Saturday, October 12, 2013

وڈا آپریشن


ڈاکٹر زبیدی   پیدائشی طبیب ہے۔    علاقے کا ہر مریض  تکلیف میں مبتلا ہو کر پکار اٹھتا ہے "چھیتی آویں وے طبیبا چھیتی گولیں وے طبیبا نیئں تا میں مر گیئاں ایں"۔ بلکہ اہلیان علاقہ ہر مصیبت، پریشانی، تنگی، میں اسے آواز دیتے  ہیں۔ کہہ لی جئے زبیدی  سات کوس   دائیں بائیں  والے  گائوں کا پیر و مرشد بھی ہے۔  
کہانی شروع ہوتی ہے زبیدی کی پیدائش سے بھی پہلے جب اس کا دادا انگریزوں کی فوج میں  خچر ٹہلایا ،نہلایا ،سہلایا کرتا تھا۔  لکڑی والی  کاٹھیاں  اور لوہے کے سُموں کی دیکھ بھال کرتا۔  وہاں اس کی یاری   گورے  وٹرنری  ڈاکٹروں سے ہوئی اور انہی سے اس نے ٹیکا لگانا بھی سیکھ لیا  ڈنگروں کو۔  پھر جب وہ    رٹیرڈ ہو کر گائوں کو لوٹا تو گائیوں، بھینسوں کو "نواں" کرنے کا کام بھی  شرع کر دیا۔ بکریوں کو چھٹا بٹھانے کو ایک تگڑا بکرا بھی رکھ چھوڑا۔ کام اچھا چل نکلا،  پینشن کا روپیہ، زمینوں کی آمدن اور ساتھ میں ڈنگڑ ڈاکٹری پانچوں گھی میں  اور چوہری طیفے کی بھلے بھلے۔ زبیدی کا ابا اپنے ابے  کا بڑا لاڈلا  تھا، جب زرا سیانا ہوا تو گائوں کےاکلوتے ٹیشن پر سیکل پنکچر کی دوکان کھول کر بیٹھ گیا۔  قسمت کا دھنی تھا،   سیکل چھوڑ ،آنے جانے والی گڈیاں بھی ٹیروں کا پنکچر لگوانے پہنچ جاتی۔وہ   ھوا بھرنے کے ساتھ بونٹ پر کپڑا بھی مار دیتا دائی غفوراں کی بیٹی  صفوراں جو خود بھی  قابلہ  تھی  ،سے آنکھ مٹکا ہوا اور  پھر ویاہ بھی۔  چار سال گود سونی رہی، پانچویں برس  درباروں مزاروں  پر منتوں مرادوں نے رنگ دکھایا  اور پیروں فقیروں کی محنت  پھل لائی ان کی گود میں ننھا زبیدی آ گیا۔    زبیدی کو ڈنگر ڈاکٹری، دائیانہ صفات  اور  سیکل پنکچری ورثے میں ملی تھیں۔ لوگوں کا ماننا تھا اسے فقیروں کی دعا بھی ہے۔   بچہ زہین تھا، پڑھنے میں تیز، آٹھیوں جماعت کے بعداعلی تعلیم کے لئے  مامے کے پاس اندرون سندھ بھجوا دیا گیا۔ پانچ سال بعد وہاں سے لوٹا تو ایک عدد لیڈی ڈاکٹر بیوی  ہمراہ تھی جو اسے بھی ڈاکٹر زبیدی کہہ کر مخآطب کرتی۔  پورےعلاقے میں مشہور ہو گیا کہ  صفوراں کا پُتر ڈاکٹر بن کر آیا ہے، ساتھ میں  ڈاکٹرنی بھی لایا ہے۔ زبیدی نے ابے کی سیکلوں والی ہٹی کا منہ متھا سیدھا کر وہاں کلینک کھول لیا۔ پورے علاقے کا اکلوتا کوالیفائیڈ ڈاکٹر۔ شروع شروع میں سختی  جھیلنی پڑی۔    غریبوں کا علاقہ محنت زیادہ آمدنی کم۔  آدھی آدھی رات مریض دیکھنے  پانچ پانچ میل دور پیدل  جانا  پڑتا۔  کبھی کبھار تو  خرشہ پانی چلانے کو گائے بھینس کا چیک بھی کر لیتے، کمھاروں کی کھوتیوں  کو   ڈوے کی بیماری ہوئی پشاوری چائے کی سہرپ بنا بنا کر پلائی۔ اچھی آمدنی ہو گئی  اور کھوتیوں کو آرام بھی آ گیا۔ ڈاکٹرنی بھی خواری جھیلتی ، خاص کر زچہ کیس میں۔ تیل چپڑ چپڑ مالش کرنی پڑتی۔     پھر کمائی  بھی چمکی اور عزت بھی  ۔ جو صحت یاب ہو جاتا وہ دل و جان سے واری جاتا اور جس کی جان جانی ہے اس کو بچانے والا کون! اہلیان علاقہ جوڑے کی میٹھی باتوں سے زیادہ متاثر ہوتے۔   پیسے اکٹھے ہوئے تو  کلینک کو بڑا کیا، دو چار کمروں کا اضافہ کیا۔ شہر سے ایک آدھ نرس منگوائی گئی۔ فرنیچر بدلا گیا۔ کام بڑھتا گیا، لوگوں کا اعتماد بھی۔  اور پیسے کی ھوس بھی۔  جوڑے کو لگا، اس رفتار سے تو بوڑھے ہو جائیں گے اور ککھ جوڑ نہ پائیں گے۔    آخر دماغ میں پیسے جوڑنے کی ترکیب پک ہی گئی۔ 
وڈا آپریشن۔ زچہ کا کوئی کیس بھی آئے۔  اس کی تکلیف کا حل وڈا آپریشن ہے۔  نویں نکور  "کاکیوں " نے تو  اسے  فیشن کے طور پر بہت پسند کیا۔  اور درد ، تکلیف سے بچائو     بھی جانا۔ تیس ھزار میں بغیر تکلیف بچہ گود میں۔ چاہے تین مہینے باقی ہوں۔   اور مریضہ سر درد کی شکایت لے کر آئی ہو ،ڈاکٹر زبیدی کے ہسپتال میں آپریشن کے لئے دیر نہیں لگتی۔   ہر درد کا ایک ہی علاج ہوتا ہے وڈا آپریشن، مائی فقیراں کے گوٖڈوں میں درد تھا،   چیرا پیٹ کو لگا۔ نُصرت کی دائیں ٹانگ میں سوزش ہوئی، ناف کے قریب سے کاٹا گیا۔  اور  تو اور حاجی  دِتے  کی کمر میں جب چُک نکلی تو ڈاکٹر نے ایکسرے   لئے، بیس منٹ  الٹ پلٹ کر غور سے دیکھتا رہا اور پھر تشویش ناک لہجے میں بولا،  حاجی ساب آپ کا وڈا آپریشن کرنا پڑے گا۔   حاجی ساب نے واویلا کیا  "میں دیسی بوٹیاں استعمال کر لوں گا" تو ڈاکٹر ڈاکٹرنی نے علاقے میں مشہور کرا دیا،  حاجی دتہ طالبان کے ساتھ مل گیا ہے۔

Flickr