ٹویٹر پر اک دوجے
کا پیچھا کیا۔ جدہ آنا ہوا تو
نمبر مانگ لیا۔ انہوں نے عربی میں لکھ کر
دے بھی دیا۔ فون مِلایا تو کوئی
بنگالن بول رہی تھی۔ دل بڑا دکھی ہوا۔ اس لئے نہیں کہ ٹویٹر والے کا نمبر
غلط نکلا ،بلکہ اس لئے کہ فون والی
بنگالن تھی۔ اپنے نصیب ! بعد میں
غور کیا تو عربی کا چار ہم تین سمجھتے
رہے۔ خیر ٹویٹر پر ہی ڈی ایمتے رہے۔ پھر فیس بک پر بھی ایڈ کر لیا۔ سرکار کو بھی
پیروکار کی حالت پر رحم آیا اور عزیزیہ کے ایک ہوٹل پر پہنچنے کا حکم صادر کیا۔ ہم نے بھی دفتر سے جان چھڑائی اور ٹیکسی پکڑے
مہران ہوٹل کے باہر لنگر انداز ہو گئے۔
تھوڑا انتظار اور محترم سامنے سے تشریف لاتے دکھائی دئیے۔ ایک ہی نظر میں پہچانے
گئے۔۔ سر مبارک ناک کو بڑھ بڑھ کر چوم رہا
اور ماتھا بیچ سے غائب! چہرہ لمبوترا سا۔ ناک متناسب۔ گال پچکتے پچکتے بچے ہوئے۔
کان اپنی جگہ پر۔ داڑھی نے چہرے کو باوقار بنا رکھا۔ چہرے کی نورانیت اور سر کی
عریانیت مل ملا کر شخصیت کو جمال اور وجاہت بخش رہی تھیں۔ "فارغ البالی" میں" اپنا"
مستقبل کا نقشہ سامنے دکھ رہا تھا۔
گلے ملتے ہوئے ایڑیوں کا ممنون ہونا پڑا لیکن پھر بھی اپنا
سر محترم کے سینے تک ہی پہنچ سکا۔ ہم نے بھی دو دھڑکنوں کو گن کر کان پیچھے کر
لئے۔لیکن مصافحے میں گرمجوشی، اور چہرے پر تھکاوٹ کے اثرات کے باوجود خلوص جھلک رہا تھا۔ کچھ دیر بیٹھ کر گپ شپ لگائی، حال احوال سے
آگاہی لی ، جناب نے کھانے کا پوچھا ، ہم
نے ناں کی اور بس۔ وہ تو شکر کہ واقعتا
بھوک نہیں تھی ورنہ دوسری بار نہ پوچھنے
کے باوجود کہے دیتے ۔" کچھ منگوا ہی
لیتے ہیں"۔ چائے پی گئی اور رخصت طلب کر لی۔ تیسرے دن کھانے کا معاملہ ٹھہرا۔
حضرت کی نظر انتخاب کسی ترکش ریسٹورنٹ پر ٹھہری۔ اور ہم بمطابق حکم پہنچ
گئے۔ منہ سے تو بس ایک آدھ بار ہی توصیفی
کلمات پھوٹ سکے۔ لیکن ہمارا دل زبان کے ساتھ ساتھ
کھانے کی لذت اور ذائقے کی داد دیتا رہا۔ بھائی جان کھانا اتنا ہی کھاتے
ہیں جتنا پیٹ میں آسکے اور پیٹ کا حجم کسی انگریزی فلم کی حسینہ سے زیادہ نہیں۔ اس پیٹ نے بیلنس رکھا ہوا ۔ ورنہ شاید
"ادھر چلا میں ادھر چلا" والا حساب ہو جو زرا ہوا
چلے۔
پرسوں تیسری ملاقات تھی۔ تین ملاقاتوں کے دوران مولبی ساب کے گھر سے چار دفعہ فون کیا گیا ہو
گا۔ مولبی ساب تاثر تو یہی دیتے رہے کہ سب خیریت ہے لیکن نجانے ہمیں کیوں محسوس
ہوتا رہا "جیسے دوسری طرف سے کہا گیا ہو۔ "دروازہ بند ہو چکا۔ اب رات گاڑی
میں بسر کر لینا"۔ بندہ
شرافت کا نمونہ اور انتہائی نفاست پسند ہے، کپڑوں سے لگ رہا تھا کہ
اپنے ہاتھ سے دھلائی بھی کئے ہیں اور
استری بھی۔ گفتگو سے اندازہ ہوا کہ موصوف صرف اطاعت پسند شوہر ہی نہیں تابع فرمان
"ابے" بھی ہیں۔ اس کا ایک ثبوت بچوں کی وہ سائیکل بھی تھی جو کبھی پچھلی نشست اور کبھی ڈِگی میں سنبھالی جا رہی تھی۔
دانتوں کو ایسا رنگا ہوا گویا پان "پیک بغیر
پھینکے" کھانے کے عادی ہو۔ یا پھر گھر والی کی نشانہ بازی کے دوران لگنے والا
زخم رنگت چھوڑ گیا ہو، یہ بھی عین ممکن کہ بچوں کی ٹافیوں کا چسکا لیتے لیتے سفیدی
کو بھورا کر لیا ہو۔ بندہ معصوم بھی تو بچوں جیسا ہی ہے۔ وہی
معصومیت بھرا شریر لہجہ، بولتی ہوئی
آنکھیں، زرا زیادہ ہی باہر کو نکلی ہوئیں کہ کسی کو گھور کر دیکھنے سے آنکھیں باہر
گرنے کا اندیشہ ہو سکتا۔ مردانہ ہونٹوں
کی تعریف ہم حیا کے تقاضوں کے خلاف سمجھتے ہیں اس لئے ان کا زکر خیر رہنے دیتے ہیں۔ کراچی والوں کا مخصوص
دلپذیر لہجہ، نستعلیق اور مرصع ، مرقع۔
نہ مولویوں والی بناوٹ اور نہ
کالجی منڈوں جیسی شو بازی۔ ہوتی بھی کیسے
موصوف عمر کی اتنی بہاریں دیکھ چکے کہ اب
تسبیح ہاتھ میں رکھنے کا حق بنتا ہے۔ شوخی لیکن سادگی کی مٹھاس میں لپٹی ہوئی۔ گفتگو
شروع ہوئی تو کہاں سے کہاں جا پہنچے۔ محسوس ہی نہ ہوا بلمشافہ تیسری ملاقات ہے۔ تبلیغوں والی انکساری،
عاجزی بدرجہ اتم موجود تھی۔ لیکن عجیب ہوا کہ
ایک اصیل مبلغ اور ایک کاٹھے
تبلیغی کی ملاقات کے دوران نہ چھ نمبروں کی بات ہوئی نہ ایک دوجے کو دعوت دی گئی۔ یہ تکلفات اپنوں میں تو نہیں چلتے
ناں۔ اور ہاں محترم ہیں پورے "گھُنے"،
یقین نہ آئے تو ان کی اپنی پوسٹ بنام " 2 جنوری" پڑھ لی جئے۔