Thursday, December 5, 2013

بکروالی آتی ہے؟

یاد آیا رفحا (عراقی سرحد کے ساتھ سعودیہ کا ایک شہر)  میں ایک لڑکا نیا آیا پاکستان سے، اس کا چاچا ساتھ لایا تعارف کو۔  اقامہ بننے میں دیر تھی میرے پاس آ جاتا ھٹی پر گپ شپ کو، یہ نیت بھی رہتی کہ کچھ یہاں کے ماحول کا علم ہو جائے گا، زبان کا ٹانکا درست ہو گا۔  کچھ دن آیا اور پھر غائب، بہت دنوں بعد دوبارہ شکل دِکھی تو پوچھا! بھیا کدھر گم تھے۔ کہنے لگا اپنے جاننے والوں میں سے کچھ رنگسازی کا کام کرتے ہیں وہ ساتھ لے جاتے تھے کام پر کہ کچھ خرچہ پانی بنا لو اپنا۔ پھر! کیا ہوا۔ ہونا کیا تھا۔ سارا دن  دیواریں کھرچ کھرچ ہاتھ چنڈیا گئے، کمر دوہری ہوئی جاتی اور باتیں الگ۔ پھر بھی جی کڑا کر ہفتہ دس دن نکال لئے کہ بیکار سے بیگار بھلی، لیکن کل حد ہی ہو گئی۔  وہ اکتایا ہوا لگ رہا تھا۔
کیا ہوا؟ میں نے اشٹوری میں حصہ ڈالا۔ دیوار رگڑتے ہوئے کچھ رنگ باقی رہ گیا تو ایک بولا "  اوئے  دیکھو کمپوٹر انجینیر، سولہ سال کیا پڑھا ، تمہیں کسی نے ریتی مارنی نہیں سکھائی"

اور مامے کا قصہ!
ماما پانچویں  کا  امتحان دے کر فارغ تھا جب اک دن فوجے کے ساتھ بکریاں چرانے "ٹاکے" گیا۔ سارے محلے کی مل ملا کر پچیس تیس بکریاں اور دو  بکروال۔ فوجا آوازیں لگا لگا بکریوں کو ھنکا رہا تھا۔ جب کہ مامے کی طرف سے  کوئی نہ کوئی بکری جُل دے کر کبھی ادھر کو نکلے کبھی اُدھر کو بھاگ جائے۔
فوجا تنک کر بولا!
"پنجویں ناں امتیان دتا ای سہ تے بکریاں موڑنیاں اجے کوئی نو آئیاں۔ سکول ماسٹر کے پڑھانے نی"

پانچویں کا امتحان دے رکھا اور بکریاں چرانا نہیں آیا۔ اسکول ماسٹر کیا سکھاتے ہیں"

Saturday, October 12, 2013

وڈا آپریشن


ڈاکٹر زبیدی   پیدائشی طبیب ہے۔    علاقے کا ہر مریض  تکلیف میں مبتلا ہو کر پکار اٹھتا ہے "چھیتی آویں وے طبیبا چھیتی گولیں وے طبیبا نیئں تا میں مر گیئاں ایں"۔ بلکہ اہلیان علاقہ ہر مصیبت، پریشانی، تنگی، میں اسے آواز دیتے  ہیں۔ کہہ لی جئے زبیدی  سات کوس   دائیں بائیں  والے  گائوں کا پیر و مرشد بھی ہے۔  
کہانی شروع ہوتی ہے زبیدی کی پیدائش سے بھی پہلے جب اس کا دادا انگریزوں کی فوج میں  خچر ٹہلایا ،نہلایا ،سہلایا کرتا تھا۔  لکڑی والی  کاٹھیاں  اور لوہے کے سُموں کی دیکھ بھال کرتا۔  وہاں اس کی یاری   گورے  وٹرنری  ڈاکٹروں سے ہوئی اور انہی سے اس نے ٹیکا لگانا بھی سیکھ لیا  ڈنگروں کو۔  پھر جب وہ    رٹیرڈ ہو کر گائوں کو لوٹا تو گائیوں، بھینسوں کو "نواں" کرنے کا کام بھی  شرع کر دیا۔ بکریوں کو چھٹا بٹھانے کو ایک تگڑا بکرا بھی رکھ چھوڑا۔ کام اچھا چل نکلا،  پینشن کا روپیہ، زمینوں کی آمدن اور ساتھ میں ڈنگڑ ڈاکٹری پانچوں گھی میں  اور چوہری طیفے کی بھلے بھلے۔ زبیدی کا ابا اپنے ابے  کا بڑا لاڈلا  تھا، جب زرا سیانا ہوا تو گائوں کےاکلوتے ٹیشن پر سیکل پنکچر کی دوکان کھول کر بیٹھ گیا۔  قسمت کا دھنی تھا،   سیکل چھوڑ ،آنے جانے والی گڈیاں بھی ٹیروں کا پنکچر لگوانے پہنچ جاتی۔وہ   ھوا بھرنے کے ساتھ بونٹ پر کپڑا بھی مار دیتا دائی غفوراں کی بیٹی  صفوراں جو خود بھی  قابلہ  تھی  ،سے آنکھ مٹکا ہوا اور  پھر ویاہ بھی۔  چار سال گود سونی رہی، پانچویں برس  درباروں مزاروں  پر منتوں مرادوں نے رنگ دکھایا  اور پیروں فقیروں کی محنت  پھل لائی ان کی گود میں ننھا زبیدی آ گیا۔    زبیدی کو ڈنگر ڈاکٹری، دائیانہ صفات  اور  سیکل پنکچری ورثے میں ملی تھیں۔ لوگوں کا ماننا تھا اسے فقیروں کی دعا بھی ہے۔   بچہ زہین تھا، پڑھنے میں تیز، آٹھیوں جماعت کے بعداعلی تعلیم کے لئے  مامے کے پاس اندرون سندھ بھجوا دیا گیا۔ پانچ سال بعد وہاں سے لوٹا تو ایک عدد لیڈی ڈاکٹر بیوی  ہمراہ تھی جو اسے بھی ڈاکٹر زبیدی کہہ کر مخآطب کرتی۔  پورےعلاقے میں مشہور ہو گیا کہ  صفوراں کا پُتر ڈاکٹر بن کر آیا ہے، ساتھ میں  ڈاکٹرنی بھی لایا ہے۔ زبیدی نے ابے کی سیکلوں والی ہٹی کا منہ متھا سیدھا کر وہاں کلینک کھول لیا۔ پورے علاقے کا اکلوتا کوالیفائیڈ ڈاکٹر۔ شروع شروع میں سختی  جھیلنی پڑی۔    غریبوں کا علاقہ محنت زیادہ آمدنی کم۔  آدھی آدھی رات مریض دیکھنے  پانچ پانچ میل دور پیدل  جانا  پڑتا۔  کبھی کبھار تو  خرشہ پانی چلانے کو گائے بھینس کا چیک بھی کر لیتے، کمھاروں کی کھوتیوں  کو   ڈوے کی بیماری ہوئی پشاوری چائے کی سہرپ بنا بنا کر پلائی۔ اچھی آمدنی ہو گئی  اور کھوتیوں کو آرام بھی آ گیا۔ ڈاکٹرنی بھی خواری جھیلتی ، خاص کر زچہ کیس میں۔ تیل چپڑ چپڑ مالش کرنی پڑتی۔     پھر کمائی  بھی چمکی اور عزت بھی  ۔ جو صحت یاب ہو جاتا وہ دل و جان سے واری جاتا اور جس کی جان جانی ہے اس کو بچانے والا کون! اہلیان علاقہ جوڑے کی میٹھی باتوں سے زیادہ متاثر ہوتے۔   پیسے اکٹھے ہوئے تو  کلینک کو بڑا کیا، دو چار کمروں کا اضافہ کیا۔ شہر سے ایک آدھ نرس منگوائی گئی۔ فرنیچر بدلا گیا۔ کام بڑھتا گیا، لوگوں کا اعتماد بھی۔  اور پیسے کی ھوس بھی۔  جوڑے کو لگا، اس رفتار سے تو بوڑھے ہو جائیں گے اور ککھ جوڑ نہ پائیں گے۔    آخر دماغ میں پیسے جوڑنے کی ترکیب پک ہی گئی۔ 
وڈا آپریشن۔ زچہ کا کوئی کیس بھی آئے۔  اس کی تکلیف کا حل وڈا آپریشن ہے۔  نویں نکور  "کاکیوں " نے تو  اسے  فیشن کے طور پر بہت پسند کیا۔  اور درد ، تکلیف سے بچائو     بھی جانا۔ تیس ھزار میں بغیر تکلیف بچہ گود میں۔ چاہے تین مہینے باقی ہوں۔   اور مریضہ سر درد کی شکایت لے کر آئی ہو ،ڈاکٹر زبیدی کے ہسپتال میں آپریشن کے لئے دیر نہیں لگتی۔   ہر درد کا ایک ہی علاج ہوتا ہے وڈا آپریشن، مائی فقیراں کے گوٖڈوں میں درد تھا،   چیرا پیٹ کو لگا۔ نُصرت کی دائیں ٹانگ میں سوزش ہوئی، ناف کے قریب سے کاٹا گیا۔  اور  تو اور حاجی  دِتے  کی کمر میں جب چُک نکلی تو ڈاکٹر نے ایکسرے   لئے، بیس منٹ  الٹ پلٹ کر غور سے دیکھتا رہا اور پھر تشویش ناک لہجے میں بولا،  حاجی ساب آپ کا وڈا آپریشن کرنا پڑے گا۔   حاجی ساب نے واویلا کیا  "میں دیسی بوٹیاں استعمال کر لوں گا" تو ڈاکٹر ڈاکٹرنی نے علاقے میں مشہور کرا دیا،  حاجی دتہ طالبان کے ساتھ مل گیا ہے۔

Saturday, September 28, 2013

امن کی آشا بھو


دو سہیلیوں کی مدتوں بعد ملاقات ہوئی۔ حال احوال پوچھا اور بیٹھ کر دکھ درد بانٹنے لگیں۔ ایک نے پوچھا
چنو! بتا دوسرا میاں کیسا ہے۔
دوسرا میاں! چنو نے حیرت سے جوابی سوال داغا۔
ھاں تیری اپنے پہلے خاوند سے ان بن ہوگئی تھی، طلاق کا کیس چل رہا تھا ناں۔
چنو نے تاسف سے جواب دیا۔
نہیں طلاق نہیں ہو سکی، لیکن بیس سال سے میں ماں باپ کے گھر ہی ہوں
اچھا! پھر یہ  چھ بچے کیسے ہو گئے۔
سہیلی نے حیرانی سے پوچھا۔
چنو شرماتے ہوئے بولی۔
"وہ  کبھی کبھار منانے بھی آ جاتے تھے"

درج بالا لطیفے کا درج زیل بیان سے کوئی تعلق بنا تو مجھے بھی بتائیے

کامران خان ساب فرما رہے "تمام معاملات کو ایک طرف رکھیے اور تجارت آگے بڑھائیے"

جیو والے "مال" کی لسٹ بھی بتائیں جو بھجوایا جا سکتا اور منگوایا جا سکتا۔


Friday, July 12, 2013

یا ابن تاشفین

اس بوڑھے کی نیند اڑی ہوئی تھی۔ روح کی بے چینی آنکھوں سے عیاں تھی۔ دل کا کرب ماتھے کی سلوٹوں سے کوند رہا تھا۔ جب سے اسے خبر ہوئی  تھی کہ ظالم الفانسو نے اس کے کلمہ گو بھائیوں کی بستیاں اجاڑ دی ہیں۔ مائوں  کی چادر یں، بہنوں کی ردائیں اور بیٹیوں کےآنچل محفوظ نہیں۔ بزرگوں کی پگڑیاں اچھل رہی ہیں اور نوجوانوں کو زبح کیا جا رہا اس کا چین آرام سب اتھل پتھل تھا۔
جس عمر میں قوی مضمحل ہوتے ہیں۔ عمر بھر کی تھکاوٹ چہرے کی جھریوں سے عیاں ہو رہی ہوتی ہے۔ گھوڑے کی پیٹھ کی بجائے نرم بستر کی گرمائش دل کو بھاتی ہے۔ وہ اپنے روحانی جد ابن  زیاد کی پیروی میں  ٹھنڈے ٹھار موسم کا سامنا کرنے سمندر پار جا پہنچا۔
وہی جبل الطارق جہاں چار صدیاں قبل  مٹھی بھر جانبازوں نے موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر  کشتیاں جلائی تھیں اور تاریخ عالم کو ورطہ حیرت میں گم کیا تھا۔ وہی اندلس جس کے مرغزار اور حسین وادیاں چار سو سال سے مسلمان مجاہدین کے گھوڑوں کی ٹاپوں سے  بہت مانوس رہے تھے ۔   لیکن اب انگور کے  خوشوں کی لذت، اندلس کے ٹھنڈے میٹھے چشموں کے پانیوں کا لطف، لانبی گھنیری زلفوں کی چھائوں اور مرغزاروں  میں جھلنے والی باد نسیم نے طارق بن زیاد کے روحانی جانشینوں کو خوابیدہ کر دیا تھا۔
شیرازہ خلافت بکھر چکا تھا۔ سلطنت اندلسیہ زوال پذیر  اور   مسلم علاقے عیسائی حکمرانوں کے باج گزار بن کر رہ گئے تھے۔ بٹی ہوئی مسلم ریاستیں الفانسو کے لئے تر نوالہ ثابت ہو رہی تھی۔ اک ایک کر کے عیسائی فرمانروا ،  اسلامیوں کے علاقے ہڑپتا جا تا۔ اور مسلمان حکمران اپنے آپ میں مگن۔ مرد کوہستانی کی نایابی پر قدرت نے بندہ صحرائی کو چنا۔قشتالہ کا الفانسو  ایک لاکھ بیس ہزار کا ٹدی دل لشکر لے کر  مسلمانوں کی حکومت کو نیست و نابود کرنے کے ارادے سے نکلا۔ ۔   ادھر چھہتر سالہ شیر اپنے بیس ہزار لشکریوں کی ہمراہی میں محاز کی جانب لپکا۔   آسمان کتنی بار امتحان لے چکا۔ اللہ کے شہروں کو کبھی روباہی نہیں آئی۔ ایک سات پر بھی بھاری رہا۔ اب کی بار بھی عرصہ امتحان کا تھا۔ ایک کے مدمقابل چھ۔ 
باداجوز کے مقام پر میدان سجا ہوا تھا ۔ الفانسو  کو  ابن تاشفین کا پیغام بھجوایا جا چکا تھا۔  اللہ کی بندگی میں آ جائو۔ جزیہ دو یا  پھر  فیصلہ میدان میں ہو گا۔الفانسو تو اس سے قبل  ہی اپنا  سندیسہ بھجوا چکا تھا۔ جب اس نے تکبر اور نخوت کی سیاہی میں قلم ڈبو کر خط لکھوایا تھا۔ " میرا مقابلہ تم کیسے کر سکتے ہو۔ خود خدا بھی فرشتوں کو لے کر زمین پر اترے تو مجھ سے شکست کھا جائے"۔ اور جوابا  مسلم  سپہ سالار نے خط کے پیچھے فقط اتنا لکھنا گوارا کیا۔ میدان سجائو۔ جو زندہ رہا دیکھ لے گا۔"
سو الفانسو نے حملہ کر دیا۔
آفتاب  بادلوں کی اوٹ سے تلواروں کی چمک اور جند اللہ کے جانبازوں کے چہروں کی دمک دیکھ رہا تھا۔  حزب الشیطان کی قوت کا کوئی تول نہ تھا۔ لیکن اللہ کے شیر اپنے جذبوں کو کندن بنائے، اپنے رب سے اجر عظیم کی امید میں حوصلے جواں کئے مقابلے میں آ گئے۔ اسلامیوں کا لشکر دو حصوں میں تقسیم تھا۔  الفانسو کا سامنا پہلے گروہ سے ہوا ۔ عباد ثالث المعتمد کی قیادت میں اندلسی فوجوں نے اپنے جوہر دکھانے شروع کئے۔  مسلمان مجاہد ایک ایک کر کے کٹ رہے تھے۔ مخملیں گھاس سے مزین زمین لہو سے تر ہوئی جا تی۔ گھوڑوں کی ہنہناہٹ، تلواروں کی جھنکار اور جنگی نعروں سے سرد موسم میں بھی ماحول آتشیں تھا۔  پھر مسلمانوں کے قدم پیچھے ہٹنے شروع ہوئے۔ لشکر اسلام میں سراسیمگی پھیلنے لگی۔  جوں جوں سورج  کی تپش بڑھ رہی تھی۔ عیسائی فوج کی یلغار میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔  فلک  چپ سادھے دیکھ رہا تھا۔ چار سو سال بعد اندلس مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل کر ظالموں کی جھولی میں گرنے والا تھا۔ تاریخ کا دھارا بدل ہی جاتا لیکن اللہ کی تدبیر کچھ اور ہی ہوتی ہے۔ یوسف بن تاشفین افریقہ کے تپتے صحرائوں سے اٹھ کر سمندر پار  سیاحت کو ہر گز نہ آیا تھا۔ بصیرت سے معمور اس مجاہد نے جب دیکھا کہ دشمن کی فوج فتح کے نشے سے مخمور ہوئی جا رہی ہے۔ اور تھکن سے چور مزید جنگ لڑنے کی آرزو مند نہیں۔ اس نے اپنے لشکر کو حملے کا حکم دیا۔ تازہ دم اسلامی بجلی کی سی لپک سے میدان میں موجود اپنے بھائیوں سے جا ملے۔ پھر جذبے تلواریں بن گئے۔ حوصلے نیزوں کی طرح دشمن کے سینوں میں پیوست ہونے لگے۔ چشم فلک نے یہ منظر بھی دیکھا کہ ایک ایک مجاہد نے  بیس بیس دشمنوں کی گردنیں ناپ لیں۔ لشکر کا سالار خود بھی چھپٹتا، پلٹتا، پلٹ کر چھپٹتا اور  مجاہدین کا لہو گرماتا جاتا۔ اس بوڑھے  مجاہد کی تلوار بجلی کی طرح کوند رہی تھی۔ اس کے دل و دماغ میں وہی الفاظ گونجتے۔"اے رب کریم  اگر تیرے مٹھی بھر نام لیوا مٹ گئے تو پھر اس سر زمین پر تیرا نام لینے والا کوئی نہ ہو گا۔" اسے قلیل شیروں کے ساتھ ہزارہا بھیڑیوں کو قابو کرنا تھا۔    وہ  لڑائی کے عین بیچ گھوڑا دوڑاتا جاتا اور اپنے مجاہدوں کو پکار پکار کر آگے بڑھنے کی تلقین کرتا۔    کشتوں کے پشتے لگتے رہے۔ لہو بہتا رہا۔ الفانسو کے لشکری کٹ کٹ کر گرتے رہے۔ نئی تاریخ رقم ہوتی رہی۔   مسلمانوں کے ہاتھ سے پھسلتا اندلس بہادروں کے مضبوط حصار میں تھا۔ مورخین نے اس میدان کو  "زلاقہ"  (پھسلن والی زمین۔ خون کے بہنے کی وجہ سے  لشکریوں کا زمین  پر قدم جمانا مشکل  ہو رہا تھا) کا نام دیا۔  لیکن الفانسو کے ہاتھ ایک کامیابی لگی۔ وہ اپنی ایک کٹی ٹانگ اور پانچ سو وفاداروں کے ہمراہ بھاگنے میں کامیاب ہو گیا۔ یوسف بن تاشفین  کی حوصلہ مندی اور مجاہدین کے جذبے نے تاریخ کے پہیے کو چار صدیوں کے لئے روک دیا۔ چار سو سال اندلس کی چوٹیوں پر مسلمانوں کا پھریرا لہراتا رہا۔ ایک مجاہد رہنما کی بے آرامی کی بددولت مسلمانان اندلس چار سو سال سکون کی نیند سوتے رہے۔

Tuesday, July 2, 2013

اچھو ان جدہ

ہیں جی!  اور گڈی شٹارٹ۔
۔ سفید موتیوں والے دندان ، چم چم لشکارے مارتے سامنے  بندے کو دندان شکن جواب دینے میں کام آتے۔  شخصیت کا پہلا "سفید"  تاثر یہی تھا۔ اپنا رنگ تو جوں چراغ تلے ہوتا ہے۔ لیکن اتنا بھی گہرا نہیں زرا سرمئی سا۔ مناسب سی رفتار سے دھیمے انداز کی گفتگو۔ لیکن ٹو  دی پوائینٹ، یہ اور بات کہ پوائینٹ  " اسلامآبادی  زیرو پوائینٹ سے لے کر  سرائکی  ملتان " تک پہنچ جائے۔ ملتانی مٹی اور چینی ظروف کمال کا سنگم  تھا  ۔ بتلانے لگے کہ چین میں کھلونوں کا کاروبار ہے۔ حد ادب مانع رہا ، ورنہ پیٹ میں مروڑ اٹھتے ہی رہے کہ عرض گزار ی کروں۔ "حضرت کھلونے بچوں کے یا بڑوں والے!"
اس سے قبل کئی سال صحرائے نجد کی خاک چھانی، حیرت ہے گرمی اور گردا  تو ملتان میں بھی مل جاتا۔ عرب کی آب و ہوا کا اثر ہے کہ عربی فر فر بولتے ہیں۔ فون پر کسی سے گفتگو فرما رہے تھے اور ناچیز کو پی ٹی وی  کا رات بارہ بجے "الاخبار" پڑھنے والا یاد آ گیا۔
لیکن بولنے سے  بھی زیادہ سمجھتے ہیں۔ اسی لئے اردو خوانوں کو عربوں کی سمجھداری گھول کر پلاتے ہیں۔
گول مٹول  زرا چھوٹے سے،  دل ہی دل میں شکر ادا کرتا رہا کہ محفل میں کوئی تو کسی حساب میں مجھ سے کم  ہے۔
بندہ    سکول   بیٹھا نہیں  ، واقعی پڑھا ہے۔  بات چیت میں "میتھ میٹکس"  کی مشقوں جیسے مثال بھی لازمی ساتھ ہوتی۔  بہت مددگار اور کام آنے والے انسان ہیں۔ فون میں موجود  تمام تصاویر میں حضرت  ،خواتین کو سہارا دیتے نظر آ رہے تھے۔   جناب  ظاہرا  دیسی اسٹائل ہونے کے باوجود  صنف نازک کو بہت احترام بخشتے۔  ۔ حتی کے کھانے میں بھی   مونث  "بھنڈی"  پسندفرماتے۔
آدمی    محنتی نظر آیا اور اس کا سب سے بڑا ثبوت ہر پانچویں مہینے مکہ کا چکر ہے۔ پانچ مہینوں میں "نو سو" کی گنتی  مکمل کرنا خالہ جی کا گھر تو نہیں ناں! اب معلوم نہیں یہ "چینیوں" کی صحبت کا اثر ہے یا بچپن کی عادت۔
جدہ کے موسم سے بخوبی آگاہی تھی، تبھی سفید ساٹن کا کی کھلی ڈھلی شلوار قمیص پہن رکھی تھی۔ تا کہ ہوا لگتی رہے۔   اپنے کپڑے یقینا دھوبی کے پاس رکھ چھوڑے ہوں گے۔
آئی فون کے علاوہ  چوتھی سفید ی ان کی ریش میں تھی۔ باریش اور بے ریش کے بین بین "بی ریش" ٹائپ کی۔ اور اس کے متعلق  توضیح بھی فرمائی کہ یہیں تک ہے ۔ چینی حدود میں داخلے  کے وقت رگید دی جائے گی۔ وہاں کی  عوام کو شاید باوقار چہرہ پسند نہیں یاموصوف  دوستوں کی چھبن کا خیال کرتے ہیں۔
جی دار اور پر مزاح ، ہر بات پر مسکرانا لازمی سمجھتے ہیں ،   رونے والی بات پر قہقہ لگاتے ہیں۔
گھر والوں کا ایک آدھ بار زکر خیر فرمایا جیسے جیل سے چھوٹا قیدی جیلر کو یاد کرے۔

مسکین سی شکل بنائے سامنے بیٹھے ملتانی  اچھو کے ماتھے پر صاف لکھا تھا۔  سیدھا اور سادہ  ، تیسری ملاقات میں لاکھ  دو لاکھ  ادھار مانگ لو۔ روپے ملیں نہ ملیں ، ناں! نہیں ہو گی۔ 

Tuesday, June 11, 2013

بدنامی

حضور! حضور! ہم سے کیا غلطی ہوئی؟ کیا رات والا مجرا جناب کو پسند نہ آیا؟
جناب کی حساس طبعیت پر کہیں " طبلے" کی تھاپ تو گراں نہیں گزری!
کہیں ایسا تو نہیں پازیب کی جھنکار نے کانوں میں ناگوار احساس کو بیدار کیا ہو!
یا پھر گھنگھروئوں کی  آواز حضور پر بھاری ہو!
ہمارے ٹھمکوں میں کوئی کمی رہ گئی؟
آواز کی لوچ صحیح نہ تھی!
پان کی گلوری میں چونا زیادہ تو نہ لگا دیا موئی نے!
راگنی نے حضور کے مزاج کو افسردہ تو نہ کر دیا!
کیا موئی نے خوشبو لگا رکھی تھی؟
اف یہ گرمی۔ حضور کہیں پسینے کی بو تو ناگوار نہیں گزری؟
اے ہے! کیا معلوم  کم بخت نے کمریا کو لچکایا بھی کہ نہیں۔
ہماری لونڈیا کی خؤش لباسی میں کوئی شکن تو نہ رہ گئی؟
حضور! بتائیے ناں۔
فانوس کی روشنی تو کہیں آنکھوں کو چھب نہ گئی ہو!
اے   سرمیلے!
گائو تکئے کو دیکھ زرا۔ کہیں کوئی تکلیف دہ شے تو نہیں گھسی اس میں۔
اور ہاں نشست کو بھی اچھی طرح جھاڑیو!
حضور۔ ہماری بدنصیبی جو آپ کا مزاج بھاری ہو گیا۔ ورنہ ماں قسم ہم نے تو اپنی سی کسر نہ چھوڑی آپ کی خوشی کے لئے۔
"حضور" (گہری سوچ سے چونکتے ہوئے۔
اوں! کیا ہوا زہرہ بائی؟ کیا بڑبڑائے جا رہی ہو؟
حضور! آپ کا وہ لونڈا ہے ناں، وہ کیا نام اس کا ۔ ارے وہ سرخ بالوں والا۔
سارے شہر میں ڈھنڈیا پٹوا رہا کہ ہم کوٹھے  کے لئے مجرے کا سامان اس سے خریدتے۔
"حضور"، تو کیا ہوا؟ اس سے خرید لیا کوئی فرق پڑا؟

نہیں حضور! لیکن کوٹھے کی بدنامی ہوتی ہے۔

ہماری جنگ، پیاری جنگ

سن 2004  کا مارچ۔  ہلکی ہلکی سردی  ،لیکن ماحول الیکشن کی گہما گہمی سے گرم۔ ماہرین، مبصرین اور تجزیہ نگار اس بار بھی پیپلز پارٹی کے جیتنے کے  سو فیصدی امکانات ظاہر کر رہے تھے۔ سیاسی پنڈت  پیپلز پارٹی آف اسپین کے پچھلے ٹریک ریکارڈ ، معاشی پالیسیوں، عوام دوست اقدامات کو دیکھتے ہوئے سوشلسٹ پارٹی کے جیتنے کے لئے بہت کم نمبر دینے کو تیار تھے۔
گیارہ مارچ 2004 اسپین کے عام ا نتخابات میں فقط تین دن باقی تھے۔ لوگ بے چینی سے ووٹنگ والے دن کا انتظار کرتے ہوئے ،  سیاسی تقریروں، مباحثوں اور ٹی وی پروگراموں  کی جانب   متوجہ تھے ۔  میڈرڈ کے ریلوے اسٹیشنوں پر قیامت ٹوٹ پڑتی ہے۔ یکے بعد دیگرے بم دھماکے۔ تباہ شدہ ریل گاڑیاں، جلے کٹے جسم۔  ایک سو نوے لاشیں اور ہزار کے قریب زخمی۔ سارا اسپین سوگ میں ڈوب جاتا ہے۔   مباحثوں کا رخ دھماکوں میں ہوئے جانی نقصان ، اس کی وجوہات اور اس کے پیچھے موجود ہاتھ تلاشنے کی طرف مڑ جاتا ہے۔  الزام القائدہ پر لگایا جاتا ہے۔ اور وجہ ہسپانوی دستوں کی عراق میں موجودگی۔سوشلسٹ پارٹی والے اعلان کرتے ہیں  کہ برسر اقتدار آتے ہی عراق سے اپنے فوجیوں کو واپسی کا حکم دیں گے۔ 14 مارچ کو مقررہ تاریخ پر انتخابات ہوتے ہیں اور سیاسی نجومیوں کی تمام تر پشین گوئیوں کے برعکس سوشلسٹ پارٹی بھاری اکثریت سے انتخابات جیت جاتی ہے۔ ماہرین جیت کی وجہ فقط عراق سے فوجیوں کی واپسی کے اعلان کو قرار دیتے ہیں۔   یاد رہے کہ اس سے تین مہنے قبل عراق میں سات ہسپانوی سپاہی بم دھماکے میں اپنی جان سے ہاتھ دھو  چکے تھے۔
پیپلز پارٹی کی تمام تر بہترین کارکردگی کے باوجود ہسپانوی عوام نے فقط آخری  پلوں میں  ایک بم دھماکے کی زمہ داری اس حکومت  پر ڈالی اور انہیں بری شکست سے دو چار کر دیا۔
سوشلسٹ پارٹی کاوزیر اعظم دوسرے دن اعلان کرتا ہے کہ عراق سے تیرہ سو فوجیوں کی واپسی کا حکم جاری کر دیا گیا ہے۔
امریکہ، نیٹو، یورپی یونین، اتحادی، دوست اپنی سی کر کے دیکھ لیتے ہیں، دھونس، دھمکیاں، پابندیوں کی باتیں۔ لیکن ہسپانوی حکومت کا ایک ہی جواب " جنگ ہماری نہیں، ہم کیوں مفت میں اپنے بندے مرواتے پھریں"۔ جائو! جو کرنا ہے تم کرو"۔
یوں اسپین نے اپنے تمام نیٹو ، یورپی اتحادیوں، دوستوں کی ناراضی مول لی لیکن صرف ایک سو نوے بندے مروا کر سدھر گیا اور عراق سے اپنے لونڈے واپس بلوا لئے، دہشت گردی کی جنگ کے متعلق اپنی داخلہ و خارجہ پالیسی میں بہت ساری تبدیلیاں کر ڈالیں۔
اور ایک پاکستانی قوم ،ایک لاکھ کے قریب بندہ مروا لیا۔ اربوں کا نقصان کروا لیا۔ لاکھوں اپاہج ہو گئے۔ ملک کا دیوالیہ نکل گیا۔ "گھر آٹا نہیں اور امان دانے پسوانے گئی" والا حساب ہو رہا لیکن  کوئلوں کی دلالی میں ایسا لطف آ رہا کہ  پرائے چولہے کی آگ کو اپنے بستر پر رکھ کر ہلارے لے رہے۔
معلوم ہی نہیں کہ جنگ کہاں سے شروع ہوئی! کس نے شروع کی! کیوں شروع ہوئی! ایک لاکھ (اف خدایا! ایک لاکھ کی گنتی گنتے بھی سانس پھول جاتی) انسانوں کو کھا گئی "ہماری جنگ"۔ لیکن نہ سر نہ پیر! نہ منہ نہ متھا۔
شاید اس بار سوئی قوم نے اس "ہماری جنگ" کے خلاف بھی فیصلہ دیا ہے اور پچھلے تمام "گندے انڈوں" کو اٹھا کر باہر گلی میں پھینک دیا ہے۔ نئی حکومت کو جہاں معاشی مسائل، بجلی، گیس، مہنگائی کے معاملات حل کرنے کا مینڈیٹ ملا ہے وہاں بجا کہ خارجہ و داخلہ پالیسیوں سے ستائی قوم نے ان "امور" کی تسلی بخش بہتری کے لئے بھی ووٹ ڈالا ہے۔ نون لیگ ، جماعت اسلامی، پی ٹی آئی، جے یو آئی، یہ تمام جماعتیں اس "ہماری جنگ" کو پرائی جنگ سمجھنے والی جماعتیں ہیں اور اس کا حل گفت و شنید، مذاکرات اور بات چیت میں تلاشنے کی پالیسی کے بیانات داغتی رہی ہیں۔  اب اللہ کرے کہ  میاں نواز شریف ساب بھی "جوز لیوس" ( 2004 کا ہسپانوی وزیر اعظم) کی طرح دلیرانہ، جرات مندانہ اور حقیقت  پر مبنی قوم کی امنگوں کے مطابق اس جنگ سے " خروج" کا فیصلہ کریں۔ ہم دعا گو ہیں کہ "پھجے کے پائیوں"  میں وہ غیرت موجود ہو جس کی ایسے فیصلوں کے لئے اشد ضرورت ہوتی ہے۔

بیکار کی بیگار سے جان چھڑا کر کم از کم اپنے بندے تو مرنے سے بچائیں۔ طالبان سے مذاکرات کرنے ہیں یا لڑائی کرنی ہے بعد کی بات لیکن اس میں تو دو رائے نہیں کہ "ہماری جنگ" نے ہی ہمیں اس مقام پر لا کھڑا کیا کہ ہمارا بدن چور چور اور انگ انگ  زخمی، اور زخم زخم رس رہا ہے۔

Thursday, May 30, 2013

مولبی مرنڈا۔

ٹویٹر پر  اک دوجے کا پیچھا کیا۔  جدہ  آنا ہوا تو  نمبر مانگ لیا۔ انہوں نے عربی میں لکھ کر  دے بھی دیا۔ فون  مِلایا تو کوئی بنگالن بول رہی تھی۔ دل بڑا دکھی ہوا۔ اس لئے نہیں کہ ٹویٹر والے  کا  نمبر غلط نکلا   ،بلکہ اس لئے کہ فون والی بنگالن تھی۔  اپنے نصیب !   بعد میں غور کیا تو  عربی کا چار ہم تین سمجھتے رہے۔   خیر ٹویٹر پر ہی ڈی ایمتے رہے۔  پھر فیس بک پر بھی ایڈ کر لیا۔ سرکار کو بھی پیروکار کی حالت پر رحم آیا اور عزیزیہ کے ایک ہوٹل پر  پہنچنے کا حکم صادر کیا۔  ہم نے بھی دفتر سے جان چھڑائی اور ٹیکسی پکڑے مہران ہوٹل کے باہر  لنگر انداز ہو گئے۔ تھوڑا انتظار اور محترم سامنے سے تشریف لاتے دکھائی دئیے۔ ایک ہی نظر میں پہچانے گئے۔۔ سر مبارک ناک کو  بڑھ بڑھ کر چوم رہا اور ماتھا بیچ سے غائب! چہرہ لمبوترا سا۔ ناک متناسب۔ گال پچکتے پچکتے بچے ہوئے۔ کان اپنی جگہ پر۔ داڑھی نے چہرے کو باوقار بنا رکھا۔ چہرے کی نورانیت اور سر کی عریانیت مل ملا کر  شخصیت کو جمال  اور وجاہت بخش رہی تھیں۔  "فارغ البالی" میں" اپنا" مستقبل کا نقشہ سامنے دکھ رہا تھا۔
گلے ملتے ہوئے ایڑیوں کا ممنون ہونا پڑا لیکن پھر بھی اپنا سر محترم کے سینے تک ہی پہنچ سکا۔ ہم نے بھی دو دھڑکنوں کو گن کر کان پیچھے کر لئے۔لیکن مصافحے میں گرمجوشی، اور چہرے پر تھکاوٹ کے اثرات کے باوجود  خلوص جھلک رہا تھا۔  کچھ دیر بیٹھ کر گپ شپ لگائی، حال احوال سے آگاہی لی ،  جناب نے کھانے کا پوچھا ، ہم نے ناں کی اور بس۔  وہ تو شکر کہ واقعتا بھوک نہیں تھی ورنہ  دوسری بار نہ پوچھنے کے باوجود  کہے دیتے ۔" کچھ منگوا ہی لیتے ہیں"۔ چائے پی گئی اور رخصت طلب کر لی۔ تیسرے دن کھانے کا  معاملہ ٹھہرا۔  حضرت کی نظر انتخاب کسی ترکش ریسٹورنٹ پر ٹھہری۔ اور ہم بمطابق حکم پہنچ گئے۔  منہ سے تو بس ایک آدھ بار ہی توصیفی کلمات پھوٹ سکے۔ لیکن ہمارا دل زبان کے ساتھ ساتھ  کھانے کی لذت اور ذائقے کی داد دیتا رہا۔ بھائی جان کھانا اتنا ہی کھاتے ہیں جتنا پیٹ میں آسکے اور پیٹ کا حجم کسی انگریزی فلم کی حسینہ سے زیادہ نہیں۔   اس پیٹ نے بیلنس رکھا ہوا ۔ ورنہ شاید "ادھر چلا میں ادھر چلا" والا حساب ہو جو  زرا  ہوا چلے۔   
  پرسوں  تیسری ملاقات تھی۔ تین ملاقاتوں کے دوران  مولبی ساب کے گھر سے چار دفعہ فون کیا گیا ہو گا۔ مولبی ساب تاثر تو یہی دیتے رہے کہ سب خیریت ہے لیکن نجانے ہمیں کیوں محسوس ہوتا رہا "جیسے دوسری طرف سے کہا گیا ہو۔ "دروازہ بند ہو چکا۔ اب رات گاڑی میں بسر کر لینا"۔   بندہ  شرافت کا نمونہ اور   انتہائی نفاست پسند ہے، کپڑوں سے لگ رہا تھا کہ اپنے ہاتھ سے دھلائی بھی کئے  ہیں اور استری بھی۔ گفتگو سے اندازہ ہوا کہ موصوف صرف اطاعت پسند شوہر ہی نہیں تابع فرمان "ابے" بھی ہیں۔ اس کا ایک ثبوت بچوں کی وہ سائیکل  بھی تھی جو کبھی پچھلی نشست اور کبھی  ڈِگی میں سنبھالی جا رہی تھی۔
دانتوں کو ایسا رنگا ہوا گویا پان "پیک بغیر پھینکے" کھانے کے عادی ہو۔ یا پھر گھر والی کی نشانہ بازی کے دوران لگنے والا زخم رنگت چھوڑ گیا ہو، یہ بھی عین ممکن کہ بچوں کی ٹافیوں کا چسکا لیتے لیتے سفیدی کو  بھورا کر لیا ہو۔  بندہ معصوم بھی تو بچوں جیسا ہی ہے۔ وہی معصومیت بھرا شریر لہجہ،  بولتی ہوئی آنکھیں، زرا زیادہ ہی باہر کو نکلی ہوئیں کہ کسی کو گھور کر دیکھنے سے آنکھیں باہر گرنے کا اندیشہ ہو سکتا۔   مردانہ ہونٹوں کی تعریف ہم حیا کے تقاضوں کے خلاف سمجھتے ہیں اس لئے ان کا زکر خیر  رہنے دیتے ہیں۔ کراچی والوں کا مخصوص دلپذیر  لہجہ، نستعلیق اور  مرصع ، مرقع۔  نہ  مولویوں والی بناوٹ اور نہ کالجی منڈوں جیسی  شو بازی۔ ہوتی بھی کیسے موصوف  عمر کی اتنی بہاریں دیکھ چکے کہ اب تسبیح ہاتھ میں  رکھنے کا حق بنتا ہے۔  شوخی لیکن سادگی کی مٹھاس میں لپٹی ہوئی۔ گفتگو شروع ہوئی تو کہاں سے کہاں جا پہنچے۔ محسوس ہی نہ ہوا  بلمشافہ تیسری ملاقات ہے۔ تبلیغوں والی انکساری، عاجزی بدرجہ اتم موجود تھی۔ لیکن عجیب ہوا کہ  ایک اصیل  مبلغ اور ایک کاٹھے تبلیغی کی ملاقات کے دوران نہ چھ نمبروں کی بات ہوئی نہ ایک دوجے کو  دعوت دی گئی۔ یہ تکلفات اپنوں میں تو نہیں چلتے ناں۔ اور ہاں محترم ہیں پورے "گھُنے"،  یقین نہ آئے تو ان کی اپنی پوسٹ بنام " 2 جنوری" پڑھ لی جئے۔

Thursday, May 23, 2013

سماجی سیاپے!


 

یا حیرت! پنج ست مرن گوانڈناں تے رہندیاں نوں تاپ چڑھے۔ معاشرے میں جو جرم ہو رہا زمہ دار مولوی ہے?

اس سماجی  ڈھانچے کی جو بھی کجی ،کوتاہی ہے اس کی وجہ مُلا ہے۔لسی میں پانی ملائو اور لمبا کرکے پلاتے جائو کسی ایک آدھ کو تو نیند کا جھونکا آئے گا ہی۔ کوئی تو "نمونیا" کا شکار ہو ہی جائے گا۔ اگ اسمانے چڑھی پتنگ کی ڈور طرح جھوٹ کو بھی ڈٰھیل دیتے جائو، اتنا کذب پھیلائو کہ رگ و پے میں رچ بس جائے، سچائی چھپ نہ سکے تو اس کا چہرہ مسخ کر دو، اتنا غبار اٹھا دو کہ گرد ہر سفید، اجلے دامن کو داغدار کئے بغیر نہ چھوڑے۔ یہ فلسفہ صدیوں سے رائج ہے۔ قرنوں سے عمل ہو رہا اس پر۔ برصغیر میں انگریزی مہاشوں کی آمد کے بعد اسلامیان ہند کو اپنی جڑوں سے کاٹنے کے لئے اسی "جھوٹ سبیل" کا ٹھنڈا میٹھا پانی رج رج کے پلایا گیا۔ حق اور سچ کی مخالفت میں کیا کیا طریقے نہ اپنائے گئے۔ کیسی کیسی پروپگینڈہ مشینیں دن رات کذابوں کو ہیرو اور ہیرو کو زیرو بنا کر پیش کرنے کے لئے چلتی رہیں۔ اور پھر تقسیم ہند کے بعد انہیں مشینوں کے پر پرزے رپئیر کر کر۔ ملمع لگا، تیل پانی ڈال تیار کر دیا گیا،ایسی ٹھیٹھ "ولیتی" مشینیں کہ دہائیوں بعد بھی دوڑ رہی ہیں، نہ ہانپی نہ کانپی، بلکہ انڈوں بچوں کے زرئعے بڑھتی ہی جا رہی ہیں، شام ہوتے ہی "میکاپے" چہروں کے ساتھ مائیاں سیاپا کرنے مربع ڈبے میں سج دھج کر بیٹھ جاتی ہیں، اور پھر ہر تان آ کر ٹوٹتی ہے "مذہب پسندوں" پر، ہر "لے" بس کرتی ہے دینداروں کی کسی خرابی پر۔ ڈسکشن کا دورانیہ ختم ہوتا ہے کسی مولانا کے زکر خیر پر۔ موضوع سخن کوئی سا بھی رہے۔ ٹاپک جیسا بھی ہو، وجہ بحث جو مرضی ٹھہرے لیکن غریب ملا  کا زکر کئے بغیر محفل میں گرمی نہیں آتی۔ ڈاکٹروں کی ہڑتال، صلواتیں مولوی کو، سڑک ٹوٹ پھوٹ کا شکار گالیاں مولوی کو، بجلی کا بحران، سب و شتم کا حقدار مولوی، روپیہ کی قیمت بڑھ جائے یا سونے کا بھائو گر جائے میرے ٹی وی پر بیٹھے انٹیلاکچولز کی سوئی مولوی پر ہی اٹکتی ہے۔ بیل کے "ٹل" کی طرح لٹکتی ٹائیاں پہن کر کیمرے کے سامنے بیٹھے جغادری فنکار ملا کے زکر خیر کے بغیر اپنا پروگرام مکمل کر ہی نہیں پاتے، پان ذدہ دندانے تیز کئے "وہی لہجے جو پنواڑی کے کھوکھے پر روا ہو سکتے" ٹیلیویژن سکرینوں پر بولے جاتے اور پھر عوام الناس کو زہنوں میں انڈیلا جاتا کہ ہر فساد کی جڑ ملا ہے، ہر بیماری کی وجہ مدرسہ ہے، ہر مصیبت و ابتلا مولوی کی بنا پر اتری ہے۔ (لیکن استثنائی صورت بھی ہے تیر و تفنگ کا رخ ایسے زاوئے سے سیٹ کیا جاتا کہ "خاص بندے" کبھی زد میں نہیں آتے۔ اور کسی "علامہ" کی طرف رخ سخن تو گناء عظیم شمار ہو گا)۔ قوم کو بتایا جاتا کہ ملا ہی قوم کو تقسیم کئے بیٹھے ہیں، ملا ہی ملت کے فرقے بنائے بیٹھے، مسلک کے نام ہر دھڑے بندیاں کئے ہوئے ہیں، گروہوں میں بانٹا ہوا عوام کو۔ اس زہرناک پروپگینڈے نے ایسی  اثرپزیری  دکھائی ہے کہ ہر کس و ناکس اب مولوی کو برا بھلا کہنا فیشن کا حصہ سمجھتا ہے۔ کہ ایسا نہ کیا تو دقیانوسی کہلایا جاوے گا۔ یا حیرت!

حسرت سی حسرت ہے کہ کبھی کوئی صاف نیت بندہ اینکری کرنے کی بجائے ملا کے اس معاشرے پر احسان بھی گنوا دے۔ اور عوام سے سوال کرے۔ سندھیوں کو اردو والوں سے لڑانے والے ملا ہیں? پنجابیوں سندھیوں میں نفرتیں بڑھانے والے ملا ہیں? پٹھانوں مہاجروں کو مروانے والے ملا ہیں? ہزارہ وال پختون کا جھگڑا شروع کرانے والے ملا ہیں? سرائکی وسیب سے"تخت لاہور" کو گالیاں دلوانے والے ملا ہیں? لیگوں کی سنچریاں ملا نے بنا رکھی ہیں? پارٹیوں کی لائنیں ملا نے لگا رکھی ہیں? تحریکوں کے جھمگٹے مُلا  نے لگائے ہوئے? اس سماج میں ایک سیاسی جماعت سے تعلق رکھنے والے  دوسری جماعت والوں کے ہاں رشتہ نہیں لیتے دیتے زمہ داری کس کی? اس معاشرے میں ایک سیاسی امیدوار کو ووٹ دینے والے مخالف امیدوار کے سپوٹروں کی موت مرگ میں شرکت نہیں کرتے۔ گناۃ گار مسجد کا خطیب ہو گیا? انہیں علاقوں میں سیاسی بنیادوں پر سینکڑوں ہزاروں لوگ موت کے منہ میں چلے جاتے۔ جرم کسی مدرسے والے کے سر? الیکشن ڈرامے کے دوران گائوں کے گائوں ڈانگ ڈنڈا لے کر ایک دوجے پر پل پڑتے کیا کوئی مولوی ایسا کرنے کو کہتا? زات برادری کی بنیاد پر دشمنیاں مولوی پیدا کرتا? سیاسی جماعتوں کے مسلح ونگ مولوی کے کہنے پر ہی بنائے گئے? جن پر ہزاروں بے گناہوں کے خون کا الزام ہوتا۔کیوں کسی سیاستدان کا گریبان نہیں پکڑا جاتا! کسی سماجی کارکن سے سوال کیوں نہیں کیا جاتا? کسی این جی او  والے سے کس لئے نہیں پوچھا جاتا۔ سوال کا حدف بنے تو مُلا۔ تنقید کی زد میں آئے تو مولوی، برا بھلا سہے تو بے چارا  دیندار طبقہ۔ یا تو ٹھیکہ دو معاشرے کا مولوی کو ۔یا پھر ملا کا زکر خیر کرو جتنا حق بنتا ہے۔ جتنا سچ ہوتا ہے۔

Friday, May 10, 2013

جمہوری کنیکٹ




ووٹ تو لازما ڈالنا ہے۔۔
خیر! کل تک تو تیرا خیال نیند پوری کرنے کا تھا۔
ہاں یرا! لیکن وہ تیری بھابھی نے میسج کیا، ووٹ لازمی ڈالنا۔
ہاہاہا! یعنی ابھی سے تھلے لگا ہوا۔ تیرا کیا ہو گا کالیا!
بکواس نہ کر۔ اس پر تو ایویں کا احسان چڑھانا۔ اصل میں فتوی پڑھا ۔ ووٹ امانت ہے۔  شہادت کی طرح اہم فریضہ ہے اس لئے سوچا نیکی کما لی جائے۔
واہ حاجی ثناء اللہ!  پھر کسے ووٹ ڈالے گا۔ ڈاکٹر عبداللہ  کو؟
لے دس۔ اس "مسیتڑ "کو ووٹ کیوں دینا۔ میں تو   "گوہر مرزا"  کو ووٹ ڈال رہا۔
کیوں! پچھلی بار تیرے ابے نے ایک سو ستر ووٹ   تڑوائے تھے اس "گوہر مرزے" کے۔
چھوڑ یار میرے ابے کو۔ ایویں سٹھیایا ہوا۔
لیکن یار وجہ بھی تو جینوین تھی۔   
کیا وجہ جینوین ہونی، ابا کو ایویں ہیرو بننے کا شوق۔
اب کرامتے کی لڑکی خود سیٹ تھی، جمالے کے ساتھ۔
لیکن چار لڑکوں نے اسے ریپ کیا تھا۔ اور  تیرے "گوہرے"  نے کیس دبا دیا تھا۔
او چھڈ توں  اس نے خود تو نہیں کیا تھا ناں۔ اور ویسے بھی وہ اس وقت دوسری پارٹی میں تھا۔
میں تو کہوں ۔ اس بار ڈاکٹر عبداللہ  کو ووٹ ڈال!
چل اوئے چل،  "مسیتڑوں" کو ووٹ ڈالنے سے بہتر میں  راکھی ساونت کی فلم دیکھ لوں۔
یار ۔ مسئلہ کیا ہے؟ ڈاکٹر عبداللہ  پڑھا لکھا  بندہ ہے۔ صاف ستھرا کریکٹر۔  نہ کوئی مقدمے بازی نہ گالم گلوچ نہ ہلڑ ہُلڑ۔
اور پھر نہ کوئی ریپ ، نہ  رسہ گیری نہ زمینیں ہنڈائی ہوئی۔ تیرے "گوہر مرزے" سے تو سو فیصدی بہتر ہے۔
توبہ کر! یہ مسیتڑ آ گئے تو  ملک سو سال پیچھے چلا جائے گا۔
لیکن کل تیرا "مرزا"  تو تقریر میں   دوسری پروگریسو  جماعت کا کہہ رہا تھا  کہ ملک کو سو سال پیچھے دھکیل دیا۔
( موبائل  کی گھنٹی بجنے لگی)
وہ ایک طرف کو چلتے ہوئے۔ دیکھ باقی بحث بعد میں۔ لیکن ووٹ "گوہر صاحب "  کو ہی دینا تو بھی۔
اور ہاں پولنگ سٹیشن پر آنا تیری بھابھی سے  ڈیٹ ہے تجھے بھی ملوائوں گا۔ پولنگ ایجنٹ ہو گی۔
لیکن مجھے کیا۔ میں نے ووٹ ڈالنا ہی نہیں۔
ووٹ کو مار گولا۔  وہاں آنکھوں کو تراوٹ  بخش مال ملے گا۔   ایک دم فِٹ۔

Friday, May 3, 2013

غیر سیاسی مکالمے، مباہلے، مناظرے

 نیدو: "میرے  دادا ابو  کے پاس اتنے جانور تھے ،اتنے جانور تھے کہ ان کے چارے والی کھرلی ،سال پورا چلتے  رہو، ختم نہیں ہوتی تھی۔"
  پھُلا ! کھرلی سیدھی تھی۔؟
 نیدو: ہاں ایک دم سیدھی میلوں دور تک ۔
پُھلا:  یہ تو کچھ نہیں۔  میرے دادا کے پاس اتنی لمبی ڈانگ تھی، اتنی لمبی کہ رات کو  اسے سیدھا کر کے آسمان کے تارے ہلاتے رہتے تھے۔ "
نیدو:  چل جھوٹے!  اتنی  لمبی ڈانگ ہو ہی نہیں سکتی۔  
 پُھلا:  کیوں نہیں ہو سکتی اتنی لمبی ڈانگ"
۔ نیدو: "ابے اتنی لمبی ڈانگ جو آسمان کے تاروں کو چھو سکے، اسے رکھیں گے کہاں؟"
 پُھلا:   تیرے دادے کی کھرلی میں"۔


یہ قند مکرر   فری آفر والا۔
فرنی:   میرے پڑدادا کی گھڑی دریا میں گر گئی۔ سو سال بعد نکالی اسی طرح چل رہی تھی۔
کھیر:  میرے  دادو  دریا میں گر گئے تھے۔ سو سال بعد نکالے اسی طرح زندہ سلامت۔
فرنی:  تیرے دادو  دریا میں سو سال کیا کرتے رہے؟
کھیر:  تیرے پڑدادا کی گھڑی کو چابی دیتے رہے۔


سیاسی جماعتوں کے حامی کاکوں ،کاکیوں کا حال بھی ایسا ویسا ہی نہیں؟

Wednesday, May 1, 2013

پیرا کوئی تعویذ لکھ دے

پیرا کوئی تعویذ لکھ دے، کوئی ایسی دواکر پیرا، میرا وچھڑیا ڈھول ملا پیرا، کیہڑا مل لگدا اے تیرا...


کسی گائوں میں ہفتہ وار ڈاکے پڑنا شروع ہو گئے۔ڈاکو ہر ہفتے ترتیب سے ایک ایک گھر لوٹتے اور تمام مال و اسباب لے جاتے۔ آخر میں دو چاار گھر باقی بچے، آخری گھر والوں کو اپنے لالے پڑے تو وہ اپنے "پیر" کے پاس گئے اور عرض گزار ہوئے "سرکار کوئی حل، کوئی وظیفہ، کوئی دعا، دارو، کوئی تعویذ عطا ہو ، تا کہ ہم اس مصیبت سے بچ جائیں"۔ سرکار نے فرمایا اپنے گھر میں ہتھیار رکھو، کوئی چاقو، چھری، کوئی کلہاڑی، کوئی بندوق، پستول، خوفزدہ مریدوں نے عرض کیا۔ "حضرت ڈکیت بہت خطرناک ہیں، وہ جان لینے سے بھی گریز نہیں کرتے، اور ایسے سر پر پہنچتے ہیں کہ خبر بھی نہیں ہوتی۔ پیر جی نے فرمایا۔ " بابا کسی  گلٹیری کو پال لو، کوئی بھگیاڑی کُتا  رکھ لو، آنے جانے والے کی خبر ہو جایا کرے گی اس کے بھونکنے سے۔۔ مریدوں نے پیر صاحب 
کے پائوں پکڑ لئے،  اور لگے عقیدت و ارادت سے گڑگڑانے " سائیں سانوں کچھ پتا نہیں! سرکار تُسئ ساڈے گلٹری، تسی ای ساڈے بولھی، تسئ بھگیاڑی، جو کج کرنا تُسی ای کرنا اے""


ہون ایہنوں پڑھو!



Friday, April 26, 2013

عادیوں کا قاصد

پاکستان کے فوجی گملوں میں جمہوریت کی پنیری ہمیشہ تیار رہتی ہے۔ جو سنگینوں کے زریعے بوقت ضرورت اسلام آباد کی زرخیز زمین میں کاشت کر دی جاتا ہے۔  لیکن عام پاکستان کو کبھی کبھار اپنے نمائندے آپ چننے کا موقع مل ہی جاتا ہے۔ انہیں بھی کہا جاتا ہے۔ آئو بتائو کون بنے گا  کروڑوں کا پتی! ان کی رائے کو بھی اہمیت مل جاتی ہے۔ لیکن شاید خوشی سے بوکھلا کر یا پھر فطری سادگی سے مجبور عوام غلطی کرنے میں بالکل نہیں چوکتے۔ یعنی وہی غلطی جو قومِ عاد سے سرزد ہوئی تھی۔  جب قوم عاد اپنے گناہوں اور سرکشی کی بنا پکڑ میں آئی ، ان پر قحط اور خشک سالی کا نزول ہوا  تو انہوں نے بھی دستور زمانہ کے مطابق اکٹھے ہو کر ایک آدمی کو چنا ۔ تا کہ وہ  مکہ مکرمہ جائے اور اللہ کے حضور ان کی نمائندگی کرتے ہوئے ۔ مغفرت طلب کرے اور رحمت و برکت کی دعا مانگے۔ اس آدمی کا نام قِیل تھا۔  قیل منزلیں طے کرتا ہوا مکہ پہنچا اور وہاں کے ایک سردار معاویہ بن بکر کا مہمان ہوا۔ سردار کی مہمان نوازی اور فیاضی نے سفر کی ساری تھکان اور قوم کی تمام فکر ہوا کر دی۔ شراب و کباب کی محفلیں ، رنگ برنگے کھانے ، اور اپنے میزبان کی دو  خوبصورت ، خوش آواز لونڈیوں کی سنگت سے  لطف اندوز ہوتا رہا۔ جام  کے نشے میں مست مہینے بعد جب کسی مغنیہ نے اس کی قوم کی کسمپرسی کے متعلق شعر کہا تو  اسے سینے میں درد محسوس ہوا ۔ خیال آیا کہ میں تو دعا کے لئے حاضر ہوا تھا۔ فورا اٹھا اور قوم کا درد  سینے سے لپٹائے  ہوئے ایک پہاڑ پر جا کر  اللہ کے سامنے عرض گزار ہوا۔  "مولا تجھے تو معلوم ہے میں یہاں پکنک منانے نہیں آیا تھا۔ میری قوم مصیبت میں ہے۔ اس پر رحم فرما۔ عادیوں کو فاقہ سے نکال دے، انہیں وہ پلا جو تو انہیں پلاتا تھا"۔ اس کے دعا مانگنے کی دیر تھی کہ آسمان پر دو بادل نمودار ہوئے ۔ایک بھورے سفید رنگ کا اور ایک سیاہ بادل جس میں بجلی کڑک رہی تھی۔ غیبی آواز آئی "ان دو میں سے جو چاہتے ہو لے جائو"۔  قیل نے اپنی دانست میں سیاہ بجلیوں والا بادل منتخب کیا کہ سوکھی کھیتیوں پر خوب برسے گا۔ اور اپنی قوم کی جانب روانہ ہوا۔ عادیوں نے جب دور سے دیکھا کہ قیل گھنے سیاہ بادلوں کے ہمراہ آ رہا ہے تو لگے خوشیاں منانے کہ اب خوب برسات ہو گی اور کھیتیاں ہری بھری ہونے سے خشک سالی ختم ہو جائے گی۔ لیکن قریب پہنچ کر سیاہ بادل آنا فانا طوفان کی شکل میں گرجے ۔ تیز آندھی، بجلی اور سخت کڑکتی آوازوں نے عادیوں کے دل دہلا دیئے۔ ان کے گھر بار سب الٹ پلٹ گئے اور ان پر سخت عذاب مسلط ہوا۔ اہل عرب جب کسی کو نمائندہ بنا کر بھیجتے تو اسے کہا کرتے "عادیوں کے قاصد  کی مانند نہ ہو جانا"

۔تو اہل پاکستان اپنی پارلیمان میں عادیوں کا وفد مت بھیجنا

Tuesday, April 2, 2013

استانی جی۔


دور دراز کے علاقوں سے متعلق لوگوں کو اظہار ِ زات کے مواقع کم کم میسر آتے ہیں۔ وہ اپنی فطرت میں موجود   رجحانات سے واقفیت حاصل کر   بھی لیں تو اس بکروال جیسے رہتے ہیں ، جسے وادی کے دامن میں کنواں تو ملتا ہے۔ لیکن پانی کے حصول کی سبیل نہیں ہوتی تاوقتیکہ کوئی آکر  اسے طریقہ نہ سمجھا دے۔
  اس دن  باڑے  میں بند بکریوں کی طرح شور مچاتے طلباء کو اچانک چپ لگ گئی تھی۔ وہ سارے  لڑکے جو کچھ دیر پہلے تک کلاس مانیٹر  کی ناک میں دم کئے ہوئے تھے۔اب  میسنی شکلیں بنائے کھڑے تھے۔ ہاشمی صاحب کی اچانک آمد نے ساری جماعت کو چپ لگا دی تھی۔ لیکن ہاشمی صاحب نے برخلافِ عادت کسی کو ڈانٹنے یا غصہ ظاہر کرنے کے، مسکراتے ہوئے سلام کیا ۔ اور اپنی دائیں طرف کھڑی مہ پارہ                  کا تعارف کرانے لگے۔ قصہ کچھ یوں تھا کہ ہماری اردو کی استانی محترمہ "پُر امید" ہونے کی وجہ سے طویل رخصت پر چلی گئ تھیں۔ اور ہماری  نئے ٹیچر کے نہ آنے کی تمام تر دلی دعائوں  اور پرخلوص ، معصوم تمنائوں کے باوجود سکول والوں کو ایک عدد استانی میسر آ ہی گئی تھیں۔ اور اب ہاشمی صاحب اچانک نازل ہو کر ہمارے رنگ میں بھنگ ڈالتے ہوئے   ۔ اس "لڑکی" کا تعارف بحثیت نئی استانی کروا رہے تھے۔  جسے دیکھ کر  میرا  دل  اور   دماغ اس کشمکش میں تھے کہ اسے استانی تسلیم کر لیا جائے؟ ۔ ہاشمی صاحب  چند ایک تعارفی جملے کہہ کر  ، نظم و ضبط کی پابندی اور بادب رہنے کی تاکید کر کے اس "لڑکی نما استانی، یا استانی نما لڑکی"  سے اجازت لیتے ہوئے باہر نکل گئے۔ اور ہماری جان میں جان آئی کہ اس قدر شور شرابے کے باوجود آج  جان چھوٹی۔ ان کے قدموں کی آہٹ ختم ہوتے ہی لڑکوں کا  شور وہیں سے شروع ہوا جہاں ان کی آمد پر منقطع ہوا تھا۔ کسی منچلے نے سائیں احسن  کے پیچھے قلم کی نوک چھبو دی۔جو پہلی رو کی پہلی کرسی پر بیٹھنے کی تیاری میں تھا۔ سائیں غصے سے پیچھے مڑ کر بڑبڑانے لگا۔ نئی نویلی خوبصورت لڑکی جسے ہاشمی صاحب ہماری استانی بتا کر گئے تھے اچانک آگے بڑھی اور اپنے ہاتھ میں پکڑی کتاب کا  سارا علم سائیں احسن کے بھیجے میں گھسیڑنے کی کوشش کی۔ "آپ لوگ نویں جماعت کے طالبعلم ہو، ایک بہترین اور نامور ادارے  میں پڑھنے والے اتنے بےادب اور  غیر سنجیدگی کا مطاہرہ کرتے ہوں گے۔ مجھے معلوم نہ تھا۔" ان محترمہ نے غصے کو قابو میں کرنے کی کوشش کرتے ہوئے   دو چار بے نطق سنائیں۔ اور اپنا دوپٹہ،  جو سائیں کو کتابی تعارف کراتے ہوئے لڑھک کر کندھے پر آ گر تھا، دوبارہ سر پر سلیقے سے رکھتے ہوئے، لڑکے لڑکیوں کو بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ استانی صاحبہ کی اس جارحانہ پیشقدمی  نے ہمارے دل میں ان کا وہ تاثر جو پچھلے آٹھ ،دس منٹ  میں ایک   "پری وش" کا       سا ابھر رہا تھا، پھر سے ایک "استانی"کا بنا دیا۔  "ہنہ! نویں آئی اے سوہنی تے چھا گئی اے" شادے نے بیٹھتے ہوئے میرے کان میں سرگوشی کی۔ "اللہ ہدایت دے گا" میں نے جوابا کہا۔ "اور اگر ہدایت نہ ملی تو!" شادے نے کتاب منہ کے آگے کر کے بتیسی نکالتے ہوئے پوچھا۔ "تو بدعا کریں گے   کوئی نمبردار ہدایت اللہ مل جائے اسے" میں نے ہنسی دباتے ہوئے کہا۔ شادے کا جوابی قہقہہ کچھ زیادہ آواز دار ہو گیا۔ استانی نے بلوری آنکھوں سے ہمیں گھورا لیکن اب تک محترمہ کا غصہ ٹھنڈا ہو چلا تھا۔۔ شاید انہیں احساس ہوا کہ   کلاس والوں کو پہلا تاثر اچھا نہیں ملا۔  اب کی بار وہ دوبارہ گویا ہوئیں تو نستعلیق اردو اور شستہ لہجے  نے  "تپیدہ دلوں " پر  قدرے پھوار  چھڑکی۔ سائیں کو پھر مخاطب کر کے فرمایا "ماشاء اللہ آپ کا قد مجھ سے دو ہاتھ اونچا ہو رہا۔  کلاس میں اساتذہ کی موجودگی کا کچھ تو خیال رکھنا چاہئے۔ اور پھر "جماعت کے شرفاء کے سرخیل سائیں احسن " کو  کسی وضاحت کا موقع دئیے بغیر  ،کتابیں کھولنے کا حکم دیا۔  دو چار لڑکوں سے  با آواز بلند سبق  پڑھوایا اور   "اردو  بھی صحیح طرح نہیں پڑھ سکتے" کہہ کر سبق کی مشق کی جانب متوجہ ہوئیں۔ وہ سوالات کے جوابات کی توضیح و تشریح فرما رہی تھیں۔  چند ایک لڑکوں کو چھوڑ کر زیادہ تر  کا دھیان لکھنے کی بجھائے سننےکی طرف، اور ان میں سے بھی کچھ کا فقط   دیکھنے  تک  تھا۔   ہم جماعت لڑکیوں کے  چہروں کے تاثرات لڑکوں کی  "شوخ نگاہی" پر پھولے پھولے سے تھے۔ شاید انہیں اتنی  خوبصورت اور نوجوان  استانی  دل کو نہیں لگی تھی، یا پھر اتنی خوبرو  اتالیقہ کی جانب لڑکوں کا یوں ٹکٹکی باندھے دیکھنا، ان سے ہضمم نہیں ہو پا رہا تھا۔  استانی صاحبہ کرسی کے کاندھوں پر کتاب رکھے، قدرے آگے کی جانب جھکائے، کمر ہلکی سی خمیدہ  کیے   مترنم آواز میں کچھ لکھوائے جا رہی تھیں۔ درمیانہ قد ، جس کو میعاری بنانے کے لئے ہلکی ایڑھی والی سینڈل نما  چپل پہن رکھی تھی۔ لانبھی گھنیری زلفیں  جو باوجود  دوپٹہ بڑا ہونے کے، اپنی شان کا پتا دے رہی تھیں۔  ہلکے ہرے رنگ کے سوتی  لباس پر سنہری رنگت میں  ہلکی کامدار کڑھائی،   استانی جی کی گوری رنگت  پر بہت جچ رہی تھی۔   چھوٹی ،بولتی ہوئی، بلوری آنکھیں جن کے کنارے بھیگے سے محسوس ہوتے، یا پھر شاید ذہانت کی چمک تھی۔ قدرے گولائی لئے رخساروں کے اختتام پر معصومانہ سی ، لمبوتری ٹھوڑی جو مسکراتے ہوئے کچھ چوڑی ہو جاتی۔ کشادہ پیشانی، "مہ جبیں" کا  سچا ترجمہ تھی۔  "لب یاقوت اور پنکھڑی گلاب کی سی ہے۔"  میرے اور شادے کے منہ سے اکٹھا ہی ادا ہوا تھا۔
اور یہ سب مشاہدہ  پہلے دن پہلی کلاس میں ہی نہیں ہوا تھا۔
پہلے دن تو کلاس  میں  پنجاب یونیورسٹی  سے ، گولڈ میڈلسٹ  ایم اے اردو  اور حالیہ ڈکٹریٹ  میں داخلے کا سوچتی اس حسینہ کے ہاتھوں کی کپپاہٹ اور لبوں کی لرزش محسوس کی جا سکتی تھی۔  اور  شاید اسی جھجک، ہچکچاہٹ میں  وقت ختم ہونے سے تھوڑی دیر قبل جب "حکیم لقمان" کے متعلق استانی صاحبہ نے  کچھ غلطی کی ،تو عادتا مجبور،  خاموش نہ رہا گیامیں نے  استانی جی کو لقمہ دے دیا۔ اور عرض کیا" میڈم !یوں نہیں یوں۔"  استانی جی کو شاید خوشگوار حیرت ہوئی کہ پینتالیس منٹ میں کسی نے انہیں  بھی مخاطب کیا ہے۔ بہرحال  انہوں نے ایک دو منطقی دلائل سننے کے بعد تحقیق کا کہہ کر جان چھڑا لی۔
دوسرے دن استانی جی  خوشگوار موڈ کے ساتھ جماعت میں  جلوہ افروز ہوئیں۔  پہلے طلباء و طالبات کا فردا فردا تعارف لیا، ہنستے مسکراتے  کچھ فقرے اچھالے، کچھ   لطیف اور پرمزاح  انداز میں اردو کی طرف توجہ دینے کا کہا۔ ان کے اس انداز کو دیکھ کر تو پہلے دن کا شکار سائیں احسن بھی بچھا جا رہا تھا۔ لڑکیوں نے دوستانہ برتائو دیکھ کر جلن، کُڑھن  میں کچھ کمی کی۔  پھر کتاب پکڑی اور نیا سبق سمجھانے سے پہلے میری طرف اشارہ کر کے فرمایا "عمران آپ کھڑے ہوئیے۔" میں نے سوچا ۔   "یاداشت تو بڑی تیز ہے۔ اک بار میں نام رٹ لیا۔استانی صاحبہ  نے کل کے ٹوکنے کا برا تو نہیں منا لیا۔"
"جی میڈم" کہہ کر کھڑا ہوا تو  ایک  پرکشش مسکراہٹ اچھال کر بولیں۔ "کل آپ نے بالکل صحیح کہا تھا۔ حضرت لقمان کا زمانہ حضرت عیسی سے بہت پہلے کا ہے اور وہ نسلا عربی نہیں تھے۔"  پھر دو چار توصیفی کلمات کہے۔۔مجھے اپنی کہی ہوئی بات کے صحیح ہونے کا یقین تو اسی طرح تھا جیسا استانی جی کے حسین ہونے کا۔ لیکن ان کے منہ سے تعریف سن کر "پہلی اور آخری دفعہ شرما گیا۔"  اسی دن  فری پیریڈ میں استانی جی کو "بابے اسلم" کی کینٹین کے پاس دیکھ کر، میں نے اور شادے نے  چائے پکوڑوں کی دعوت دے ڈالی۔ جو خوشدلی سے قبول بھی ہو گئی۔   استانی جی کرسی پر بیٹھیں،  بائیں ہاتھ میں چائے کا کپ تھامے، میز پر پڑی پکوڑوں کی پلیٹ میں سے دائیں ہاتھ کی چٹکی سے چھوٹا سا پکوڑے کا ٹکڑا  اٹھاتیں، جو شاید گولی سے بڑا نہ ہو گا اور   نجانے کیسے بند لبوں سے منہ میں ڈال لیتی۔ لیکن چائے کی چسکی لیتے ہوئے تمام تر تکلفات پکوڑے کی پلیٹ میں رکھتے ہوئے "سڑوک سڑوک" کی آواز نکالی اور بولیں چائے تو آواز کے بغیر پینا  عذاب ہوتا ہے۔  میں اور شادا پھولوں کی کیاری کے کنارے بیٹھے۔ چائے کی چسکیاں لے رہے تھے۔ جی میں آئی کہ اس خوبصورت چائے پکوڑے کی دعوت  کا استانی جی  کی طرح ہی  باآواز بلند لطف لیا جائے۔ لیکن بےتکلف ہونے کے باوجود احترام مانع رہا۔
کلاس میں ، اور ٹیوشن پر بھی  ہمارا موضوع سخن استانی جی ہی رہیں۔ ہم ان کی  عمر کے اندازے لگاتے رہے۔ اور اس بات پر متفق ہوئے کہ زیادہ سے زیادہ عمر ِِِِ ماہ  ، بائیس، تئیس   سال ہی ہو گی۔ جو دوسرے دن استفسار کرنے پر پانچ سال زیادہ  نکلی۔ استانی جی نے عام خواتین کی طرح عمر کے سوال   پر جھینپنے کے بجائے آرام سے بتلایا کہ اٹھائیس سال اور چار مہینے۔ ہم نے عرض کیا کہ ہمارا  خیال   تئیس تک کا تھا۔ تو ہنس کر کہا آپ کے پرنسپل صاحب تو مجھے  بیس کا بنانے پر تُلے ہوئے تھے۔ 
پرنسپل صاحب   کی خوش لباسی اور خوش اخلاقی بھی دوسرے مرد اساتذہ کی  طرح استانی جی کی آمد سے نکھر سی گئی تھی۔ کلاسوں کے "رائونڈ" میں اضافہ ہو گیا تھا۔ اور تفریح کے دوران وہ بھی اپنے دفتر کے بجائے سٹاف روم میں پائے جانے لگے۔
 ادھر کمرہ جماعت میں آمد ہوئی اور سبق  کی پڑھائی شروع ہوئی ادھر پرنسپل صاحب ٹہلتے ہوئے کلاس میں داخل ہوتے اور پچھلی نشستوں میں سے کوئی خالی کرسی پکڑ کر ایک طرف کو بیٹھ جاتے۔ پندرہ بیس منٹ تک  طریقہ تدریس کا مشاہدہ ہوتا۔ اور پھر ایک آدھ نصیحت فرما کر باہر نکل جاتے۔ اس دوران استانی جی کی حالت  دیکھنے لائق ہوتی ان کی آواز کی لرزش، اور بار بار گلا کھنکار کر اپنی خود اعتمادی بحال کرنا صاف  نظر آتا۔
  پرنسپل کی  کلاس میں موجودگی ہمیں بھی ایک آنکھ نہ بھاتی۔  ہم نے  اپنی جماعت کی نگران ٹیچر سے کہا کہ "ہاشمی صاحب" کا نام بھی حاضری رجسٹر میں درج کر لیا جائے۔  وہ ہمارے شکایتی انداز کو سمجھ گئیں۔ بات سٹاف روم سے  چپڑاسی کے کانوں میں  اور اس کے زریعے  پرنسپل تک جا پہنچی۔ لیکن ان کا رویہ وہی کا وہی تھا۔ پانچویں دن جب استانی جی ٹیسٹ لینے کے لئے سوال لکھوا رہی تھیں تو شادے نے ڈھیٹ پنے سے بتیسی نکالتے  استفہامیہ لہجے میں کہا۔" ہاشمی صاحب بھی ٹیسٹ دیں گے!" ہاشمی صاحب نے ٹیسٹ تو نہ دیا لیکن بات دل پر لے گئے اور اس کے بعد کمرہ جماعت میں استانی جی کی موجودگی میں داخل نہ ہوئے۔ بعد میں شادے کو اس کی خوداعتمادی اور بذلہ سنجی پر خصوصی شاباش ملی، ساتھ  چائے پکوڑوں کی دعوت بھی۔

استانی جی کی آمد نے بہت سوں کو "ریگولر" کر دیا۔ وہ اساتذہ جو گیارہ بجے سے قبل سکول آنے کے روادار   نہ تھے، صبح کی اسمبلی میں پائے جاتے۔ جنہیں شعر وادب سے چِڑ تھی وہ بھی میر و غالب کے متعلق زوق و شوق سے گفتگو فرماتے نظر آتے۔  ہفتے  بعد شیو بنانے والوں کے رخسار   ہر صبح استرے کی تُندی سے چِھلے محسوس ہوتے۔  اور وہ جلاد صفت جن کا ناشتہ دوچار کو اپنی گرج دار آواز میں لتاڑے بغیر ہضم نہ ہوتا تھااب  بردبار بنے  پھر رہے تھے۔ ایک استاد جی کے خلاف شادے کواستانی جی کے کان بھرنے پڑے۔ شادے نے دونوں کو ہنستے مسکراتے دیکھا تو کڑھ کر رہ گیا۔ دوسرے دن جب تک استاد جی کی سیمابی طبیعت اور رنگین مزاجی کے قصے مرچ مسالہ لگا کر  استانی جی کے گوش گزار نہ کر دئیے۔ اسے چین نہ  آیا۔ اس چغلی کا فائدہ یہ ہوا کہ  استانی جی نے  پھر کسی "میل کولیگ" کی چائے کی دعوت تک قبول نہ کی۔ لیکن ہم بھی اس خوف میں مبتلا ہو گئے کہ کان کی کچی ہیں۔ کسی نے ہمارے خلاف  کچھ کہہ دیا تو!
آٹھ دس روز  خوب پڑھائی اور  لگاتار نوٹس لکھوائی نے ہماری طبعیت میں اکتاہٹ پیدا کر دی تھی۔ لیکن اس دن  استانی جی نے کوئی شعر پڑھا۔ اور اس کے جواب میں شادے نے کوئی مزاحیہ شعر پھڑکا دیا۔  کمرہ جماعت کا ماحول زعفرانی ہو گیا۔ اور ہمیں موقع میسر آگیا۔ اپنے ہنر آزمانے کا۔ ایک قطعہ میری طرف سے ہوا۔ جوابا استانی جی نے کچھ ارشاد فرمایا۔ اور بیت بازی کی محفل جم گئی۔
اس کے بعد تو ہر روز کا معمول بن گیا۔ پینتالیس منٹ میں سے بیس منٹ پڑھائی اور پچیس منٹ کی شعر و شاعری۔ باقی ہم جماعت بھی کچھ نہ کچھ سناتے۔ لیکن میری اور شادے کی شوخیاں عروج پر ہوتیں۔ شاعری کی جتنی کتابیں میسر آ سکتی تھیں، جتنے اشعار یاد کئے جا سکتے تھے ، ڈایجسٹوں  میں سے جس قدر اشعار ڈائیری پر لکھے جا سکے، ہم نے خوشدلی سے   یہ کام سر انجام دیا۔
 استانی جی کو نثر میں ایسی دلچسپی نہ تھی ۔ شاعری کا زوق اچھا تھا۔ لیکن  پروین شاکر اور نوشی گیلانی کے علاوہ کچھ اور کم کم ہی سنا پاتیں۔ اردو ادب    میں گولڈ میڈل شاید زہانت اور یاداشت کی بنیاد پر ہی حاصل کر پائی تھیں۔ ورنہ کلاسیکل شاعری انہیں ایسی بھی پسند نہ تھی۔ پانچ سات مشہور مصنفین، اور سلیبس میں موجود لکھاریوں کے ناموں کے علاوہ انہیں زیادہ تر  سے استفادہ  کا موقع ہی نہیں ملا تھا۔  آواز اور انداز پرکشش ہونے کی وجہ سے طلباء نے انہیں پسند کر لیا تھا ۔ ورنہ ان کی تشریحات  اور مشقوں کے حل کا منبع بھی وہی "خلاصے اور گائیڈ بک" ہی تھیں جنہیں سال کے شروع میں ہم تجسس کے مارے دو بار پڑھ کر ایک طرف ڈال دیتے تھے۔ تاریخ سے شناسائی فقط نصابی تھی۔   بقول شادے، "خوش شکل، خوش آواز، خوش اطوار ہیں استانی جی، باقی سب ہماری اپنی میڈم  جیسا ہی ہے۔" اور میرا خیال یہ تھا کہ  ہاشمی صاحب نے "گولڈ میڈل" اور  "بولڈ چہرہ" دیکھ کر ہی پڑھانے کا موقع فراہم کیا ہے۔ ہماری مشترکہ رائے یہ تھی کہ  آواز کی وجہ سے کسی ایف ایم چینل کی کامیاب ڈی جے، حسن و جمال کی بنا پر کسی  اچھےبرانڈ کی اشتہاری امبیسڈر بن سکتی ہیں۔ یا پھر انداز و اطوار   میں شائستگی، اور سلیقہ مندی کسی کثیر الملکی ادارے کی "مارکیٹنگ مینیجر" بنوا سکتی ہے۔ لیکن آخر الذکر کے لئے جس خود اعتمادی اور ڈھیٹ پنے کی ضرورت ہوتی ہے وہ استانی جی میں ناپید تھا۔ کالج، یونیورسٹی کی تعلیم   نے شاید ان کی فطری طبیعت میں "چٹکی بھر سندور" جتنا نکھار ہی پیدا کیا ہو گا۔ اگر وہ گائوں کی الہڑ مٹیار ہوتیں  تو  غالب، میر کی بجائے ہیر وارث شاہ، اور سیف الملوک  پڑھ لیتیں۔  سولہ کے بجائے دس جماعتیں پاس ہوتیں تو بھی ان کی  مسکراہٹ ایسی ہی پرکشش ہوتی۔  وہ فطرتا خوبصورت تھیں۔ بغیر بناوٹ کے، بغیر دکھاوے کے، طبعیتا جھجکتی ہوئی، اور شاید شرمائی ہوئی۔   
تین مہینوں میں استانی جی کا دوپٹہ ، شاید ہی تین بار سے زیادہ سِرکا ہو۔ اور جب  بڑا سا  سیاہ چشمہ ناک کے اوپر جماتیں  تو یوں لگتا کوئی ویلڈنگ والا  ٹانکا لگانے کی تیاری کر رہا ہے۔انہیں  خدائی عطا کا اندازہ بخوبی تھا، اور وہ اپنی  رعنائی سے آگاہ تھیں۔ ستائشی نظروں ، اور توصیفی کلمات کی چاہ میں کبھی  ملتفت  بھی ہو جاتی تھیں۔  لیکن اتنا ہی کہ کوئی انہیں بد اخلاق نہ گردانے۔ جن لوگوں کو ان کے دل نے  لکد لگا دی ان کے لئے  پھر مسکرانا بھی گوارا نہ کیا۔    نرسری سے نویں جماعت کے گیارہ سالوں میں ، وہ تین مہینے ایسے تھے جب ہم اپنی فرضا، واجبا ، عادتا     ہفتہ وار تعطیلات کی قربانی دیتے رہے۔
ہمیں شاعری کی لت پڑی۔ سخن فہمی کی کوششیں شروع ہوئیں۔ اساتذہ کو پڑھنے کا شوق پیدا ہوا۔ اور ہماری  ذہنی  پرتوں پر اشعار کی ملمع کاری ہوتی رہی۔ 
 تین مہینے گزرنے ہی تھے۔ سو گزر گئے۔ ہم نے استانی جی سے عرض کی۔ "آپ پرمننٹ    سیٹ کے لئے اپلائی کی جئے۔ ہو جائے گا۔" مسکرا کر فرمایا ۔    " دیکھیں گے پھر کبھی۔" کسی نے انہیں سفارش   کی آفر کی۔ لیکن انہوں نے مسکرا کر شکریہ کہہ دیا۔
  لڑکوں سے باجماعت دعا کرائی۔ " اللہ  جی ہماری  میڈم کو جوڑے کے دو بیٹے اور دے دو۔" لیکن نہ تو ہم ولی تھے نہ ہماری  دعا ٹوٹے دل سے تھی۔ اس لئے ہماری میڈم ایک ہی بچے کو اونی کمبل میں لپیٹے  تین مہینے بعد لوٹ آئیں۔ 
استانی جی  سے اپنی ہم جماعت سَدو کے زریعے سلام دعا  برقرار رہی۔ شادا مجھ سے چوری  کبھی کبھار  سلام دعا کے ساتھ ایک عدد خوبصورت کارڈ کا بھی اضافہ کر دیتا۔   نویں کے سالانہ امتحانات سے ایک آدھ مہینہ قبل دسویں والوں کو الوداعی پارٹی  دینے کا ارادہ بنا۔ اپنی جماعت میں تمام تر غیر زمہ دارانہ ریکارڈ کے باوجود  زمہ داریاں سونپی گئیں۔ باقی لڑکوں سے مشورے، لڑکیوں سے لڑائی کے بعد یہ طے پایا کہ بطور میزبان ہمیں کسی مہمان کو بلانے کا مکمل اختیار حاصل ہے  سو  استانی جی کو دعوت دینے کا فیصلہ ہوا۔ اپنی کلاس ٹیچر کی منت، سماجت کر   کے اجازت بھی لے لی۔۔ اور ایک عدد خوبصورت دعوتی کارڈ  بذریعہ سَدو  روانہ کیا۔ جس کے جواب میں شکریہ اور لازمی شرکت کی خبر موصول ہوئی۔ دعوت والے دن   سارے لڑکوں نے بن ٹھن کے بائو شائو بننے کی  اپنی سی کوشش کی۔ اور لڑکیوں کےسرخی پوڈر    نے بھی ریکارڈ توڑے۔   دس بجے پروگرام شروع ہونا تھا۔ آٹھ بجے پتا چلا کلاس ٹیچر کی ساس صاحبہ وفات پا گئی ہیں ظاہر ان کی تشریف آوری تو ندارد تھی۔ لیکن ان کی غیر موجودگی سے بہت سارے کام اتھل پتھل ہو رہے تھے۔ بھاگم بھاگ میں پتا چلا کہ الوداعی بیان بھی تیار نہیں۔ ہانپتے کانپتے جلدی میں ایک تقریر  سوچی۔ کھانے کا انتظام، برتن، ٹھنڈا، کرسیاں، میز، دماغ میں بس یہی کچھ تھا۔ اور ہماری مہمان خصوصی استانی جی کب کی تشریف لا چکی تھیں ہمیں خبر نہ ہوئی۔ پتا اس وقت چلا جب دسویں کے لڑکوں کو  استانی جی کے ہمراہ تصویریں کنچھواتے دیکھا۔ گلاب کی کیاری کے کنارے نیلے رنگ کے لباس میں  استانی جی تو بہت خوبصورت دکھ رہی تھیں لیکن ساتھ میں کیکر کے پیڑ۔ آگے بڑھ کر سلام دعا  کی، حال احوال پوچھا۔ اور  کسی کے بلانے پر پھر سے کام میں مشغول ہو گیا۔ شادا  بھی بس کھڑے کھڑے ملاقات کر پایا۔  ساری تقریب بخیر و خوبی انجام پائی۔ پروگرام بھی خوب رہا۔ کھانا بھی اچھا ہو گیا۔  لیکن جب تک ہم اپنی زمہ داریوں سے فراغت پاتے،استانی جی جا چکی تھیں۔   ہمارا دل کھٹا ہو گیا تھا۔ میں اور شادا ایک دوسرے سے پوچھ رہے تھے۔   یار ہمیں ملے بغیر ، بتائے بغیر، ہمارے ساتھ تصویر کھنچوائے بغیر۔ لیکن  وہ ہماری زات کے کنویں سے ، اپنا آپ نکالنے کے لئے شاعری کا بوکا ہاتھ میں پکڑا کر گئی تھیں۔یہ اور بات کے وقت کے ساتھ کنواں اپنی ہی مٹی سے اٹتا رہا اور بوکا زنگ آلود ہو کر اب چائوں کائوں کی آوازیں ہی نکالتا ہے۔

Friday, March 8, 2013

آبگینے توڑ نہ دینا!



یا انجشہ رویدک سوقاً بالقواریر۔
 اے انجشہ دھیرے سے چل، آبگینے توڑ نہ دینا


حدثنا آدم، حدثنا شعبة، عن ثابت البناني، عن أنس بن مالك، قال كان النبي صلى الله عليه وسلم في مسير له فحدا الحادي، فقال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ ارفق يا أنجشة، ويحك، بالقوارير ‏"‏‏.‏ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا ، کہا ہم سے شعبہ نے ، ان سے ثابت بنانی نے ، ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک سفر میں تھے ، راستہ میں حدی خواں نے حدی پڑھی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے انجشہ ! شیشوں کو آہستہ آہستہ لے کر چل ، تجھ پر افسوس 
............................................................................................................

ذرا دھیرے سے تم چلنا
!کہ یہ تو آبگینے ہیں

یہی وہ آبگینے ہیں
کبھی ہو پیاس کی شدت تو یہ پانی پلاتے ہیں
کبھی سورج کی ہو حدت تو یہ سایہ بناتے ہیں
یہ ہیں آنگن کے تارے جو ہمیشہ جگمگاتے ہیں
مکاں کو گھر بناتے ہیں
انھی میں وہ قرینے ہیں
کہ یہ تو آبگینے ہیں

یہی وہ آبگینے ہیں
کہ جو گھر بھر کی زینت ہیں
یہی آنکھوں کی ہیں ٹھنڈک
یہی فرحت بھی ‘ راحت بھی
انھی سے رونق محفل
انھی سے حرمت محمل
بھری شاداب دینا میں
یہی سرسبز اک حاصل
یہی جنت کے زینے ہیں
کہ ہیں یہ ماں
یہی بیٹی ‘ یہی بہنا
یہی ہیں ہاتھ کا گہنا
محاذوں پر جو نکلو تو
!۔۔۔۔۔۔۔۔ کبھی پیروں کی بیڑی بھی
بنیں پسلی سے ہیں یہ
اس لئے تھوڑی سی ٹیڑھی بھی
مگر تم توڑ مت دینا
انھیں مستور ہی رکھنا
کہ عصمت کے نگینے ہیں
!کہ یہ تو آبگینے ہیں

کبھی سوچا بھی ہے تم نے
یہ کتنا دکھ اٹھاتی ہیں
تمھاری زندگی کو کس طرح شاداں بناتی ہیں
تمھاری راہ کے کانٹے
یہ چن لیتی ہیں پلکوں سے
سفر آساں بناتی ہیں
سنور جائیں اگر
!اک نسل کا ایماں بناتی ہیں
پھر ان معصوم کلیوں کو
یہی بصری ۔۔۔۔۔۔۔
!یہی سفیاں بناتی ہیں

احسن عزیز شہید

Flickr