Thursday, February 27, 2014

بیرون دریا کچھ نہیں۔



" گنہ گار ہو اس لئے اسلامی نظام کی بات نہ کرو" اخیر نتیجہ تمام تر منطق کا یہی نکلتا، یعنی چرسی کو ہسپتال کا نام نہیں لینا چاہئے، بیمار ، علاج کا سوچ نہیں سکتا!  مریض دوا کی گفتگو نہ کرے!! اور زخمی پھاہوں کا زکر نہ چھیڑے!! وہ جو کیچڑ میں پھسل کر گر پڑا اسے صفائی کو یاد رکھنے کی ضرورت نہیں، وہ جو کھڈے میں پڑا ہوا اسے بولنا نہیں چاہئے کہ "اُس طرف کا راستہ ہموار ہے، اِس طرف کو مت آئیو" پہلے  صحت مند ہو لو پھر صحت افزا مقام کو چلیں گے۔ پہلے ناسور ٹھیک ہو  جائے ، مرھم بعد میں دیکھیں گے۔   خلافت کی بات کرتے ہو! "ہوں" پہلے چھ فٹ  پر اسلام تو نافذ کر لو۔ اسلامی قوانین کا  زکر کرتے ہو! پہلے  اپنا آپ تو سنوار لو۔   بات تو مناسب لگتی  ۔"کتنے منافق ہیں، چوری بھی کریں گے، رشوت بھی کھائیں گے، دھوکہ بھی دیں گے، ناحق مال بنائیں گے، قتل و غارت بھی کریں گے، زنا کو معیوب نہ سمجھیں گے، شراب کے نشے میں دھت رہیں گے، "ہوں" بڑے آئے اسلامی نظام کے دعویدار۔    منطق کی میزان پر تولیں، انصاف کی نظر سے دیکھیں تو یہ تمام ، عام، لوگ اسی معاشرے، اسی سماج کا حصہ ہیں۔ ممکن ان کی "باقائدہ تعلیم" کم ہو،  وہ زمانے کے حالات سے نابلد ہوں۔ لیکن وہ اسی معاشرے کے فرد  ہیں، تھوڑا سا احساس رکھنے والے، کچھ سوچ، کچھ خیال، ہلکا پھلکا تجزیاتی زوق، اور مشاہداتی شوق ان کا بھی ہو گا۔  "اتی سی" عقل ان میں بھی ہو گی۔ تھوڑی سی سمجھ انہیں بھی ہو گی۔   اس معاشرے کی منافقت سمیت زندگی بسر کرتے ہوئے جب  کبھی یہ "منافق" لوگ  ایک "یوٹوپئائی اسلامی نظامِ خلافت" کی بابت خواب دیکھتے، یا اس کا زکر کرتے، یا اس کی خواہش کا اظہار کرتے۔، تو ان کی اس موجودہ نظام سے جھنجلاہٹ بول رہی ہوتی، اس جاری طریقہ کار ِ زندگی سے اکتاہٹ جھلک رہی ہوتی۔  اور لاشعور کے کسی کونے میں یہ ادراک ہلکورے لے رہا ہوتا کہ "اسلامی نظام" کی جو بات کہی جاتی ہے اگر وہ نافذ ہو جائے تو اس  جبر، ظلم، استحصال، کی چکی سے نکلا جا سکتا۔  اِس "منافقت" سے بچا جا سکتا۔ انہیں اس  امر کا بخوبی ادراک ہوتا ہے کہ "چوری کی سزا پر  ہاتھ کٹتے ہیں" زنا پر کوڑے لگتے ہیں یا سنگساری ہوتی ہے۔ نماز نہ پڑھنے  پر تعزیر  لاگو ہوتی ہے۔ رشوت لینے پر سر عام  ھنٹر پڑ سکتے۔  حقدار کا حق مارنے پر پھینٹی لگے گی، دھوکہ دہی، قتل ، لڑائی جھگڑے،  منشیاتی استعمال، حدود کو پھلانگنے پر بے حد سنگین  سزائوں کا اطلاق ہو سکتا۔   وہ جانتے ہیں، سمجھتے ہیں،  اسی لئے تو وہ "اسلامی نظام " کی بات کرتے ہیں۔ کیونکہ یہ تمام، عام، لوگ اس معاشرے کی رگ رگ سے واقف ہیں، اور اس کی منافقت کے علاج سے بھی،   اور "اسلامی نظامِ خلافت" کی خواہش کا اظہار کرنے والے  چاہتے ہیں کہ  نظم و ضبط ، حدود و قیود  میں رہ کر ہی "منافقت" سے جان چھوٹ سکتی۔

3 comments:

  1. جناب ۔ میں دو جماعت پاس ناتجربہ کار آدمی ہوں ۔ سمجھ نہیں آئی کہ آپ نے میرے جیسوں کی بات کی ہے یا کسی اور قسم کی

    ReplyDelete
  2. میرے محترم۔ "عام" لوگوں کی بات کہی۔ اور ہم بھی عام لوگوں میں ہی شمار ہوتے ہیں،

    منتشر اور بکھرے ہوئے مبہم خیالات کو پوسٹ دیا۔

    اصلا عرض کرنے کا مقصد یہ تھا کہ "عملی طور" پر ناکارہ ہونے کے باوجود لوگوں کا حق ہے کہ وہ اسلامی نظام کی بات کر سکیں۔ اور اس کی خواہیش کر سکیں

    ReplyDelete
  3. اگر کبھی اسلامی نظام نافذ ہوا بھی، تو خاکی وردی کے سائے تلے ہوگا۔
    ان جموری جمہوروں میں اتنا دم نہیں کہ لبرلوں کی مخالفت مول لے سکیں۔

    ReplyDelete

Flickr