نیدو: "میرے دادا ابو
کے پاس اتنے جانور تھے ،اتنے جانور تھے کہ ان کے چارے والی کھرلی ،سال پورا
چلتے رہو، ختم نہیں ہوتی تھی۔"
پھُلا ! کھرلی سیدھی
تھی۔؟
نیدو: ہاں ایک دم
سیدھی میلوں دور تک ۔
پُھلا: یہ تو کچھ
نہیں۔ میرے دادا کے پاس اتنی لمبی ڈانگ
تھی، اتنی لمبی کہ رات کو اسے سیدھا کر کے
آسمان کے تارے ہلاتے رہتے تھے۔ "
نیدو: چل جھوٹے! اتنی
لمبی ڈانگ ہو ہی نہیں سکتی۔
پُھلا: کیوں نہیں ہو سکتی اتنی لمبی ڈانگ"
۔ نیدو: "ابے اتنی لمبی ڈانگ جو آسمان کے تاروں کو چھو
سکے، اسے رکھیں گے کہاں؟"
پُھلا: تیرے
دادے کی کھرلی میں"۔
یہ قند مکرر فری
آفر والا۔
فرنی: میرے پڑدادا کی گھڑی دریا میں گر گئی۔ سو سال
بعد نکالی اسی طرح چل رہی تھی۔
کھیر: میرے دادو دریا
میں گر گئے تھے۔ سو سال بعد نکالے اسی طرح زندہ سلامت۔
فرنی: تیرے دادو دریا میں سو سال کیا کرتے رہے؟
کھیر: تیرے پڑدادا
کی گھڑی کو چابی دیتے رہے۔
سیاسی جماعتوں کے حامی کاکوں ،کاکیوں کا حال بھی ایسا ویسا ہی نہیں؟
سہی کہہ را یار
ReplyDeleteکتی یین مچائی وی هر جگہ کنجروں نے
مہر پر توں بلے تے ای لائیں
ھاھاھاھا
ReplyDeleteکمال لکھیا تے لاجواب تبصرہ ہو گیا
اب ہم کیا ٹانگ گھسیڑیں بیچ میں
میں تو پہلے ہی ایسے چھوڑووں کی فیس بک بند ہونے کی دعا کر چکا ہوں
ReplyDeleteیہ آپ نے بابے آدم کے ذمانے کےلطیفے کدھر سے نکال لئے، ہمارے دادا حضور اللہ بخشے سنایا کرتےتھے یہ لطیفے، تب ہم بہت ہنستے تحے، اب تو سیاہ ست دان اس سے بھی بڑے ہوے ہیں
ReplyDeleteبڑے "وہ" ہوتے ہیں "یہ" لوگ بھی۔۔
ReplyDeleteایک میرے ذہن میں بھی آرہا ہے
ReplyDeleteپر ابھی یہ نہیں پتہ کتنی کتر بیونت ہوتی ہے کمنٹوں اچ