Sunday, February 1, 2015

سپارٹکس کا مدرسہ۔

سپارٹکس، ایک دومالائی کردار، یورپ کے داستان گو کا سورما۔اساطیری سرباز،بہادر، جری۔

عظیم سلطنت روما کا باغی۔ سو ہزار برگشتہ و منحرف غلاموں کا رہنما۔
جی ہاں وہی غلام شمشیر زن، نیزے باز، تیغدار جن کی بارے فلمیں بنا بنا ھالی وڈ پیسے کماتا ہے۔ گلیڈی ائیٹر!!
آزادی کا متوالا، صرف اکیس سو سال قبل وہ رومن فوج کے ہر اول دستے کا بہترین سپاہی تھا۔ پھر کسی شاہی فرمان کے برعکس اس نے اپنی ہی عوام پر تلوار اٹھانے سے انکار کر دیا۔
پاداش میں اس کا گھر جلا دیا گیا، اس کو بیوی سمیت غلام بنا کر بیچ ڈالا گیا۔
روم کی ان بھول بھلیوں میں جہاں موت کا کھیل کھیلا جاتا تھا۔ جہاں پنجروں میں بجائے جانوروں کے انسان پالے جاتے اور جہاں میدان میں   آدمی لڑائے جاتے۔
وہ پیدائشی حریت پسند تھا۔ آزاد منش، اس کی ماں نے اسے آزاد جنا تھا، اس کا بچپن، اس کی جوانی آزاد ہی گزری تھی۔
اسے رومیوں کی دلجوئی کے لئے، ان کے وحشیانہ شوق کی تسکین کے لئے ان کے سامنے کٹنا کاٹنا، مرنا مارنا انہتائی ناگوار گزرتا۔
اپنے دوستانہ انداز نے اسے  پہلوانوں کے درمیان پسندیدہ شخصیت بنا دیا اور اسی کا فائڈہ اٹھاتے ایک دن وہ اپنے ستر ساتھیوں سمیت فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا۔
ان ستر مفروروں نے چھاپہ مار کاروائیوں سے  بہت جلد روم اور مضافات میں اپنی دھاک بٹھا دی۔ لوگوں کی زبان پر ان کا نام عام ہونے لگا۔ اور غلام انہیں نجات دہندہ سمجھ کر ان کے پاس پہنچنے لگے۔
وہ ستر سے سات سو ہوئے اور پھر سات ہزار۔ رومیوں کے ستائے ہوئے، ان کے انسانیت سوز مظالم سے تنگ آئے غلام فرار ہو کر ان کے پاس پہاڑوں میں پہنچنے لگے، عورتیں ، بچے، بوڑھے۔ اس قافلے میں سبھی  ملتے جارہے تھے۔ سپارٹکس جہاں  جنگی مہارت میں لاجواب تھا وہیں انتظامی صلاحیتوں کا بھی بہترین مظہر ثابت ہوا۔  اس نے سلطنت روما کے ان باغی غلاموں کے اندر   اک آزاد زندگی کا جذبہ پھونک ڈالا۔ وہ مرنے مار نے کے پروردہ تو پہلے ہی تھے اب ان کے سامنے ایک منزل تھی ایک خواہش تھی اور ایک جذبہ جو  دوسرے ہر خیال سے برتر تھا، بدلے کا،  انتقام کا، ظلم کے عوضانے کا۔ اور  برسوں ظلم کی آگ میں جلنے کے بعد،  ان غلاموں کے لئے  انسانی جان بے وقعت تھی۔ سو  وہ مستقل اور منتقم مزاجی کے ساتھ سلطنت  پر حملے کرنے لگے۔  وہ شہروں، قصبوں دیہاتوں پر حملہ آور ہوتے ، مال دولت لوٹ لیتے اور کشتوں کے پشتے لگا دیتے۔ ان کے سامنے آنے والا نہ بوڑھا ہوتا، نہ عورت نہ بچہ، ان کی نظر میں سب ایک تھے "ظالم رومی"۔
اس  مفروری سپاہ کی انتقامی کاروائیوں میں جان سے جانے والے رومیوں کی گنتی کا اندازہ ہی لگایا جاتا ہے۔ چار لاکھ، پانچ لاکھ، سات لاکھ۔
سپارٹکس ایک بہترین گوریلا رہنما تھا، وہ پلٹنے، چھپٹنے، چھپٹ کر پلٹنے کی حکمت عملی سے بخوبی واقف تھا  اور ان جنگی حکمت عملیوں پر عمل پیرا ہو کر اس نے سلطنت روما کی بنیادوں کو ھلا کر رکھ دیا۔ اس کی سرکوبی کے لئے بہت  دفعہ کوششیں کی گئیں لیکن بےسود و بےکار۔
ایک سال کے عرصے میں سپارٹکس کے پاس ایک لاکھ سے زائد لوگ اکٹھے ہو چکے تھے۔ 
سپارٹکس کو  اپنے لوگوں کی فکر تھی۔ اتنی بڑی آبادی کو یوں جنگلوں ، پہاڑوں میں ساتھ رکھ کے گوریلا جنگ ممکن نہ تھی اس لئے اس نے اپنے غیر جنگی ساتھیوں کو  سلطنت روما کی پہنچ سے دور پہنچانے کا منصوبہ بنایا۔
اس منصوبے کی مخالفت میں اس کا جانثار دوست   کرکسِز ، اپنے تیس ھزار  ہمنوائوں کے ساتھ عیلحدہ ہو  کر رومیوں کے ساتھ جا بھِڑا اور مارا گیا۔
دوسری طرف سپارٹکس کے ہمراہیوں نے بھی روم سے نکلنے سے انکار کر دیا۔ سپارٹکس انہیں لے کر   روما کی اس تنگ پٹی کی جانب چلا  جہاں سمندر کے اس پار سِسلی واقع ہے۔ وہ اپنی "رعایا" کو کسی محفوظ جگہ بسانا چاہتا تھا۔ لیکن  قسمت نے ساتھ نہ دیا اور وہ کبھی سمندر پار نہ کر سکا۔  رومی  اپنے رہنما کراسِس  کی قیادت میں بھرپور تیاری کے ساتھ موقعہ غنیمت جان کر  واپسی کے پینتسی میل چوڑے راستے کو بند کر دیتے ہیں۔
تنگ آمد بجنگ آمد سپارٹکس اپنے جانثاروں کے ہمراء رومیوں سے لڑتے ہوئے مارا گیا۔
ساٹھ ہزار کے لگ بھگ   سپارٹکس کے ساتھی بھی اس جنگ میں کام آئے۔ چھ ہزار کے قریب زندہ گرفتار ہوئے، جنہیں بعد ازاں  سلطنت روما نے اپنی دھاک بٹھانے کو سرعام ٹٹکیوں پر باندھ کر مارا۔
غلاموں کی اس جدوجہد کا اثر یہ ہو کہ رومیوں کو عقل آگئی اور وہ   غلاموں سے قدرے بہتر سلوک کرنے لگے۔اور سلطنت روما۔۔۔۔ سلطنت روما کی چولیں ہل چکی تھیں، بیس پچیس برس کے بعد  نقشہ بہت بدل چکا تھا۔
لاکھوں رومیوں کے قاتل، عورتوں ، بچوں اور بوڑھوں تک پر بھی رحم نہ کرنے والے اور عظیم سلطنت روم کے ایک بہت بڑے باغی کو یورپی عمرانیات کے ماہرین ، "ریووشنلسٹ، ریفامر، اور آئیڈئلسٹ قرار  دیتے ہیں۔  اسے مارٹن لوتھر کنگ 
اور  رابن ھڈ جیسا ہیرو گردانا جاتا ہے۔
مکمل کہانی تاریخ کے اوراق پر درج ہے۔ اور ہمارے  لائیٹنے کا مقصد فقط یہ کہ تاریخ دانوں نے سپارٹکس کی خون ریز طبعیت کی وجہ اس کا   مسعود اظہر کی تقریریں سننا، اس کی انسانیت سوزی  کی نفسیات کے پیچھے  مرید کے والے اجتماع  میں شرکت، اور اس کے ظلم و ستم  کا موجب ضیاء الحق کی مونچھوں والا ستائل بتایا ہے۔
عورتوں کو مارنے کی تعلیم اس نے بنوری ٹائون سے حاصل کی، بچوں پر رحم نہ کرنے کی تربیت کا خرچہ سعودی حکومت نے اٹھایا اور بوڑھوں کو بے دردی سے مارنے کا جذبہ اس نے  مودودی کی کتابیں پڑھ کر پالا۔
مورخین اس بات سے بھی  متفق ہیں کہ سپارٹکس  "اسلامی وہابی شدت پسندانہ" نظریات سے  متاثر تھا۔
اور اس کا اسلامباد کے چند مدارس میں بھی آنا جانا تھا۔

3 comments:

  1. ہا ہا ہا ہا ہا ۔۔۔۔ یو شدت پسند تکفیری وہابی جماعتی دیوبندی تم لوگ کبھی نہیں سدھرو گے ہمیشہ لبرلوں کی دُم پر پاؤں رکھنے سے :)

    ReplyDelete
  2. واقعی۔۔ '''کٹر مسلمان'' تھا سپارٹکس۔۔۔
    (محمد نعمان بخاری)

    ReplyDelete
  3. اعلیٰ تحریر ہے مزہ آیا پڑھ کے لیکن ایک بات بتاؤں اگر زمانہ ایک ہی ہوتا تو سپارٹکس کا یا اسکے بندوں کی ٹریننگ کا کھرا پاکستان اور افغانستان اور فنڈنگ کا سرا بھی کہیں خلیج فارس میں سے ہی نکلنا تھا

    ReplyDelete

Flickr