Tuesday, February 19, 2013

میڈیا اور مذہبی منافرت


پاکستان میں جاری   انسان کُشی، مسلمان کُشی جہاں قابل مذمت ہے وہاں حساس دلوں کے لئے باعث رنج بھی ہے اور باعث تشویش بھی ۔ کوئی بھی صاحب  عقل، زی شعور شخص اس کی حمایت نہیں کر سکتا۔ کسی شخص، گروہ یا فرقے کو فقط اس لئے ٹارگٹ کرنا  انتہائی بیہمانہ فعل ہے۔ لیکن کیا صرف مذمت، احتجاج، شور شرابے، پِٹ سیاپے، رولے رپے، اور بیان بازیوں سے یہ مسئلہ حل ہونے کو ہے؟ اس کا جواب نفی میں ہے کیوں کہ ہم لوگ وجوہات کے متعلق کبھی سنجیدگی سے غور ہی  نہیں کرتے۔ کتے کو چھوڑ کر کان کے پیچھے بھاگنے سے کیا حاصل۔ امریکی جنگ میں ہر اول دستہ بننے کے ثمرات سیمٹتے ہوئے  ہمیں کسی طور کراہنا  نہیں چاہیے۔
دہشت گردی کے واقعات کے ڈھانڈے مذہبی منافرت سے ملانا کوئی مشکل بات نہیں لیکن کیا ہم میں سے کوئی اس بات پر غور کرنا چاہے گا کہ اس کے پیچھے سالوں کی معاشی، معاشرتی، سماجی ناہمواریوں اور ناانصافیوں کا وجود بھی ہے۔ اس کے پیچھے  بین الاقوامی کھلاڑی بھی ہیں، مقامی رکھیلیں بھی اور بے وقوف، پرپگینڈے   کا شکار عوام بھی۔
اور اس کے پیچھے ہمارا مین اسٹریم میڈیا بھی ہے۔ وہی میڈیا جو ہمیں  دن رات مذہبی ہم آہنگی کا درس دیتے نہیں تھکتا۔ وہ اخبارات و رسائل جو صبح شام  بین المسلکی محبت کے پرچارک کا ڈھونگ کرتے ہوئے اکتاتا نہیں۔ بین السطور ، ڈھکے چھپے طریقے سے نفرت، دشمنی، غصہ، اور احساس کمتری کا ٹیکا بھی لگاتا جاتا ہے۔ یہ الگ بات کہ ٹیکے کی سوئیاں اتنی باریک  کہ ہمیں محسوس نہیں ہوتا اور زہر ہماری رگوں میں اتر چکا ہوتا ہے۔

  بی بی سی کو ہی لی جئے ۔آزاد ، بے باک، لبرل صحافت کا علمبردار، سچائی کا ٹھیکدار اور غیرجانبداری کا دعوی دار۔
لیکن افسوس صد افسوس جب ایسے بین القوامی صحافتی ادارے کی طرف سے غیر محسوس طریقے پر نفرتوں کو بڑھاوا دینے کی کوششیں ہو رہی ہوں تو پھر یہ کہنے میں کیا مضائقہ کہ پاکستان میں غیرملکی ، استعماری، ایجنٹ اپنا خنجر آستیوں میں رکھے ان ہی زرائع کو استعمال کرتے ہوئے ہماری پشت میں گھونپنے کی کوشش کرتے ہیں۔

  لاہور میں ایک ڈاکٹر اور اس کا بیٹا قتل ہوتا ہے۔ اور خبر بنتی ہےشعیہ قتل۔  کراچی میں دس افراد مارے جاتے ہیں نہ مسلک بتایا جاتا ہے نہ فرمایا جاتا ہے کہ فرقہ وارانہ بنیادوں پر کوئی "سُنی" قتل ہوا ہے۔
 کیا بی بی سی مذہبی منافرت پھیلانے میں پیش پیش ہے؟
 کیا  مقتول کا مسلک بتلانا ضروری ہوتا ہے۔ اور اگر ضروری ہوتا ہے تو "سنی" اس  نمائش و فہمائش سے محروم کیوں ہیں۔ پھر بی بی سی والوں کو صبح قتل ہونے والے کے بارے   شام تک کیسے معلوم پڑ گیا کہ مقتول ڈاکٹر اور ان کا صاحبزادہ ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہوئے ہیں؟
زاتی دشمنی، ڈکیتی کی واردات، خاندانی جھگڑے کیا صرف "سنی" کے لئے ہی رہ گئے ہیں۔ اور اہل تشیع کا ہر مرنے والا کیا "ٹارگٹ کلنگ" کا شکار ہے۔
زرا سوچئے!



2 comments:

  1. جناب کیا کہا جائے ، المیہ ہی المیہ ہے ہر جانب یوں لگ رہا ہے ملک کسی خاص گروہ کے لئے ہے

    ReplyDelete
  2. ہم نے سوچنے کا ٹھیکہ غیروں کو دے رکھا ہے

    ReplyDelete

Flickr