامل ہیں۔ ضرورت عقل، سمجھ اور انسانی بنیادوں پر اس بحران کے حل کی ہے

      Delete
  6. کل ڈاکٹر قدیر نے بھی اسی موضوع پر فرمایا تھا
    http://beta.jang.com.pk/NewsDetail.aspx?ID=100038

    ReplyDelete

Flickr