Monday, March 12, 2012

محبتاں سچیاں نیں۔





او ظالمو محبت کرنے والوں کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ گئے ہو، دو معصوم  نظریں ملیں ہوں گی۔  چہرے کے خد و خال دل کو چیر گئے ہوں گے۔ شرمیلی ہنسی نے من مو لیا ہو گا۔ امنگیں جاگی ہوں گی، خواب دیکھے گئے ہوں گے۔ سپنے بن بن کر پروئے ہوں گے ان معصوموں نے۔ طالمو محبت کا کونسا مذہب ہوتا ہے۔ محبت کا کیا دین ہوتا ہے، محبت تو محبوب کا مزہب مانتی ہے محبوب ہی قبلہ کعبہ مسجد مندر، غریب رنکل کمہاری کو کیا پتا تھا کہ اس کی معصوم محبت کو ایسے بدخواہ ٹکریں گے۔ اس نے تو بس پیا سنگ جیون بتانے کا سوچ کر بابل کا آنگن چپکے سے الوداع کر دیا ہو گا۔ اس نے تو بس من کے میت کو اپنا سب کچھ مان کر دل جان ایمان قربان کر دیا ہو گا۔ ظالمو تمہیں آہ لگے گی ان معصوموں کی کیسے اجلے چہرے ، کیسی محبت کا نور اور کسی ملن کی شانتی نظر آتی ہے ان  راہ محبت کے مسافروں کے چمکتی جبینوں پر۔ کیسا سکون ہے رنکل کماری کے لہجے میں فریال شاہ بن کر بھی جیسے وہ اس احساس میں ڈوبی ہوئی ہو کہ میرا سجنا میرے دل کا چین میرے ساتھ ساتھ ہے۔ سماج تیرا ککھ نہ رہوے۔۔ پیار والے تو کہتے ہیں " نہ میں مومن نہ میں کافر" اور تمہارے پیٹ میں مروڑ اٹھنے لگتے ہیں، ارے اگر کسی فلمی سین کی طرح کماری کا راج کمار اسے چپکے سے بھگا لے گیا تو تمہیں کیا تکلیف ہوئی۔ وہ مسجد کو جائیں یا مندر میں جائیں تم کیوں بڑبڑاتے ہو۔ اب رنکل نے خالص مشرقی دوشیزہ کی طرح اپنے پیا کے قدموں میں سب کچھ قربان کر دیا تو ظالمو تمہیں کیوں برا لگا۔ کسی داستان کی شہزادی کی طرح رنکل کماری نے اپنا تن من نچھاور کر دیا نوید شاہ پر، تو خدا سے بے خوفے سماج والو تمہارا چہرہ کیوں لال بھبوکا ہو گیا۔ محبت کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ محبت کا کوئی دین نہیں، محبت خود ایمان ہے پیار کرنے والوں کا۔ تم دونوں کو جدا کرنا چاہتے ہو۔   خدا نے فرعون کے گھر موسٌی کی پرورش کی تھی۔ کسی مولوی کے دل میں ان کی محبت نے نرمی پیدا کر دی تو حیرانی کیوں ہے۔ تمہیں تو خوش ہونا چاہئے کہ برسوں کا بگڑا مْلا محبت کی تان پر جھوم اٹھا ہے۔  سوچو جو ملا لٹھ اٹھا کر محبت کرنے والوں کے پیچھے بھاگ کھڑا ہوتا تھا ۔ آج وہی اہل محبت کی امان کے لئے سماج سے لڑ رہا ہے۔ محبت جیت گئی ملا ہار گیا۔ تم بھی اپنی ہار مان لو ظالمو۔ اسی ہار میں جیت ہے محبت کی۔ رنکل کماری ہو یا فریال شاہ نوید شاہ کو دل کے راج سنگھاسن پر بٹھا چکی۔ تم بھی اپنا سر تسلیم  خم کر لو۔۔محبت والوں کو مت ستائو۔ ان کی آہ سیدھی اوپر جاتی ہے۔،

3 comments:

  1. خوب لکھا ۔۔۔۔۔
    پس الفاظ تحریر کوئی اور ہے
    :)..

    ReplyDelete
  2. پس الفاظ کوئی اور ? تفصیل سے بولا کی جئے نہ، شیخ رشید صاحب کی طرح پہلی بھجوا دی :)

    ReplyDelete
  3. اچھا طنز کیا ہے محبت کی شادی کے جو سب سے زیادہ مخالف تھے پیر صاحب آج کیسے دو دلوں کو ملانے میں پیش پیش ہو گئے چاہے اس چکر میں دین اسلام کو روح کے پرخچے اڑ گئے جو کہتا ہے دین میں جبر نہیں

    ReplyDelete

Flickr