یاد آیا رفحا (عراقی سرحد کے ساتھ
سعودیہ کا ایک شہر) میں ایک لڑکا نیا آیا پاکستان
سے، اس کا چاچا ساتھ لایا تعارف کو۔ اقامہ
بننے میں دیر تھی میرے پاس آ جاتا ھٹی پر گپ شپ کو، یہ نیت بھی رہتی کہ کچھ یہاں کے
ماحول کا علم ہو جائے گا، زبان کا ٹانکا درست ہو گا۔ کچھ دن آیا اور پھر غائب، بہت دنوں بعد دوبارہ شکل
دِکھی تو پوچھا! بھیا کدھر گم تھے۔ کہنے لگا اپنے جاننے والوں میں سے کچھ رنگسازی کا
کام کرتے ہیں وہ ساتھ لے جاتے تھے کام پر کہ کچھ خرچہ پانی بنا لو اپنا۔ پھر! کیا ہوا۔
ہونا کیا تھا۔ سارا دن دیواریں کھرچ کھرچ ہاتھ
چنڈیا گئے، کمر دوہری ہوئی جاتی اور باتیں الگ۔ پھر بھی جی کڑا کر ہفتہ دس دن نکال
لئے کہ بیکار سے بیگار بھلی، لیکن کل حد ہی ہو گئی۔ وہ اکتایا ہوا لگ رہا تھا۔
کیا ہوا؟ میں نے اشٹوری میں حصہ ڈالا۔
دیوار رگڑتے ہوئے کچھ رنگ باقی رہ گیا تو ایک بولا " اوئے دیکھو
کمپوٹر انجینیر، سولہ سال کیا پڑھا ، تمہیں کسی نے ریتی مارنی نہیں سکھائی"
اور مامے کا قصہ!
ماما پانچویں کا
امتحان دے کر فارغ تھا جب اک دن فوجے کے ساتھ بکریاں چرانے
"ٹاکے" گیا۔ سارے محلے کی مل ملا کر پچیس تیس بکریاں اور دو بکروال۔ فوجا آوازیں لگا لگا بکریوں کو ھنکا
رہا تھا۔ جب کہ مامے کی طرف سے کوئی نہ
کوئی بکری جُل دے کر کبھی ادھر کو نکلے کبھی اُدھر کو بھاگ جائے۔
فوجا تنک کر بولا!
"پنجویں ناں امتیان دتا ای سہ تے
بکریاں موڑنیاں اجے کوئی نو آئیاں۔ سکول ماسٹر کے پڑھانے نی"
پانچویں کا امتحان دے رکھا اور بکریاں
چرانا نہیں آیا۔ اسکول ماسٹر کیا سکھاتے ہیں"
سچی گل اے پا جی
ReplyDeleteیار اب جن لوگوں نے تعلیم کی عیاشی نہیں کی ہوتی، ان کا بھی تو دل کرتا ہے نا خود کو دوسروں سے اونچا محسوس کرنے کا۔
ReplyDeleteیہ بات کسی کو سمجھ نہیں آتی کہ ہنر ہنر ہے، چاہے کمپیوٹر انجنئیری کا ہو یا بکریاں سنبھالنے کا۔ ہر کسی کی اپنی اہمیت ہے۔ لیکن اگر یہ مان لیا تو دوسروں سے خود کو اونچا تصور کرنا ذرا مشکل ہو جائے گا۔ ایسے ہی ٹھیک ہے شاید۔۔۔
ایک پڑھا لکھا دس سال لگا کر سفید پوشی کا بھرم رکھتا ہے ادھر،
ReplyDeleteپھر خیال آتا ہے نوکری نا کرتا کوئی دھوبی کی دکان کھول لیتا تو پاکستان میں ایک شاپنگ پلازہ ہی بنوا پاتا
پڑھائی تو اسلئے کی جاتی ہے کہ معاملات کو سمجھنا آسان ہو جائے ۔ ان معاملات میں ہُنر بھی شامل ہیں ۔ صرف سند یا اسناد حاصل کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا ۔ جن ممالک میں سند کے ساتھ سند والے کی قابلیت کو بھی پرکھا جاتا ہے وہ ترقی یافتہ کہلاتے ہیں اور ہمارے جیسے پسماندہ یا دل خوش کرنے کیلئے ترقی پذیر کہلاتے ہیں ۔ وہ الیکٹیکل انجنیئر کس کام کا جسے اپنے کھر کا فیوز لگانا بھی نہ آتا ہو ۔ وہ ڈاکٹر کس کام کا جسے پٹی ڈھنگ سے باندنا نہ آتا ہو ۔ باقی جو لوگ پڑھ لکھ کر غیر ممالک میں دیواریں کھرچتے ہیں وہ اپنے ذہن کو کیوں نہیں کھرچتے تاکہ اپنے ملک میں رہ کر محنت کریں
ReplyDeleteآپ کی تحریر کا پہلا حصہ انبالہ یا لدھیانہ کا طرزِ گفتگو ہے اور دوسرا حصہ پوٹھوہار کے علاقے کا ۔ ویسے اب اپنے دیس میں تو تعلیم کا درجہ اتنا گر گیا ہے کہ پُشت مضبوط نہ ہو تو ڈگری لینے کے بعد رکشا چلانا پڑتا ہے یا دیواروں پر پینٹ وغیرہ ۔ وجہ یہ ہے کہ فی زمانہ پڑھائی کی جاتی ہے سند حاصل کرنے کیلئے نہ کہ علم حاصل کرنے کیلئے
بڑہنے لِکھنے والے بھی تو نوابی کےخواب دیکھ کر من من بھاری کتابیں اُٹھائے سکول کالج جاتے ہیں۔ اور پھِر ڈگریاں لیکر کر نواب بِن سلطان کہلانا چاہتے ہیں۔ اور سکول سے بھاگے ہوئے بُنر مند حضرات کے اڑکے یہ سُکے نواب چڑہتے ہیں تو غُصہ نِکالنا تو بنتا ہے جی
ReplyDeleteسچائی کڑوی تو لگتی ہے
ReplyDeleteپھر ٹینشن کیوں لیتے ہیں
آج کے زمانے میں رعب تو ہر کوئی اپنے کو موقع ملنے پر ڈالتا ہی ہے نرمی درگزر والی باتیں اس دور میں کہاں
ReplyDelete