Friday, April 26, 2013

عادیوں کا قاصد

پاکستان کے فوجی گملوں میں جمہوریت کی پنیری ہمیشہ تیار رہتی ہے۔ جو سنگینوں کے زریعے بوقت ضرورت اسلام آباد کی زرخیز زمین میں کاشت کر دی جاتا ہے۔  لیکن عام پاکستان کو کبھی کبھار اپنے نمائندے آپ چننے کا موقع مل ہی جاتا ہے۔ انہیں بھی کہا جاتا ہے۔ آئو بتائو کون بنے گا  کروڑوں کا پتی! ان کی رائے کو بھی اہمیت مل جاتی ہے۔ لیکن شاید خوشی سے بوکھلا کر یا پھر فطری سادگی سے مجبور عوام غلطی کرنے میں بالکل نہیں چوکتے۔ یعنی وہی غلطی جو قومِ عاد سے سرزد ہوئی تھی۔  جب قوم عاد اپنے گناہوں اور سرکشی کی بنا پکڑ میں آئی ، ان پر قحط اور خشک سالی کا نزول ہوا  تو انہوں نے بھی دستور زمانہ کے مطابق اکٹھے ہو کر ایک آدمی کو چنا ۔ تا کہ وہ  مکہ مکرمہ جائے اور اللہ کے حضور ان کی نمائندگی کرتے ہوئے ۔ مغفرت طلب کرے اور رحمت و برکت کی دعا مانگے۔ اس آدمی کا نام قِیل تھا۔  قیل منزلیں طے کرتا ہوا مکہ پہنچا اور وہاں کے ایک سردار معاویہ بن بکر کا مہمان ہوا۔ سردار کی مہمان نوازی اور فیاضی نے سفر کی ساری تھکان اور قوم کی تمام فکر ہوا کر دی۔ شراب و کباب کی محفلیں ، رنگ برنگے کھانے ، اور اپنے میزبان کی دو  خوبصورت ، خوش آواز لونڈیوں کی سنگت سے  لطف اندوز ہوتا رہا۔ جام  کے نشے میں مست مہینے بعد جب کسی مغنیہ نے اس کی قوم کی کسمپرسی کے متعلق شعر کہا تو  اسے سینے میں درد محسوس ہوا ۔ خیال آیا کہ میں تو دعا کے لئے حاضر ہوا تھا۔ فورا اٹھا اور قوم کا درد  سینے سے لپٹائے  ہوئے ایک پہاڑ پر جا کر  اللہ کے سامنے عرض گزار ہوا۔  "مولا تجھے تو معلوم ہے میں یہاں پکنک منانے نہیں آیا تھا۔ میری قوم مصیبت میں ہے۔ اس پر رحم فرما۔ عادیوں کو فاقہ سے نکال دے، انہیں وہ پلا جو تو انہیں پلاتا تھا"۔ اس کے دعا مانگنے کی دیر تھی کہ آسمان پر دو بادل نمودار ہوئے ۔ایک بھورے سفید رنگ کا اور ایک سیاہ بادل جس میں بجلی کڑک رہی تھی۔ غیبی آواز آئی "ان دو میں سے جو چاہتے ہو لے جائو"۔  قیل نے اپنی دانست میں سیاہ بجلیوں والا بادل منتخب کیا کہ سوکھی کھیتیوں پر خوب برسے گا۔ اور اپنی قوم کی جانب روانہ ہوا۔ عادیوں نے جب دور سے دیکھا کہ قیل گھنے سیاہ بادلوں کے ہمراہ آ رہا ہے تو لگے خوشیاں منانے کہ اب خوب برسات ہو گی اور کھیتیاں ہری بھری ہونے سے خشک سالی ختم ہو جائے گی۔ لیکن قریب پہنچ کر سیاہ بادل آنا فانا طوفان کی شکل میں گرجے ۔ تیز آندھی، بجلی اور سخت کڑکتی آوازوں نے عادیوں کے دل دہلا دیئے۔ ان کے گھر بار سب الٹ پلٹ گئے اور ان پر سخت عذاب مسلط ہوا۔ اہل عرب جب کسی کو نمائندہ بنا کر بھیجتے تو اسے کہا کرتے "عادیوں کے قاصد  کی مانند نہ ہو جانا"

۔تو اہل پاکستان اپنی پارلیمان میں عادیوں کا وفد مت بھیجنا

6 comments:

  1. قومِ عاد میں سے جو وفد بھی بنے گا وہ ’’عادی‘‘ ہی تو ہو گا۔

    ReplyDelete
  2. عادت چھوڑنی پڑے گی۔ :ڈ

    ReplyDelete
  3. کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم کہتے رہ جائیں
    یارب ۔ نہ وہ سمجھے ہیں ۔ نہ سمجھیں گے میری بات
    دے اور دل اُن کو جو نہ دے مجھ کو زباں اور

    ReplyDelete
  4. پیارے انکل. پهر وہ بات ہوتی ہے ناں. لمحوں نے خطا کی تهی صدیوں نے سزا پائی.

    ReplyDelete
  5. یہ آخر میں تو ریکویسٹ کر را اہل پاکستان سے؟
    لعن طعن کر ھمیں
    ھمارے سے ریکویسٹ کرے گا تو ھم مزید چعڑے ھو جائیں گے
    بندر کے ہاتھ ہلدی لگنے والا معاملہ ہے یہ

    ReplyDelete
  6. نی جاتی آپ کی آواز اُن تک

    کان بند ہیں ۔ نو مید تو نہیں پر ابھی نہیں

    ReplyDelete

Flickr