دو سہیلیوں کی
مدتوں بعد ملاقات ہوئی۔ حال احوال پوچھا اور بیٹھ کر دکھ درد بانٹنے لگیں۔ ایک نے
پوچھا
چنو! بتا دوسرا
میاں کیسا ہے۔
دوسرا میاں! چنو
نے حیرت سے جوابی سوال داغا۔
ھاں تیری اپنے
پہلے خاوند سے ان بن ہوگئی تھی، طلاق کا کیس چل رہا تھا ناں۔
چنو نے تاسف سے
جواب دیا۔
نہیں طلاق نہیں
ہو سکی، لیکن بیس سال سے میں ماں باپ کے گھر ہی ہوں
اچھا! پھر یہ چھ بچے کیسے ہو گئے۔
سہیلی نے حیرانی
سے پوچھا۔
چنو شرماتے ہوئے
بولی۔
"وہ کبھی کبھار منانے بھی آ جاتے تھے"
درج بالا لطیفے
کا درج زیل بیان سے کوئی تعلق بنا تو مجھے بھی بتائیے
کامران خان ساب
فرما رہے "تمام معاملات کو ایک طرف رکھیے اور تجارت آگے بڑھائیے"
جیو والے
"مال" کی لسٹ بھی بتائیں جو بھجوایا جا سکتا اور منگوایا جا سکتا۔
منموہن سنگھ نے جو کچھ اوبامہ سے پاکستان کے متعلق کہا ہے وہ پڑھ لیجئے ۔
ReplyDeleteرہی تجارت تو بھارت سے کھُلی تجارت بینظیر بھٹو کے دور میں ہوئی تھی ۔ پرانے آلو یوٹیلیٹی سٹوروں پر پڑے گل سڑ گئے تھے اور سونا کافی مقدار مین بھارت چلا گیا تھا ۔ اپنی بہترین چینی برآمد کر کے بھارت سے پھیکی چینی سستی ہونے کے ناطے خریدی تھی جو ہماری چینی کے مقابلہ میں ڈیڑھ گنا استعمال ہوتی تھی اور یوں مہنگی پڑتی تھی
وہ سب چھوڑیں مانی بھیّا، لطیفہ کمال کا تھا :ڈ
ReplyDeleteحالات و واقعات کے تناظر میں یہ لطیفہ ایجاد ہوا ہے یا اس کا وجود پہلے سے تھا؟
ReplyDeleteہر بار کی طرح مزیدار تحریر
یار اگر آپ کے آقا لوگ تھوڑے پیسے اور بنا لیں گے تو آپ کا کیا جائے گا۔
ReplyDeleteوہ ایک الگ بات کہ یوں ہمارے ہمسائیوں کو امن بھی مل جائے گا اور آشا تو ان کی ہے ہی ہے
ReplyDeleteجیو گروپ ”امن کی آشا“ کے نام پر پاکستان کی نوجوان نسل کو گمراہ کرنے میں مصروف ہے۔
ReplyDeleteجیو ٹی وی اور ”امن کی آشا“ والے مہر بانی کر کے کشمیریوں کے ناحق خون کا بھی خیال کریں ، بھارتی افواج کشمیریوں کے خون کی ہولی ہر روز کھیلتی ہیں۔
ReplyDeleteبلوچستان میں بھارتی مداخلت کے بڑے واضح ثبوت موجود ہیں، بھارتی خفیہ ایجنسی ”را“ کا افغانستان میں بھرپور نیٹ ورک کام کر رہا ہے اور ہم امن کی آشا کا ورد پکا رہے ہیں ۔
”امن کی آشا“ دو فاختاﺅں کی پشت جڑی ہوتی ہے اور منہ مخالف سمتوں میں ہے گویا ایک پیغام یہ ہے کہ امن کی آشائیں ایک دوجے سے منہ پھیرے کھڑی ہیں۔ اور یہ حقیقت ہے کہ ہماری امن کی فاتحہ اور ان کی خود ساختہ فاختہ کی منزل ایک نہیں ہو سکتی۔
ReplyDeleteممکن نہیں ہے مجھ سے یہ طرزِمنافقت
ReplyDeleteاے دنیا تیرے مزاج کا بندہ نہیں ہوں میں
جس پاکستانی کو سن سینتالیس کے واقعات معلوم ہوں ، وە کبھی امن کی آشا کو تسلیم کر ہی نہیں سکتا ۔ یہ سب گونگلووٴں کی کھیپ ہے جسے جیو والے جہاں چاہیں لگالیں ۔
ReplyDelete