Saturday, April 5, 2014

صحرا کا پھول

سنتے ہیں کہ نجد کے صحرا میں عشق کا پھول کھلا تھا۔  سینہء قیس میں۔ جو زلف لیلی کا اسیر تھا۔
کتنے ہی مائوں کے لال اس عشق نے بے حال کئے اور ایسے بھی   اہل بصیرت کو   دِکھے  جو اسی عشق کی بدولت  مالا مال ہو گئے ۔
عشق!  لیلائے شہادت کا، محبت دین الہی کی، تڑپ میدان جہاد کی۔
ایسے عشاق بھی گزرے جن کے  لئے  ہی کہا گیا
آ کے سجادہ نشیں قیس ہوا میرے بعد
نہ رہی دشت میں خالی کوئی جا میرے بعد
نجد کا وہ شہزادہ بھی کچھ ایسی ہی داستان سرائی میں مشغول تھا۔
صحرا کے بیچوں بیچ کھجوروں کا وہ باغ، چاندنی رات کا رومان پرور منظر،  ریت کو چھو کر آتی مست ہوا کے جھونکے اور اس پر اس کا بیان اللہ اللہ!
وہ کہے جا رہا تھا اور  میں محو سماعت تھا۔


""عرق انفعال اس کی کشادہ جبین پر چمک رہا تھا۔ آنسو موتی بن بن   ریش ، رخسار کو بھی منور کر رہے تھے۔  توبہ استغفار، آہ و فغان، ہچکیاں اور سسکیاں، اس کا بدن کانپ رہا تھا۔ وہ اپنے چہرے کو ہتھیلیوں میں چھپائے التجائیں کر رہا تھا، دعائوں کو لبوں سے   جدا کر رہا تھا۔ اس کی خوشبودار بھیگی  سیلی گیلی  سرگوشیوں میں مناجات کی چمکیلی رنگت صاف دکھتی۔ حرم پاک کے پاکیزہ، باوقار ماحول میں جہاں دل جلال الہی سے  نگوں   اور سینے  انوار سے پُر  ہوتے ہیں۔ وہ رکن یمانی کے عین سامنے
ایک ستون کی آڑ میں کعبہ رخ دوزانو بیٹھا  بید مجنوں   سا   لرزاں تھا
جمعہ کا مبارک دن اور مکہ مکرمہ کی پاکیزہ سرزمین، ایک جم غفیر کہ امنڈا چلا آ رہا۔  فلک بوس عمارتوں کے سایوں سے نکل کر سفید سنگ مرمر  کی سلوں پر قدم رکھتے ہی بندے کی تمام تر عاجزی اور انکساری کے جذبات احاطہ کئے ہوئے محسوس ہوتے۔دل  کی زمین خود بخود نرم ہو جاتی ہے ایسے میں ایمان کی کونپلیں پھوٹتے دیر نہیں لگتی۔  ایقان اپنے اوج تک جا پہنچتا ہے اور انسان کے سینے میں حق  سانسوں کی جا ، جاری ہوتا ہے۔
"عبدلوہاب رح"   کا محلے دار   اپنا  مافی الضمیر بیان کر رہا تھا۔ اس کی کوشش تھی کہ الفاظ آسان تر اور  عام فہم ہوں تا کہ مجھ سے نابلد کو تفہیم میں مشکل پیش نہ آئے۔ لیکن جذبات کا بہائو اور احساسات کے تیز جھونکے اس کی  زبان کو  فصیح و بلیغ  عربی میں کھینچ لے جاتے۔  اور میں اس کے " بھائو تائو  کو ماپتے، اس کے اشارے کنایوں اور رموز کو  پرکھتا اس کا مطلب سمجھنے کی کوشش کرتا۔
وہ  دیار عبدلوہاب کا باسی کہہ رہا تھا
" میری اس کی پہلی ملاقات  وہیں ہوئی تھی حرم مکی میں، عین کعبہ کے سامنے۔  وہ کتنی ہی دیر روتا رہا۔ اور میں اس کے پروقار چہرے کو حیرت سے تکتا رہا۔ ایسے بھی نوجوان ہوتے ہیں!! ایسے بھی مسلمان ہوتے ہیں!!
تھکاوٹ سے چور میں  کچھ دیر آنکھ لگانے کے ارادے سے لیٹا ہی   تھا، جب اس پر نظر پڑی اور آنکھ وہیں اٹک گئی تھی۔
کتنی گھڑیاں گزر گئیں، اور میں ٹک دیدم اس کا دیدار کرتا رہا۔   اس نے  ہتھیلیوں سے اپنا چہرہ صاف کیا اور اٹھ کر میری طرف مُڑا  ، میں نظریں چرانے لگا اس کے معصوم چہرے پر مسکراہٹ پھیلی  اور  مجھے سلام کر کے اپنا سامان اٹھانے  کی اجازت طلب کی۔  اس کا تھیلا میرے سر تلے دبا تھا۔
پھر وہ  بابِ فہد سے  باہر کی جانب چل دیا۔  میں سوچوں میں گم، اک عجیب کیفیت میں تھا۔ اس  کی آنکھوں سے جھلکتی کُڑھن، اس کی ھچکیاں، آنسوئوں سے تر چہرہ، اس کا لرزیدہ بدن اور اس پر طاری وجد بار بار میری نظروں کے سامنے آتا رہا۔ میرے دل میں اللہ نے اس کی محبت پیدا فرما دی۔  میں کتنی ہی دیر اس کے لئے دعا کرتا رہا۔ اور شاید زندگی میں پہلی بار مجھ گنہ گار کو  "دعا کی قبولیت" کا احساس ہوا۔   دو چار دن میں اس  کے خیال میں ڈوبا رہا اور پھر شب و روز کے بکھیڑوں میں اس کی یاد کہیں زہن  کے نہاں گوشوں میں تہہ ہو کر رہ گئی۔
عبدلوہاب رح کا پڑوسی  بولتے بولتے رُکا، جوں  دور دیکھ رہا ہو۔ پھر اچانک مجھ سے معذرت خوانہ لہجے میں کہنے لگا ۔
"یار میں اپنی رو میں بہہ رہا تھا۔ آپ کو سمجھ لگ رہی ناں"
آپ کہتے رہئے  بندے کو سمجھنے سے زیادہ سننے میں لطف محسوس ہو رہا"
میں نے اس کے احساسات کی لطافت کے بارے  خیال کرتے ہوئے کہا۔
وہ پھر گویا ہوا۔

""حسین اتفاق ایسے ہی ہوتے ہیں ! زی الحج، مطاف کعبہ میں ایک بوڑھا ایرانی جوڑا   تکبیر کا ورد   کرتے  طواف کر رہا تھا۔  انتہائی ضعیف  و نخیف بابا وہیل چئیر  پر  بیٹھا تھا اور مائی بمشکل اسے دھکیل رہی تھی۔   مجھے اچھا نہ لگا اور میں نے اشاروں سے سمجھا کر کرسی کی ہتھی اپنے حساب میں کر لی۔ شدید گرمی میں  پسینے  پھوٹ رہے تھے اور  میں تیسرے چکر میں ہی ہانپنے لگا۔  مقام ابراہیم سے زرا آگے کسی نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ اتنی بھیڑ میں یہ معمولی بات  ہوتی ہے۔ لیکن جب اس ہاتھ میں سے اپنائیت و محبت کی لہروں نے میرے دل پر دستک دی تو مجھے مُڑ کر دیکھنا پڑا۔ وہی نوجوان میرے زہن کی غلام گردشوں میں سفر کرتا میری آنکھ کے دریچوں سے جھانک رہا تھا۔  جی وہی رکن یمانی کے سامنے والے ستون کے پیچھے ھچکیاں لینے والا نوجوان۔
اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔ "اخی تھک جائو گے۔ مجھے پکڑائو، اور پھر وہ ایرانی جوڑے کو طواف کرانے لگا۔ میں بھی اس کے  ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔
اور یوں ہمقدم ہو گئے۔ حج کے تما م ایام مجھے اس کا ہمسفر بننے کی سعادت حاصل ہوئی۔  اس کا اخلاق مثالی تھا، اس کی مسکراہٹ نرالی تھی۔ اس کا  لہجہ محبت و موددت سے لبریز ہوتا اور اس کا ہر انداز انکساری والا تھا۔ وہ  ہر اس دل میں گھر کر جانے والا تھا جو اس کی رفاقت میں چند گھڑیاں گزار لیتا۔ اور میرے دل میں اس کی عزت و عظمت بڑھتی ہی چلی گئی۔  اس کی صحبت کا فیض مجھے مل رہا تھا۔ میرا دل بدل رہا تھا
( میرے زہن میں آیا
چنگے بندے دی صحبت جیویں دوکان عطاراں
سودا بھانویں مل لئے نہ لئے
چلہے آن ھزاراں)

حج کے بعد مدینہ منورہ کو ارادہ تھا، اس نے اپنے ہمراہ چلنے کی دعوت دی اور اس کی زبان میں ایسی حلاوت تھی کہ انکار ہو نہیں سکتا تھا۔ سو میں اس کے ساتھ ہی مکہ مکرمہ سے مدینہ کو چل نکلا۔
بیت عتیق سے لے کر میدان عرفات اور  منی ومزلفہ  سے غار حرا تک اس اللہ کے ولی نے میرے زہن میں انقلاب برپا کر دیا تھا۔ توحید کیا ہے، اللہ کون ہے، انسان کا  منصب کیا ہے اور فریضہ کیا،  دعوت حق کا طریق کیا اور تبلیغ دین کا   سلیقہ کیا۔ مکہ مکرمہ میں گزری نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی حیات مبارکہ کا ایک ایک لمحہ اس  مدینے کے شہزادے نے یوں بیان کیا کہ  میرے سامنے سارے منظر عیاں ہوتے چلے گئے۔
پھر وہ  مجھے لے کر  باغوں والی سرزمین کی جانب ہو لیا۔  میں اس کے پیچھے پیچھے "یہ میرا ھادی ہے"
ابو بکر رضی اللہ عنہ کفار کے پوچھنے پر  نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے متعلق فرماتے تھے۔  میرا  زہن و دل بھی  ابی بکر رضی اللہ عنہ کی سنت پر عمل پیرا تھا۔ وہ مجھے مکہ سے مدینے کو لئے جا رہا تھا اور میں ایک ٹرانس میں چل چلا چل۔
وہ   راہ کی منزلوں کا تعارف کراتے جاتا۔
اور پھر مدینہ آ گیا۔ منور و تاباں،
اور میں اس کی معیت میں اس سرزمین پاک پر  اس انداز میں گھوما کیا جوں اولیں بار ہو!
""
میں اپنے نبی کے کوچے میں
چلتا ہی گیا چلتا ہی گیا
اک خواب سے گویا اٹھا تھا
کچھ ایسی سکینت طاری تھی""
جب مسجد نبوی کو دیکھا
میں روضہء جنت میں پہنچا
جس جاء و مبارک چہرے کو
اشکوں سے اپنے دھوتا تھا
جب دنیا والے سوتے تھے
وہ ان کیلیے پھر روتا تھا
اک میں تھا کہ سب کچھ بھول گیا
اک وہ تھا کہ امت کی خاطر
کتنے صدمے اور کتنے الم
جھلتا ہی گیا جھلتا ہی گیا
میں اپنے نبی کے کوچے میں
چلتا ہی گیا چلتا ہی گیا
طائف کی وادی میں اترا
طالب کی گھاٹی سے گزار
اک شام نکل پھر طیبہ سے
میدان احد میں جا بیٹھا
واں پیارے حمزہ کا لاشہ
جب چشم تصور سے دیکھا
عبداللہ کے شہزادے کو
اس دشت میں پھر بسمل دیکھا
یہ سارے منظر دیکھ کے پھر
میں رہ نہ سکا کچھ کہہ نہ سکا
بس دکھ اور درد کے قالب میں
ڈھلتا ہی گیا ڈھلتا ہی گیا
میں اپنے نبی کے کوچے میں
چلتا ہی گیا چلتا ہی گیا
میں کیا منہ لے کر جائوں گا
کوثر کی طرف جب آئوں گا
تلوار میں میری دھار نہیں
وعظ و اصلاح سے پیار نہیں
باتوں میں میری سوز کہاں
آہیں میری دلدوز کہاں
کتنے ہی پیماں توڑ چکا
میں رب کی یادیں چھوڑ چکا
ایک ایک میرا پھر جرم مجھے
کھلتا ہی گیا کھلتا ہی گیا
میں اپنے نبی کے کوچے میں
چلتا ہی گیا چلتا ہی گیا
پھر لوٹ کے جب میں گھر آیا
اک شمع ساتھ ہی لے آیا
یہ حب سنت کی شمع
جس دن سے فروزاں کی میں نے
اس دن سے میں پروانہ بن کر
جلتا ہی گیا جلتا ہی گیا (احسن عزیز)
ہر  نماز کے بعد، ہر موقع پر میرا بھائی دعا کرتا، ایسی رقت آمیز دعا ، اسی لفط و اثر والی دعا اور ایسی خلوص و جوش والی دعا کہ دل کہتا قبول ہوئی ان شاء اللہ۔   اور پھر میں اسی کے ہمراہ طواف کے لئے مکہ کولوٹا۔
اک بار پھر  ""عرق انفعال اس کی کشادہ جبین پر چمک رہا تھا۔ آنسو موتی بن بن   ریش ، رخسار کو بھی منور کر رہے تھے۔  توبہ استغفار، آہ و فغان، ہچکیاں اور سسکیاں، اس کا بدن کانپ رہا تھا۔ وہ اپنے چہرے کو ہتھیلیوں میں چھپائے التجائیں کر رہا تھا، دعائوں کو لبوں سے   جدا کر رہا تھا۔ اس کی خوشبودار بھیگی  سیلی گیلی  سرگوشیوں میں مناجات کی چمکیلی رنگت صاف دکھتی۔ حرم پاک کے پاکیزہ، باوقار ماحول میں جہاں دل جلال الہی سے  نگوں   اور سینے  انوار سے پُر  ہوتے ہیں۔
ایک ستون کی آڑ میں کعبہ رخ دوزانو بیٹھا  بید مجنوں   سا   لرزاں تھا۔ میں اس کی دعائوں پر امین کہہ رہا تھا،  اس نے افغانستان سے صومال اور شیشان سے سوریا تک  آفیت طلب کی۔ کشمیر سے گجرات تک خیر مانگی۔ برما سے   افریقہ تک امت کی بھلائی کا سوال کیا۔  اور میں گم سم  یہ سوچتا رہا، کاش اس اللہ کے والی جیسا اک لمحہ مجھے میسر ہو جائے، اک ھچکی ایسی ہی میری بھی بندھے، اک آہ میرے لبوں سے اسی طرح کی پھوٹے، اک پھانس سینے میں ایسی ہی چھبے، اک درد رگوں میں ایسا ہی جاگے۔ میرے جگر میں بھی امت کا   ااثر کرے۔ کاش اک آنسو میری پلکوں سے ڈھلک جائے، کاش اک دعا اسی خلوص سے میرے حلق سے بھی وا ہو اور میرا بیڑا پار ہو جائے""
"مجھے بھی اس کی زیارت کرائو ناں!
میں اتنی دیر بعد بے تابانہ بولا۔
"ہمم اس کے لئے وہاں جانا پڑے گا"
اس نے  ایویں آسمان کی جناب ہاتھ اٹھا دیا۔
"کہاں" میرا دھیان کہیں اور تھا۔
"جنتوں میں"
او ، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ کب؟
میں نے   دل کی گہرائی میں درد کی ٹیس محسوس کی۔
" کچھ  ہفتے قبل وہ ر ب رحمان سے کیا وعدہ نبھا گیا"
وہ مسکرایا۔ " ایسی جدائی کے درد میں بندہ رو بھی نہیں سکتا کہ  انعامِ شہادت کی ناقدری ہوتی"
  
کوئی شب گزیدہ مرغ  نور تڑکے کے آثار قریب دیکھ کر بانگ دینے لگا  اور میں  اس نجد زادے کی عین الیقین سے پُر نظروں میں سحر زدگی سے دیکھے جا رہا تھا۔
ستاروں کی تنک تابی  نوید صبح روشن کی نوید سنا ر ہی تھی۔     ہم نے اٹھ کر قریبی کھال میں وضو کیا ۔  تہجد پڑھی اور میں نے اسے عرض کیا۔ بھیا! دعا مانگو۔ وہ دعا کرنے لگا۔  سسکیاں نکلیں۔ پھر  اس کی ھچکیاں بند گئیں۔ آہیں بلند ہونے لگیں۔ سینہ دھونکنی کے جیسے چلنے لگا آواز میں سوز اور درد تھا  اس نے سب مانگ لیا  ،اس سے اسی کو، پھر  خاموشی چھا گئی۔ طویل خاموشی۔   اور میں تہی دامن   کہ وہن زدہ ،  میرا جی جلنے لگا۔ میں چپ چاپ  سوچے جا رہا تھا
"کاش اک لمحہ اس جیسا مجھے بھی عطا ہو جائے۔ اے کاش ایسا درد میرے دل میں بھی اٹھے، ایسی ٹیس میری روح میں بھی پیدا ہو، ایسا سوز مجھے بھی ملے، ایسا   اک آنسو میرے رخسار کو بھی چومے، ایسی اک ہچکی میری بھی بندھے، ایسی تڑپ مجھے بھی ملے۔ ایسی ہی پھانس میرے سینے میں اٹکے۔  اے کاش کہ وہ دعا میں میرا نام لے کر کہہ دے۔
تہِ شمشیر یہی سوچ ہے مقتل میں مجھے
دیکھیے اب کسے لاتی ہے قضا میرے بعد




4 comments:

  1. "کوئی شب گزیدہ مرغ نور تڑکے کے آثار قریب دیکھ کر بانگ دینے لگا اور میں اس نجد زادے کی عین الیقین سے پُر نظروں میں سحر زدگی سے دیکھے جا رہا تھا۔"
    اللہ اکبر۔

    جزاک اللہ عمران بھائی۔ واقعی کوئی پرسرور لمحہ ہوتا ہوگا وہ بھی۔

    ReplyDelete
  2. السلام علیکم
    بہت ہی پر اثر تحریر ہے. جزاک اللہ خیر اسلم بھائ. اللہ ہمارے دلوں اور زبان میں بھی ایسا ہی خشوع و خضوع پیدا کرے آمین. اللہ کے کیسے کیسے نیک بندے بھرے پڑے ہیں اس دنیا میں اور ایک ہم ہیں پھسڈی اور ایمان و ایقان میں حد درجہ کمزور. اللہ ہی ہے جو اپنے کرم سے ہمیں اونچا اٹھا دے.
    لبنی سید

    ReplyDelete
  3. اللھم امین
    لبنی آپا بلاگ پر خوش آمدید

    ReplyDelete

Flickr