Wednesday, March 7, 2012

نفرتوں کا بیج



ایک نئے وطن دشمن کی کہانی کچھ ایسی ہوتی ہو گی۔                                                                                   مان لیا کہ میرا بھائی دہشت گرد ہے۔ تسلیم کہ وہ وطن دشمن ہے۔ سچ ، کہ اس کا تعلق کالعدم تنظیم سے ہے۔ صحیح کہ وہ حکومتی تنصیبات پر حملے میں ملوث۔ حقیقت کہ اس کا رابطہ ملک دشمن عناصر سے ہے۔  ہو سکتا وہ کہیں مارا گیا ہو، ممکن وہ سرحد پار موجود ہو۔ تم نے کہہ دیا اور سب الزامات ثابت ہوئے۔ مان لیا۔ جب وہ غائب ہوا، گرفتار ہوا، اغوا ہوا، اٹھایا گیا یا سرحد پار چلا گیا۔ تو میرے گھر میں اک قیامت نازل ہوئی تھی۔ اس کے معصوم بچوں نے چیخ چیخ کر آسمان سر پر اٹھا لیا تھا۔  اس کی بیوی نے رو رو کر آنکھیں خشک کر لی تھیں، بوڑھی ماں نے بین کر کر کے سب کو رلا دیا تھا۔ ضعیف باپ کی بےبس آہوں نے سب کے دل دہلا دئے تھے۔ اور ان سب حالت دیکھ کر، دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر میں اس کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا تھا۔ میں سوچ رہا تھا یہ میرا انسانی، اسلامی، آئینی حق ہے کہ میں پتا کر سکوں میرا بھائی کہاں ہے کس حالت میں ہے کس جرم میں گرفتار ہے۔ جب میں اسے تلاشتا ہوا مختلف در کھٹکھٹا رہا تھا تو فریاد کے ساتھ میری آہ بھی نکل جاتی۔ شاید یہی آہ ، میری یہی آواز اندر بڑوں کو "ڈسٹرب" کرتی تھی۔ ان کے سکون میں خلل ڈالتی تھی۔ جب میں بار بار پوچھتا کہ میرا بھائی کہاں ہے تو وہ مجھے بھی اسی کا ساتھی قرار دیتے۔ میں سوچتا "حقوق" کیا ہوتے ہیں۔۔ وہ کہتے تمہارا بھائی کے متعلق ہمیں معلوم نہیں۔ پھر ایک دن اس کی کٹی پھٹی مسخ شدہ لاش مل گئی۔۔۔۔  مجھے پھر اپنوں کی حالت نے مجبور کیا کہ میں ان کے زخموں کے مداوے کے لئے انصاف مانگوں تا کہ ان کا درد کم ہو سکے۔ میں سڑکوں پر، چوراہوں پر۔ ہوٹلوں میں، سکولوں کالجوں میں اس کے قتل کی وجہ پوچھنے لگا۔۔ اس کو قتل کرنے والوں کے بارے پوچھنے لگا۔۔ میرا تعلق صرف اپنی ماں کی آہوں سے تھا،  میرا رابطہ بھائی کے یتیم بچوں کی معصوم سسکیوں سے تھا، میرا ہدف بیوہ بھابھی کے زخموں پر مرہم رکھنا تھا، بوڑھے باپ کے دل کو سکون پہنچانا تھا کہ انہیں معلوم تو ہو ان کا جوان کس جرم میں مارا گیا۔۔ مگر پھر مجھے اٹھا لیا گیا، مجھے اغوا کر لیا گیا، ملک دشمنی کے الزام میں، دہشت گردوں کے ساتھ تعلق کے الزام میں، پھر میں بھی وہیں رہا جہاں میرے بھائی کو رکھا گیا تھا، اسی حالت میں، اسی ازیت میں، اسی درد اور کرب کے ساتھ۔ اسی مار کٹائی کے ساتھ۔۔ مان لیا میرا بھائی دہشت گرد تھا، مان لیا میرا بھائی ملک دشمن تھا، لیکن میں تو صرف ایک بھائی تھا! ایک بیٹا تھا، ایک چاچا تھا۔  

پنجابی کی گنڈاسہ فلموں میں گائوں کے غریب ماجھے کی بیوی بے آبرو کر دی جاتی ہے۔ اور انصاف مانگنے پر ماجھے کو چوہدری کے غنڈے قتل کر دیتے ہیں۔ پھر اسی ماجھے کا بیٹا  گاما بڑا ہو کر انتقام لیتا ہے تھانیدار، تھانہ، پولیس والے، چوہدری کے حواری دوست یار سب اس گامے کی نظر میں  گناہ گار ہیں۔ مجرم ہیں۔ کچھ اسی طرح ہمارے ہاں بھی ہو رہا ہے۔ بلوچستان کی صورت حال اور پنجابی کھڑاک فلم کی کہانی میں کچھ زیادہ فرق نہیں۔

8 comments:

  1. بہت سچی بات ہے لیکن آہ جب جنگل کا قانون شہر میں نافذ ہو جائے تو صورت حال ایسی ہی ہوتی ہے اور اس صورت میں بس اپنے کو بچانا ہوتا ہے باقی سب کچھ جائے بھاڑ میں

    ReplyDelete
  2. یہ لعنت ہمارے خون میں اندر تک سرائت کرچکی ہے۔
    یہ ہم ہی ہیں جن کی وجہ سے ایک پڑھا لکھا بلوچ نوجوان ڈاکٹر اللہ نذر ہتھیار اُٹھانے پر مجبور ہوا۔
    اور ڈاکٹر شازیہ والا قصہ بھی یاد ہوگا۔
    نیت صاف کرنے کی ضرورت ہے، جو ممکن نہیں رہی اب۔

    ReplyDelete
  3. بلاتبصرہ
    اللہ سب پر رحم فرمائے۔

    ReplyDelete
  4. فلم دیکهتے وقت ایسے مناظر پر اتنی دلی تکلیف ہوتی ہے تو جس پر سچ میں یہ سب گزارتا ہے ان کا حال کیا ہوتا ہوگا ...... آپ نے بہت نقش ہوتے انداز سے لکها ہے


    ReplyDelete
  5. بس فروٹ تیار ہے
    درخت کے نیچے بیٹھ جآ
    سیب ابھی گرا کے ابھی گرا
    نویں تھیوریاں ایجاد کرنے کا سنہری موقع ہاتھ لگنے والا
    ویسے تو ہمارے حکمران کیلوں اور قوم گنوں کی شوقین ہے
    پھر کبھی کبھی ٹیسٹ بھی بدل لینا چاہئے

    ReplyDelete
  6. جو بویا ہے وہ کاٹنا تو پڑے گا

    ReplyDelete
  7. گویا لاپتہ افراد پر پہلی تحریر پوسٹ ہوگئی۔
    اچھا قدم اُٹھایا ہے۔

    اور یہ بات درست ہے کہ بٹیر اس وقت تک نہیں لڑتا ،جب تک اسکے سر پر انگلی سے بار بار وار کرکے اسکو جنگجو نہ بنایا جائے۔

    ReplyDelete

Flickr