Thursday, March 31, 2016

میراثیوں کا رولا!

بالے میراثی کی برادری بڑی تھی اور ٹبر بھی۔ ہر تیسرے دن کوئی نہ کوئی مر پڑتا۔ کوئی بوڑھا دمے سے موت کا شکار ہوا، کوئی عورت زچگی کے دوران مر گئی، کوئی بچہ نمونیے سےفوت ہو گیا، کوئی لڑکی تندور پہ آگ لگنے سے ہلاک۔کوئی مرد کرنٹ لگنے سی لڑھک گیا۔ سبھی گھر ایک ہی گائوں میں آس پاس تھے۔ روز کی بیماریاں، 
مردے، میتیں،کفن دفن، قبریں، جنازے؛ بالا تو گویا 'اک' ہی چکا تھا۔ خاص کر سسرالیوں سے ان بن کے باوجود منہ بسورے ان کی کھاٹیں اٹھانی پڑتیں۔
ایک رات گائوں میں ڈاکہ پڑا۔ مزاحمت پر بالے کے سسر سمیت تین دیگر سسرالی گھر کے مارے گئے۔ بالا گاؤں سے باہر تھا۔ اس کی عورت تابعدار اس کی اجازت کے بغیر دہلیز پار نہ کرنے والی۔ بالے کو حادثے کا معلوم پڑا تو بھاگا چلا آیا۔ کالے کپڑے نکالے، بیوی کو بھی کہا ماتمی لباس پہنے۔ جورو کو غم کے باوجود اچھا لگا کہ پہلی بار سسرالیوں کے دکھ میں اس کو اپنے آپ مضطرب دیکھ رہی تھی۔
دونوں گھر سے باہر کو چل دئیے۔ سامنے درختوں کی جھنڈ سے پرے عورتوں کے بین کی آوازیں آ رہی تھیں۔ بالا اور اس کی جورو آگے پیچھے چلتے پگڈنڈیاں ناپنے لگے۔ شیشم کے بڑے درخت سے بالا اوپری محلے کو مڑ گیا۔ پیچھے آتی اس کی عورت ٹھٹک کے رکی۔ لمحہ بھر انتظار کے بعد روہانسی ہو کے پکاری۔'' اے بالے، اوئے میرے دکھیارے۔ غم میں پگلا گیا''۔
اودھر کو چل ناں، ساری میتیں ابے کے ویہڑے ہی رکھی ہیں۔ بالا رکا، اور پیچھے دیکھے بغیر بولا '' کمینیے، چپ کر کے چل، رات ڈاکو، چوہدری کی مج بھی لے گئے۔ پہلاں اس کا افسوس کرنا ہے۔

No comments:

Post a Comment

Flickr