خفاش صِفتوں نے اودھم مچا رکھا ہے۔
منبر و محراب
پر اگلتے ہیں۔ چیخ ، چنگھاڑ سے کان
پڑی آواز سنائی نہیں دیتی،
گرگوں کی گلیوں میں حکومت ہے اور شغالوں کی بھوکی نگاہوں نے ،
سجدے میں پڑے بدمستوں کو
لاشے سمجھ لیا ہے۔
سگان آوارہ آتے ہیں
، مسجد کی چوکھٹ پر ایک ٹانگ اٹھا کر موت جاتے ہیں۔
مداری سروں پر گنج
اگائے، تماشا لگائے، مجمع بنائے جبہ و دستار والوں کا ٹھٹھہ اڑاتے ہیں۔ ، اہل
لحیہ پر تبرے کو بستی کی تمام
بلیوں نے ،
کتوں کے ساتھ
یارانہ لگا لیا۔ فضا کی صحت یابی
کو بھنگ کی کاشتکاری ، اور پوست کی تیاری میں امیر شہر کو فقیہان کِرم کا آسرا ہے۔
دم مارو دم کی صدا تمام رات لوری کا کام کرتی ہے۔ فصیل شہر کے چوبداروں کے نوکدار ڈنڈے رعایا کے
پچھواڑوں کی لالی غائب نہیں ہونے دیتے، اور
عامتہ الناس اٹھتی ٹیسوں کو نشے کی لہر سمجھ کر گہری نیند سوتی ہے۔
واہ لالے۔
ReplyDeleteسچ کہتے ہیں کہ مسجد سے نکلنے والا ہر شخص نمازی نہیں ہوتا۔
بہت اعلیٰ
بہت اعلی
ReplyDeleteواہ لاجواب۔۔۔۔۔ الفاظ نہیں جو اس خوبصورت خیال و الفاظ کی تعریف کر سکیں۔۔۔
ReplyDeleteبہت خوب کہا ، بہت اعلی
ReplyDeleteکس کو سنا رہا ہے
ReplyDeleteداغ جو سینے میں رکھتے ہوں وہ لالے ہی نہیں