Saturday, March 1, 2014

سچائی کی پنہائیوں میں! پہلا حصہ۔

  ارن دھتی کہتی ہے ، "زمین ایک رِستے زخم کے جیسے  لہولہان ہے، سرخ دھول  نتھنوں سے ہوتی پھیپھڑوں میں بھر جاتی ہے۔ ان کے چہرے  لال ہیں، بال مٹیالے ہیں، لباس گرد میں اٹے ہوئے ہیں، آتے جاتے ٹرک ان کی زمینوں کا خزانہ چرا کر راستوں سے دھول اڑاتے گزرتے ہیں"۔ اور  بقول ارن دھتی رائے ، وہ  اپنے سونا   چین کی جانب جاتا دیکھ کر حسرت سے آہ ہی بھر سکتے ہیں۔

 دو ہزار نو کے شروع میں ہندوستانی سرکار نے " سبز شکار" کا ارادہ بنایا۔ ایک بڑا عمل جراحت، "گرین ہنٹ"   ان  "سبز پوش سرخوں" کے خلاف جو تین   دھائیوں سے دہلی سرکار کی ناک میں دم کئے ہوئے ہیں۔ اس تحریک میں سانولے لڑکے،  سلونی لڑکیاں،  کالی بھجنگ عورتیں، توانا    مرد،  بے ڈھول بوڑھے  شامل ہیں   وہ نکسل باڑی جو ھندوستان  کے پانچ سے زائد صوبوں اور پچاس سے زیادہ اضلاع کو اپنی لپیٹ میں لئے ہوئے ہے۔ وہ مائو نواز باغیوں کی تحریک جس نے  جنوب مشرق کی پوری پٹی پر اپنا اثر بنا رکھا ہے۔   کرناٹکا،  مہارشٹرا، جھاڑ کھنڈ، بہار چھتیس گڑھ، بنگال، اڑیسہ، آندھرا پردیش، کیرلا اور تامل ناڈ تک کو  اپنے قابو میں کر رہے۔ دیہاتوں میں، جنگلوں میں،  دریائوں میں ، پہاڑوں اور دلدلی علاقے میں اپنا اثر و رسوخ رکھنے والی کیمونسٹ مسلح تحریک کے پاس  دو  لاکھ سے زائد رضا کار ہیں۔  چالیس ہزار کے لگ بھگ لڑاکے ۔ بہادر، بے دھڑک، موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر زندگی گزارنے والے دیہاتی۔  جان ہتھیلی پر رکھ کر جینے والے قبائلی۔ سنگ دل ،گلے کاٹنے والے۔ سخت جان ، دشمن کو نہ بخشنے والے۔ دیش دروہی، بقول من موہن سنگھ  ہندوستانی ریاست کے لئے سب سے بڑا اندرونی خطرہ، وطن دشمن  جو اپنی ہی سر زمین کو لہو لہان کر رہے۔٭٭  ہندومت کے تکفیری ،  اپنے فوجیوں کو   "مسلمان" قرار دے کر مارنے والے٭٭۔   پولیس والوں کے سینے چھلنی کرنے والے۔

ریل کی پٹڑیاں اکھاڑنے والے،  بسوں کو اغوا کرنے والے۔" آدی واسیوں "کے لئے  ھیرو اور  ہندوستانی میڈیا       کے بقول  دہلی سرکار کے سر کا  درد۔ ہندوستانی زمین کا ناسور۔ جو  اپنے علاقوں پر کالا جنگلی قانون لاگو کرنا چاہتے۔ جو ترقی کے دشمن ہیں، جو وطن کو پتھر کے زمانے میں دھکیلنا چاہتے۔   بھدے،  بد شکل، کم عقل، جاہل  مائو نواز قبائلی۔ ۔  آسان الفاظ میں سمجھئے تو ہندوستان  میں نکسلیوں کے بارے ویسی ہی کہانیاں مشہور جوں پاکستانی میڈیا  "طالبان" کے لئے پیش کرتا ہے
پاکستانی میڈیا  "طالبان" کے لئے پیش کرتا ہے۔


لیکن سب لوگ آنکھیں بند کر کے یقین کرنے والے نہیں ہوتے۔ خاص کر جب معاملہ انسانیت کا ہو، مسئلہ  زندہ جانوں کا  ہو۔  ارن دھتی رائے بھی سچ کے متلاشیوں میں سے ایک تھی۔ جو کھوٹے کو کھرے سے الگ کرنے کی سوچ رکھتی ہے، اور اس کے لئے ہمت بھی۔

ارن دھتی سچ کو اپنی آنکھوں سے  مشاہدہ کرنا چاہتی تھی۔ وہ ان کے دلائل، ان کی منطق اپنے کانوں سے سننا چاہتی تھی۔  انہیں جانچنے، پرکھنے اور سمجھنے  کے لئے، ان کی نفسیات پڑھنے کے لئے، ان کا رہن سہن دیکھنے کے لئے، ان کی سوچ، ان کے خیالات اور  ان کے جذبات جاننے کے لئے  ان کے پاس پہنچ گئی۔
اس کے بائیس دن کا سفر جنگل کنارے سے شروع ہوا ۔ جو گھنے  درختوں کے تاریک سائے  سے ہوتا اونچے نیچے رستوں پر چلتا، دریا کی لہروں پر ہچکولے کھاتا کسی گائوں کی پگڈنڈی تک پہنچ جاتا ہے۔ کبھی کسی آدی واسی کی جھونپڑی تک، اس کے چولہے سے اٹھتے دھویں کی لکیروں میں  زندگی کی بےثباتی کو جاننے کی کوشش کر رہی تھی۔ کسی علاقے کے سکول میں پڑھتے بچوں  تک، ان کی آنکھوں میں جھانکتے ، ارن دھتی حقیقت تلاشنے کی سعی میں مصروف تھی۔  ان قبائلیوں کے کندھوں سے لٹکتی بندوقوں کے دھانوں سے جھانکتے بھیانک حقائق،  جو  وسطی شہروں کے اے سی لگے کمروں میں ، ٹی وی پر میکاپے چہروں والی نیوز کاسٹر، اور جھریوں کو چھپائے چیختے چنگاڑتے تجزیہ نگاروں کی زبان سے کبھی سمجھ نہ آسکیں.وہ ان کہی سچائیاں جو اپنا آپ  ظاہر کرنے کو بے تاب لیکن کوئی نظر ہی نہیں، جو دیکھ سکے۔ کوئی صاحب نظر ہی نہیں جو پرکھ سکے۔


بقیہ حصہ وقفے کے بعد۔


2 comments:

  1. ارن دھتی کو اس انداز میں پہلی دفعہ پڑھنے کو مل رہا ہے، بہت خوبصورت انداز ۔ ۔
    باقی کا انتظار ہے۔

    ReplyDelete
  2. بہت خوب
    بقیہ حصے کا شدت سے انتظار رہے گا

    ReplyDelete

Flickr