Thursday, October 7, 2010

ایشر سئیاں

منٹو سردار صاحب کا پسندیدہ افسانہ نگار ہے۔ منٹو فہمی میں ہم ان کے شاگرد ہوتے ہیں۔ بات سیاست کی ہو۔ مذہب کی یا پھر حالاتِ حاضرہ کی۔ منٹو کا حوالہ محترم کی گفتگو میں لازم ہے۔ ملا کا تذکرہ چھڑے۔ سیاستدانوں کی بات ہو۔ لوٹوں کا قصہ۔  جنگوں کی کہانیاں۔ ملکوں کے تعلقات منٹو کا تڑکا لگے بغیر سردار صاحب کی ہانڈی نہیں گلتی۔  کل بہت دنوں بعد ان سے ملاقات ہوئی۔ کافی دنوں کے وقفے کے بعد ہمیں بھی ان کی طرف سے کسی نئی ادبی گالی کا انتظار تھا۔ چھٹتے ہی فرمانے لگے۔ لو بھئی ایشر سئیاں آنے کو ہے۔ ہمیں فورا ٹھنڈا گوشت یاد آیا۔ مگر بات کی تہہ تک پہنچنے کے لئے سردار صاحب والا دماغ کہاں سے لائیں۔ سو جناب سے تشریح کی درخواست بھی کر دی۔ پہلے تو محترم نے سارا افسانہ دہرایا۔ اس کے بعد پوچھا کیوں بھئی سمجھ آئی کہ اپنے ایشر سئیاں کہاں فٹ ہوئے۔ ہم نے نفی میں گردن ہلائی تو یہ گول آنکھیں گما کر کہنے لگے۔ رہو گے ٹھنڈاَ گوشت سدا۔
پھر خود سے وضاحت فرمانے لگے۔( جیسے دسویں میں علامہ اقبال کے شعروں کا سیاق و سباق اور تشریح ہوتی تھی۔) کہنے لگے بابو، مشرف نے مسلم لیگ بنا لی۔ اپنے جرائم کی قوم سے معافی مانگ لی اور وطن واپسی کا بھی کہہ دیا۔ ہم نے اثبات میں گردن ہلائی۔ اب مشرف ایشر سنگھ۔ مگر بلونت کور کون سردار جی۔ ہم نے بھی ان کے ایک ثانئے کہ وقفے میں سوال داغ دیا کہ اگلی باری بولنے کی نجانے کب آئے۔ ارے زرا صبر کرو نہ میاں۔ پوری بات سنو انہوں نے ہاتھ اٹھا کر کہا۔ جی صحیح۔ ہم نے بھی اسی انداز میں کہہ دیا۔  ایشر سنگھ بھی ڈاکو، لٹیرا۔ مشرف بھی۔ ایشر سنگھ نے بھی قتل کئے مشرف پر بھیِ یہی الزام۔ جی بالکل ہم پورے وثوق سے بولے۔ ایشر سئیاں عیاش پرست تو مشرف، اگلی بات پوری کرنے کے لئے ہمیں موقع دیا گیا اور ہم نے بھی جھٹ سے کیا مشرف تو اس سے دو نمبر آگے بلا نوش بھی۔
تو پھر ہوا نہ پورے کا پورا ایشر سنگھ کی کاپی۔ ہم نے ہاں میں ہاں ملائی۔  مگر سردار جی وہ بلونت کور۔ وہی جس کی طرف ایشر سئیاں کا رخ ہے۔ جس کے پاس ایشر سئیاں نے جانا ہے۔ جس کو اپنی غلطی سے آگاہ کرنا ہے اور جس نے پھر سے اسے گلے لگانا ہے۔ بہت سی باتوں کو سمجھ کر بھی ہم ناسمجھ بن گئے اور فورا اٹھ کر چائے بنانے کو دوڑے۔ کہ سردار جی کی اگلی بات ہمیں ہضم نہیں ہو سکتی تھی۔  کلونت کور کے کردار کی ہمیں سمجھ آ گئی۔ آپ کو بھی آ چکی ہو گی۔ مگر بیچ میں ایک کردار اور بھی ہے خاموش۔ سویا ہوا۔ صرف چند جملوں میں بیان ہوا ہے۔

 ٹھنڈا گوشت منٹو کا ایک شاہکار افسانہ ہے۔ کہتے ہیں بہترین افسانہ وہی جس کے کردار خود بخود بولیں اور بہترین افسانہ نگار وہ جس نے اپنے کرداروں میں جان ڈال دی۔
منٹتو نے ٹھنڈا گوشت میں صرف دو کرداروں سے کام لیا اور ہمارے سیاست میں بھی انہی کرداروں کا چلن کے ہر بار لٹیروں کو معافی مل جاتی ہے۔۔ مگر کہیں تیسرا بھی ہے، وہی جو پتا پھینکنے کے باوجود مزاحمت نہ کر سکے۔ جو پھینٹے  جانے کے باوجود ہل نہ سکے۔ بول نہ سکے۔اپنے لٹنے کی فریاد نہ کر سکے۔ اپنی عزت کے لٹیرے کو کبھی کچھ کہہ نہ سکے۔ ٹھڈا گوشت۔ گلیوں بازاروں میں چلتے ہوئے ٹھنڈے گوشت کے پارچہ جات۔

2 comments:

  1. Toup puraani goley puraney...wohi Hujoom e Khamoshaan...jo keh gaye ne Mento ji kuj nai os ich Add hona....

    ReplyDelete
  2. Allah kary k thandy goosht main b rooh aa jai,, issy b ahsas hoo k iss k sath eeshar kia kar rha hai,,

    ReplyDelete

Flickr