Wednesday, February 6, 2013

رند بلا نوش کی توبہ (دوسرا حصہ)



حضرت شاہ ابرار صاحب (خلیفہ حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی )کے ایک خلیفہ حضرت مولانا حکیم محمد اختر صاحب نے اپنے ایک بیان میں جو کچھ ارشاد فرمایا ہے ، ملاحظہ ہو
 :
’’یہاں ایک بات یاد آئی ۔ جب اللہ تعالیٰ ہدایت کا دروازہ کھولتاہے تو جگرؔ جیسا شرابی توبہ کرتاہے ۔ میر صاحب جو میرے رفیق سفر جوہیں، انہوں نے جگر کو دیکھا ہے ،اتنا پیتاتھاکہ دوآدمی اٹھاکر اس کو مشاعرہ میں لے جاتے تھے مگر ظالم کی آواز ایسی غضب کی تھی کہ مشاعرہ ہاتھ میں لیتا تھا لیکن جب ہدایت کا وقت آگیا تو دل میں اختلاج شروع ہوا ۔ گھبراہٹ شروع ہوئی کہ اللہ کو کیا منہ دکھائوں گا۔ جب ہدایت کا وقت آیا تو دل کو پتہ چل گیا کہ کوئی ہمیں یاد کررہاہے   ؎
محبت دونوں عالم میں یہی جاکر پکار آئی
جسے خود یار نے چاہا اسی کویادِ یار آئی
حضرت نبانی رحمتہ اللہ علیہ تابعی ہیں، فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ کو یاد فرماتے ہیں تو مجھ کو پتہ چل جاتاہے کہ اللہ مجھے یاد فرمارہے ہیں ۔ خادم نے پوچھا کہ اس کی کیا دلیل ہے ؟ فرمایا کہ دلیل قرآن پاک کی ہے : ’’تم مجھ کو یاد کرو میں تم کو یاد کروں گا ‘‘۔
بہرحال جب جگرؔ صاحب کو اللہ تعالیٰ جذب فرمایا تو اس کے آثار ظاہر ہونے لگے   ؎
سُن لے اے دوست !جب ایام بھلے آتے ہیں
گھات ملنے کی وہ خود آپ ہی بتلاتے ہیں
غرض اب جگر ؔصاحب کی ہدایت کا آغاز ہوتاہے ۔ آغازِ ہدایت اس شعر سے ملا   ؎
اب ہے روز حساب کا دھڑکا
پینے کو تو بے حساب پی لی
یعنی اب دل دھڑ ک رہاہے کہ قیامت کے دن اللہ کو کیا جواب دوںگا جب وہ پوچھے گا کہ ظالم میں نے شراب کوحرام کیا تھا اور تو اس قدر پیتا تھا،تجھے شرم نہ آئی ،خیال نہ ہواکہ مجھے قیامت کے دن پیش ہوناہے ۔پس فوراً خواجہ عزیز الحسن صاحب مجذوب (خلیفہ حضرت اشرف علی تھانویؒ ، اور شاعر ان کا مجموعہ کلام  "کشکول مجذوب" کے نام سے موجود ہے ) سے مشورہ لیاکہ خواجہ آپ کیسے اللہ والے ہوگئے ؟ کس کی محبت نے آپ کو متبعِ سنت بنایا ؟آپ تو ڈپٹی کلکٹر ہیں ۔ ڈپٹی کلکٹر اور گول ٹوپی اور لمبا کُرتا اور عربی پاجامہ اور ہاتھ میں تسبیح !! میں نے دنیا میں کہیں ایسا ڈپٹی کلکٹر نہیں دیکھاہے ۔یہ آپ کی ’’ٹر‘‘ کس نے نکال دی اے مسٹر؟فرمایا تھا نہ بھون میں حکیم الامت نے یہ ٹر نکالی مسٹر کی ٹرکو مس کردیا ۔ تو کہا کہ مجھ جیسا شرابی بھی تھانہ بھون جاسکتاہے ،شرط یہ ہے کہ میں وہاں بھی پیوں گا کیونکہ اس کے بغیر میرا گذارہ نہیں ۔خواجہ صاحب تھانہ بھون پہنچے اور کہاکہ جگرؔ صاحب اپنی اصلاح کے لئے آنا چاہتے ہیں لیکن کہتے ہیں کہ میں خانقاہ میں بھی بغیر پئے نہیں رہ سکتا ۔ اور جگر کا لکھا ہوا رقعہ جس پر صرف ایک شعر موجود تھا ۔ مولانا اشرف علی تھانوی کی خدمت میں پیش کر دیا۔

بہ سرِ تو ساقی مستِ من آید سرورِ بے طلبی خوشم
اگرم شراب نمی دھدبہ خمارِتشنہ لبی خوشم
(’’اے میرے مدہوش ساقی! تیرے دل میں یہ بات ہے کہ میں تجھ سے کچھ نہ مانگوں۔ ٹھیک ہے اگر تو مجھے شراب نہیں دیتا تو میں اِسی تشنہ لبی کے خمار میں ہی خوش ہوں۔‘‘)
جگر
مولانا خود بھی فارسی شاعری کا درک رکھتے تھے
چنانچہ انھوں نے جگر کے خط کو پڑھا تو ان کی مراد سمجھ گئے۔ اس کے بعد انھوں نے کاغذ کے دوسری جانب مندرجہ ذیل شعر لکھ کر جگر کو واپس بھجوا دیا۔
نہ بہ نثرِ نا تو بے بدل، نہ بہ نظم شاعر خوش غزل
بہ غلامی شہہ عزوجل و بہ عاشقی نبیؐ خوشم
(’’اے جگر تیرا تو یہ حال ہے لیکن میرا یہ حال ہے کہ نہ میرا کسی عظیم ادیب کی تحریر میں دل لگتا ہے اور نہ ہی مجھے کسی بڑے شاعر کی شاعری خوش کرتی ہے۔ بلکہ میں تو اللہ تعالیٰ کی بندگی میں اور اپنے پیارے نبی  کی غلامی میں ہی خوش رہتا ہوں۔‘‘)
مولانا تھانوی نے مسکرا کر کہا کہ جگرؔ صاحب سے میرا سلام کہنا اور یہ کہنا کہ اشرف علی ان کو اپنے مکان میں ٹھہرائے گا ،خانقاہ تو ایک قومی ادارہ ہے ،اس میں تو ہم اجازت دینے سے مجبور ہیں لیکن ان کو میں اپنا مہمان بنائوں گا ۔رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مکان میں جب کافر کو بھی مہمان بناتے تھے تو اشرف علی ایک گنہگار مسلمان کو کیوں مہمان نہ بنائے گا جو اپنے علاج اور اصلاح کے لئے آرہاہے؟جگرؔ صاحب نے جب یہ سنا تو رونے لگے اور کہاکہ آہ !ہم تو سمجھتے تھے کہ اللہ والے گنہگاروں سے نفرت کرتے ہوں گے لیکن آج پتہ چلا کہ ان کا قلب کتنا وسیع ہوتاہے۔
بس تھانہ بھون پہنچ گئے اور عرض کیا کہ حضرت اپنے ہاتھ پر توبہ کرادیجئے اور چار باتوں کے لئے دعا کیجئے ۔ سب سے پہلے تو یہ کہ میں شراب چھوڑ دوں ، پرانی عادت ہے   ع
چھٹتی نہیں منہ سے یہ کافر لگی ہوئی
اللہ تعالیٰ کے کرم سے اب مے نوشی چھوڑنے کا ارادہ کرلیااور دوسری درخواست دعا یہ کہ مجھ کو حج نصیب ہوجائے ۔ تیسری درخواست کہ میں داڑھی رکھ لوں او رچوتھی درخواست کہ میرا خاتمہ ایمان پر ہو۔ حضرت نے دعاء فرمائی ۔ اور صاحبان مجلس نے امین کہا۔
بعد ازاں مولانا تھانوی نے جگر سے کچھ سنانے کی فرمائش کی۔ جگر نے محفل میں نہایت سوزوگداز سے اپنی یہ غزل سنائی۔
کسی صورت نمودِسوزِ پنہانی نہیں جاتی
بجھا جاتا ہے دل چہرے کی تابانی نہیں جاتی
صداقت ہو تو دل سینوں سے کھینچنے لگتے ہیں واعظ
حقیقت خود کو منوا لیتی ہے، مانی نہیں جاتی
چلے جاتے ہیں بڑھ بڑھ کر مِٹے جاتے ہیں گر گر کر
حضور شمعِ پروانوں کی نادانی نہیں جاتی
وہ یوں دل سے گزرتے ہیں کہ آہٹ تک نہیں ہوتی
وہ یوں آواز دیتے ہیں کہ پہچانی نہیں جاتی
محبت میں ایک ایسا وقت بھی دل پر گزرتا ہے
کہ آنسو خشک ہوجاتے ہیں طغیانی نہیں جاتی
جگر وہ بھی سرتاپا محبت ہی محبت ہیں
مگر اِن کی محبت صاف پہچانی نہیں جاتی

جگرؔ صاحب تھانہ بھون سے واپس آئے تو شراب چھوڑ دی ،توبہ کرلی شراب چھوڑنے سے بیمار ہوگئے ۔ ڈاکٹروں کے بورڈ نے معائنہ کیا اور کہاکہ جگر ؔصاحب آپ کی موت سے ہم بے کیف ہو جائیں گے آپ قوم کی امانت ہیں تو تھوڑی سی پی لیجئے تاکہ آپ زندہ تو رہیں ۔ جگرؔ صاحب نے کہاکہ اگر میں تھوڑی تھوڑی پیتا رہوں گا تو کب تک جیتا رہوں گا ۔ ڈاکٹروں نے کہاکہ پانچ دس سال اور چل جائیں گے ۔فرمایا کہ دس سال کے بعد اگر میں شراب پیتے ہوئے اس گناہِ کبیرہ کی حالت میں مروں گا تو اللہ کے غضب او رقہر کے سائے میں مروں گا اور اگر ابھی مرتا ہوں جیسا کہ آپ لوگ مجھے ڈرا رہے ہیں کہ نہ پینے سے تم مرجائو گے تو میں اس موت کو پیار کرتاہوں ۔ ایسی موت کو میں عزیز رکھتاہوں کیونکہ اگر جگر ؔکو شراب چھوڑنے سے موت آئی تو اللہ تعالیٰ کی رحمت کے سائے میں جائوں گا کیونکہ یہ موت خدا کی راہ میں ہوگی کہ میرے بندہ نے ایک گناہ چھوڑ دیا ۔ اس غم میں یہ مراہے میری نافرمانی چھوڑنے کے غم میں اسے موت آئی ہے ،میرے قہروغضب کے اعمال چھوڑنے میں میرے بندہ نے جان دی ہے، یہ شہادت کی موت ہے ۔
غرض جگر ؔصاحب نے شراب چھوڑ دی اور جب حج کو جانے لگے تو داڑھی پوری ایک مشت رکھی ۔ سوچاکہ اللہ کو کیا منہ دکھائوں گا اور روضہ مبارک پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کیا منہ لے کر جائوں گا ۔
غالباً اسی زمانے کی بات ہے کہ ایک مرتبہ تانگے میں سوار ہو کر کہیں جا رہے تھے۔ تانگے والا باربار نہایت ترنم سے یہ شعر پڑھ رہا تھا:
چلو دیکھ کر آئیں تماشا جگر کا
سنا ہے وہ کافر مسلماں ہوگیا
تھوڑی دیر بعد تانگے والے نے پچھلی نشست سے ہچکیوں کی آواز سنی۔ پیچھے مڑ کر دیکھا تو ایک مولوی صاحب رو رہے تھے۔ تحقیق پر معلوم ہوا کہ یہی جگرمرادآبادی ہیں۔
حج کے متعلق دعا  بھی قبول ہوئی۔ ۱۹۵۳ء میں جگر کو حج بیت اللہ کی سعادت نصیب ہوگئی۔ حج کے ایام میں ایک اتفاقی حادثے کے سبب جگر کو مدینہ منورہ میں زیادہ دنوں تک قیام کا موقع بھی مل گیا۔ حج کے بعد جگر صاحب اکثر بے تکلف احباب میں فرمایا کرتے تھے۔ ’’میں نے 4 دعائیں کروائی تھیں۔ تین تو میری زندگی میں ہی پوری ہوگئیں اور چوتھی دعا (کہ خدا میری مغفرت کرد ے) بھی اِن شاء اﷲ قبول ہوگی۔‘‘ جگرصاحب کا اصل میدان غزل تھا۔ اسی میدان کے شاہ سوار تھے لیکن شاید بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ جگر نے کچھ نعتیں بھی کہیں۔ شراب نوشی کے بعد جگر نے جو پہلی نعت کہی وہ مکمل نعت اور واقعہ پہلے عرض ہو چکا ہے۔، اس کا مطلع یہ ہے
اِک رند ہے اور مدحتِ سلطانِ مدینہؐ
ہاں اِک نظرِ رحمت سلطانِ مدینہؐ
بشکریہ اردو ڈائیجسٹ، روزنامہ کشمیر عظمی

4 comments:

  1. اگر جمیل نوری نستعلیق فانٹ میں ہوتو پڑھنے کا ذیادہ مزہ آئے۔ بلاگ کی سیٹنگ کے لیے بلاگ تھیم اپ لوڈ کرسکتے ہیں۔
    بحرحال اعلی تحریر شئیر کی ہے ۔ جزاک اللہ

    ReplyDelete
  2. جزاک اللہ صاحب۔

    تحریر کا فانٹ تبدیل کر دیں

    ReplyDelete
  3. بہت زبردست تحریر ہے ۔شیئر کرنے کاشکریہ

    ReplyDelete

Flickr