Tuesday, July 2, 2013

اچھو ان جدہ

ہیں جی!  اور گڈی شٹارٹ۔
۔ سفید موتیوں والے دندان ، چم چم لشکارے مارتے سامنے  بندے کو دندان شکن جواب دینے میں کام آتے۔  شخصیت کا پہلا "سفید"  تاثر یہی تھا۔ اپنا رنگ تو جوں چراغ تلے ہوتا ہے۔ لیکن اتنا بھی گہرا نہیں زرا سرمئی سا۔ مناسب سی رفتار سے دھیمے انداز کی گفتگو۔ لیکن ٹو  دی پوائینٹ، یہ اور بات کہ پوائینٹ  " اسلامآبادی  زیرو پوائینٹ سے لے کر  سرائکی  ملتان " تک پہنچ جائے۔ ملتانی مٹی اور چینی ظروف کمال کا سنگم  تھا  ۔ بتلانے لگے کہ چین میں کھلونوں کا کاروبار ہے۔ حد ادب مانع رہا ، ورنہ پیٹ میں مروڑ اٹھتے ہی رہے کہ عرض گزار ی کروں۔ "حضرت کھلونے بچوں کے یا بڑوں والے!"
اس سے قبل کئی سال صحرائے نجد کی خاک چھانی، حیرت ہے گرمی اور گردا  تو ملتان میں بھی مل جاتا۔ عرب کی آب و ہوا کا اثر ہے کہ عربی فر فر بولتے ہیں۔ فون پر کسی سے گفتگو فرما رہے تھے اور ناچیز کو پی ٹی وی  کا رات بارہ بجے "الاخبار" پڑھنے والا یاد آ گیا۔
لیکن بولنے سے  بھی زیادہ سمجھتے ہیں۔ اسی لئے اردو خوانوں کو عربوں کی سمجھداری گھول کر پلاتے ہیں۔
گول مٹول  زرا چھوٹے سے،  دل ہی دل میں شکر ادا کرتا رہا کہ محفل میں کوئی تو کسی حساب میں مجھ سے کم  ہے۔
بندہ    سکول   بیٹھا نہیں  ، واقعی پڑھا ہے۔  بات چیت میں "میتھ میٹکس"  کی مشقوں جیسے مثال بھی لازمی ساتھ ہوتی۔  بہت مددگار اور کام آنے والے انسان ہیں۔ فون میں موجود  تمام تصاویر میں حضرت  ،خواتین کو سہارا دیتے نظر آ رہے تھے۔   جناب  ظاہرا  دیسی اسٹائل ہونے کے باوجود  صنف نازک کو بہت احترام بخشتے۔  ۔ حتی کے کھانے میں بھی   مونث  "بھنڈی"  پسندفرماتے۔
آدمی    محنتی نظر آیا اور اس کا سب سے بڑا ثبوت ہر پانچویں مہینے مکہ کا چکر ہے۔ پانچ مہینوں میں "نو سو" کی گنتی  مکمل کرنا خالہ جی کا گھر تو نہیں ناں! اب معلوم نہیں یہ "چینیوں" کی صحبت کا اثر ہے یا بچپن کی عادت۔
جدہ کے موسم سے بخوبی آگاہی تھی، تبھی سفید ساٹن کا کی کھلی ڈھلی شلوار قمیص پہن رکھی تھی۔ تا کہ ہوا لگتی رہے۔   اپنے کپڑے یقینا دھوبی کے پاس رکھ چھوڑے ہوں گے۔
آئی فون کے علاوہ  چوتھی سفید ی ان کی ریش میں تھی۔ باریش اور بے ریش کے بین بین "بی ریش" ٹائپ کی۔ اور اس کے متعلق  توضیح بھی فرمائی کہ یہیں تک ہے ۔ چینی حدود میں داخلے  کے وقت رگید دی جائے گی۔ وہاں کی  عوام کو شاید باوقار چہرہ پسند نہیں یاموصوف  دوستوں کی چھبن کا خیال کرتے ہیں۔
جی دار اور پر مزاح ، ہر بات پر مسکرانا لازمی سمجھتے ہیں ،   رونے والی بات پر قہقہ لگاتے ہیں۔
گھر والوں کا ایک آدھ بار زکر خیر فرمایا جیسے جیل سے چھوٹا قیدی جیلر کو یاد کرے۔

مسکین سی شکل بنائے سامنے بیٹھے ملتانی  اچھو کے ماتھے پر صاف لکھا تھا۔  سیدھا اور سادہ  ، تیسری ملاقات میں لاکھ  دو لاکھ  ادھار مانگ لو۔ روپے ملیں نہ ملیں ، ناں! نہیں ہو گی۔ 

7 comments:

  1. یارا جی یو آر ٹووووووو گڈ
    اور یہ جاستی ہے
    پیسے لے کے اتنی مختصر پوسٹ پہ چھوڑ دیا نا؟
    تیری پوسٹوں کا اب مجھے بڑی شدت دے انتظار رہے
    پر اس دفعہ "انصاف نی کرا تو نے اچھو (کی پوسٹ) کے ساتھ

    ReplyDelete
  2. اچھو شریف بندہ ہے۔ اس لئے مفت میں چھوڑا۔ :)

    ReplyDelete
  3. واہ جی واہ
    کمال تعارف کرایا
    شکر ہے ہم آپ سے نہیں ملے اب تک
    :)

    ReplyDelete
  4. واہ جی واہ مزہ آگیا اب کی بار شاید میں پہچان گئی اسلئے بهی اس تحریر اورشخصیت کے تعارف نے بہت متاثر کیا بہت خوب جناب ....ئا

    ReplyDelete
  5. مانی جی، میں ڈفر کی ہاں میں ہاں ملاتا ہوں۔ پوسٹ مختصر (شاید #اچھو کی قامت کے حساب سے) لکھی ہے مگر ادھوری لگی ہے۔ پڑھ کر مزا آیا۔ ایک بات کا شکرگزار ہوں کہ آپ نے #اچھو کو سرمئی رنگ والوں میں شمار کیا ہے کالوں میں نہیں۔

    ReplyDelete
  6. تحریر اورشخصیت کے تعارف نے بہت متاثر کیا

    ReplyDelete
  7. تعارف اچھا کروایا کہ #اچھو جی بھی اپنے بارے کنفویز ہو گئے ہیں-
    تحریر میں اتنے اشارے کناے استعمال ہوئے ہیں کہ تحریر پڑھنے والوں کے لیے لگتی ناں کہ سکول بیٹھ کر آنے والوں کے لیے-
    ویسے جو پیسے نہ دیں اور ناں بھی نہ کریں ایسے لوگ اچھے ہوتے ہیں :)

    ReplyDelete

Flickr