Thursday, May 30, 2013

مولبی مرنڈا۔

ٹویٹر پر  اک دوجے کا پیچھا کیا۔  جدہ  آنا ہوا تو  نمبر مانگ لیا۔ انہوں نے عربی میں لکھ کر  دے بھی دیا۔ فون  مِلایا تو کوئی بنگالن بول رہی تھی۔ دل بڑا دکھی ہوا۔ اس لئے نہیں کہ ٹویٹر والے  کا  نمبر غلط نکلا   ،بلکہ اس لئے کہ فون والی بنگالن تھی۔  اپنے نصیب !   بعد میں غور کیا تو  عربی کا چار ہم تین سمجھتے رہے۔   خیر ٹویٹر پر ہی ڈی ایمتے رہے۔  پھر فیس بک پر بھی ایڈ کر لیا۔ سرکار کو بھی پیروکار کی حالت پر رحم آیا اور عزیزیہ کے ایک ہوٹل پر  پہنچنے کا حکم صادر کیا۔  ہم نے بھی دفتر سے جان چھڑائی اور ٹیکسی پکڑے مہران ہوٹل کے باہر  لنگر انداز ہو گئے۔ تھوڑا انتظار اور محترم سامنے سے تشریف لاتے دکھائی دئیے۔ ایک ہی نظر میں پہچانے گئے۔۔ سر مبارک ناک کو  بڑھ بڑھ کر چوم رہا اور ماتھا بیچ سے غائب! چہرہ لمبوترا سا۔ ناک متناسب۔ گال پچکتے پچکتے بچے ہوئے۔ کان اپنی جگہ پر۔ داڑھی نے چہرے کو باوقار بنا رکھا۔ چہرے کی نورانیت اور سر کی عریانیت مل ملا کر  شخصیت کو جمال  اور وجاہت بخش رہی تھیں۔  "فارغ البالی" میں" اپنا" مستقبل کا نقشہ سامنے دکھ رہا تھا۔
گلے ملتے ہوئے ایڑیوں کا ممنون ہونا پڑا لیکن پھر بھی اپنا سر محترم کے سینے تک ہی پہنچ سکا۔ ہم نے بھی دو دھڑکنوں کو گن کر کان پیچھے کر لئے۔لیکن مصافحے میں گرمجوشی، اور چہرے پر تھکاوٹ کے اثرات کے باوجود  خلوص جھلک رہا تھا۔  کچھ دیر بیٹھ کر گپ شپ لگائی، حال احوال سے آگاہی لی ،  جناب نے کھانے کا پوچھا ، ہم نے ناں کی اور بس۔  وہ تو شکر کہ واقعتا بھوک نہیں تھی ورنہ  دوسری بار نہ پوچھنے کے باوجود  کہے دیتے ۔" کچھ منگوا ہی لیتے ہیں"۔ چائے پی گئی اور رخصت طلب کر لی۔ تیسرے دن کھانے کا  معاملہ ٹھہرا۔  حضرت کی نظر انتخاب کسی ترکش ریسٹورنٹ پر ٹھہری۔ اور ہم بمطابق حکم پہنچ گئے۔  منہ سے تو بس ایک آدھ بار ہی توصیفی کلمات پھوٹ سکے۔ لیکن ہمارا دل زبان کے ساتھ ساتھ  کھانے کی لذت اور ذائقے کی داد دیتا رہا۔ بھائی جان کھانا اتنا ہی کھاتے ہیں جتنا پیٹ میں آسکے اور پیٹ کا حجم کسی انگریزی فلم کی حسینہ سے زیادہ نہیں۔   اس پیٹ نے بیلنس رکھا ہوا ۔ ورنہ شاید "ادھر چلا میں ادھر چلا" والا حساب ہو جو  زرا  ہوا چلے۔   
  پرسوں  تیسری ملاقات تھی۔ تین ملاقاتوں کے دوران  مولبی ساب کے گھر سے چار دفعہ فون کیا گیا ہو گا۔ مولبی ساب تاثر تو یہی دیتے رہے کہ سب خیریت ہے لیکن نجانے ہمیں کیوں محسوس ہوتا رہا "جیسے دوسری طرف سے کہا گیا ہو۔ "دروازہ بند ہو چکا۔ اب رات گاڑی میں بسر کر لینا"۔   بندہ  شرافت کا نمونہ اور   انتہائی نفاست پسند ہے، کپڑوں سے لگ رہا تھا کہ اپنے ہاتھ سے دھلائی بھی کئے  ہیں اور استری بھی۔ گفتگو سے اندازہ ہوا کہ موصوف صرف اطاعت پسند شوہر ہی نہیں تابع فرمان "ابے" بھی ہیں۔ اس کا ایک ثبوت بچوں کی وہ سائیکل  بھی تھی جو کبھی پچھلی نشست اور کبھی  ڈِگی میں سنبھالی جا رہی تھی۔
دانتوں کو ایسا رنگا ہوا گویا پان "پیک بغیر پھینکے" کھانے کے عادی ہو۔ یا پھر گھر والی کی نشانہ بازی کے دوران لگنے والا زخم رنگت چھوڑ گیا ہو، یہ بھی عین ممکن کہ بچوں کی ٹافیوں کا چسکا لیتے لیتے سفیدی کو  بھورا کر لیا ہو۔  بندہ معصوم بھی تو بچوں جیسا ہی ہے۔ وہی معصومیت بھرا شریر لہجہ،  بولتی ہوئی آنکھیں، زرا زیادہ ہی باہر کو نکلی ہوئیں کہ کسی کو گھور کر دیکھنے سے آنکھیں باہر گرنے کا اندیشہ ہو سکتا۔   مردانہ ہونٹوں کی تعریف ہم حیا کے تقاضوں کے خلاف سمجھتے ہیں اس لئے ان کا زکر خیر  رہنے دیتے ہیں۔ کراچی والوں کا مخصوص دلپذیر  لہجہ، نستعلیق اور  مرصع ، مرقع۔  نہ  مولویوں والی بناوٹ اور نہ کالجی منڈوں جیسی  شو بازی۔ ہوتی بھی کیسے موصوف  عمر کی اتنی بہاریں دیکھ چکے کہ اب تسبیح ہاتھ میں  رکھنے کا حق بنتا ہے۔  شوخی لیکن سادگی کی مٹھاس میں لپٹی ہوئی۔ گفتگو شروع ہوئی تو کہاں سے کہاں جا پہنچے۔ محسوس ہی نہ ہوا  بلمشافہ تیسری ملاقات ہے۔ تبلیغوں والی انکساری، عاجزی بدرجہ اتم موجود تھی۔ لیکن عجیب ہوا کہ  ایک اصیل  مبلغ اور ایک کاٹھے تبلیغی کی ملاقات کے دوران نہ چھ نمبروں کی بات ہوئی نہ ایک دوجے کو  دعوت دی گئی۔ یہ تکلفات اپنوں میں تو نہیں چلتے ناں۔ اور ہاں محترم ہیں پورے "گھُنے"،  یقین نہ آئے تو ان کی اپنی پوسٹ بنام " 2 جنوری" پڑھ لی جئے۔

Thursday, May 23, 2013

سماجی سیاپے!


 

یا حیرت! پنج ست مرن گوانڈناں تے رہندیاں نوں تاپ چڑھے۔ معاشرے میں جو جرم ہو رہا زمہ دار مولوی ہے?

اس سماجی  ڈھانچے کی جو بھی کجی ،کوتاہی ہے اس کی وجہ مُلا ہے۔لسی میں پانی ملائو اور لمبا کرکے پلاتے جائو کسی ایک آدھ کو تو نیند کا جھونکا آئے گا ہی۔ کوئی تو "نمونیا" کا شکار ہو ہی جائے گا۔ اگ اسمانے چڑھی پتنگ کی ڈور طرح جھوٹ کو بھی ڈٰھیل دیتے جائو، اتنا کذب پھیلائو کہ رگ و پے میں رچ بس جائے، سچائی چھپ نہ سکے تو اس کا چہرہ مسخ کر دو، اتنا غبار اٹھا دو کہ گرد ہر سفید، اجلے دامن کو داغدار کئے بغیر نہ چھوڑے۔ یہ فلسفہ صدیوں سے رائج ہے۔ قرنوں سے عمل ہو رہا اس پر۔ برصغیر میں انگریزی مہاشوں کی آمد کے بعد اسلامیان ہند کو اپنی جڑوں سے کاٹنے کے لئے اسی "جھوٹ سبیل" کا ٹھنڈا میٹھا پانی رج رج کے پلایا گیا۔ حق اور سچ کی مخالفت میں کیا کیا طریقے نہ اپنائے گئے۔ کیسی کیسی پروپگینڈہ مشینیں دن رات کذابوں کو ہیرو اور ہیرو کو زیرو بنا کر پیش کرنے کے لئے چلتی رہیں۔ اور پھر تقسیم ہند کے بعد انہیں مشینوں کے پر پرزے رپئیر کر کر۔ ملمع لگا، تیل پانی ڈال تیار کر دیا گیا،ایسی ٹھیٹھ "ولیتی" مشینیں کہ دہائیوں بعد بھی دوڑ رہی ہیں، نہ ہانپی نہ کانپی، بلکہ انڈوں بچوں کے زرئعے بڑھتی ہی جا رہی ہیں، شام ہوتے ہی "میکاپے" چہروں کے ساتھ مائیاں سیاپا کرنے مربع ڈبے میں سج دھج کر بیٹھ جاتی ہیں، اور پھر ہر تان آ کر ٹوٹتی ہے "مذہب پسندوں" پر، ہر "لے" بس کرتی ہے دینداروں کی کسی خرابی پر۔ ڈسکشن کا دورانیہ ختم ہوتا ہے کسی مولانا کے زکر خیر پر۔ موضوع سخن کوئی سا بھی رہے۔ ٹاپک جیسا بھی ہو، وجہ بحث جو مرضی ٹھہرے لیکن غریب ملا  کا زکر کئے بغیر محفل میں گرمی نہیں آتی۔ ڈاکٹروں کی ہڑتال، صلواتیں مولوی کو، سڑک ٹوٹ پھوٹ کا شکار گالیاں مولوی کو، بجلی کا بحران، سب و شتم کا حقدار مولوی، روپیہ کی قیمت بڑھ جائے یا سونے کا بھائو گر جائے میرے ٹی وی پر بیٹھے انٹیلاکچولز کی سوئی مولوی پر ہی اٹکتی ہے۔ بیل کے "ٹل" کی طرح لٹکتی ٹائیاں پہن کر کیمرے کے سامنے بیٹھے جغادری فنکار ملا کے زکر خیر کے بغیر اپنا پروگرام مکمل کر ہی نہیں پاتے، پان ذدہ دندانے تیز کئے "وہی لہجے جو پنواڑی کے کھوکھے پر روا ہو سکتے" ٹیلیویژن سکرینوں پر بولے جاتے اور پھر عوام الناس کو زہنوں میں انڈیلا جاتا کہ ہر فساد کی جڑ ملا ہے، ہر بیماری کی وجہ مدرسہ ہے، ہر مصیبت و ابتلا مولوی کی بنا پر اتری ہے۔ (لیکن استثنائی صورت بھی ہے تیر و تفنگ کا رخ ایسے زاوئے سے سیٹ کیا جاتا کہ "خاص بندے" کبھی زد میں نہیں آتے۔ اور کسی "علامہ" کی طرف رخ سخن تو گناء عظیم شمار ہو گا)۔ قوم کو بتایا جاتا کہ ملا ہی قوم کو تقسیم کئے بیٹھے ہیں، ملا ہی ملت کے فرقے بنائے بیٹھے، مسلک کے نام ہر دھڑے بندیاں کئے ہوئے ہیں، گروہوں میں بانٹا ہوا عوام کو۔ اس زہرناک پروپگینڈے نے ایسی  اثرپزیری  دکھائی ہے کہ ہر کس و ناکس اب مولوی کو برا بھلا کہنا فیشن کا حصہ سمجھتا ہے۔ کہ ایسا نہ کیا تو دقیانوسی کہلایا جاوے گا۔ یا حیرت!

حسرت سی حسرت ہے کہ کبھی کوئی صاف نیت بندہ اینکری کرنے کی بجائے ملا کے اس معاشرے پر احسان بھی گنوا دے۔ اور عوام سے سوال کرے۔ سندھیوں کو اردو والوں سے لڑانے والے ملا ہیں? پنجابیوں سندھیوں میں نفرتیں بڑھانے والے ملا ہیں? پٹھانوں مہاجروں کو مروانے والے ملا ہیں? ہزارہ وال پختون کا جھگڑا شروع کرانے والے ملا ہیں? سرائکی وسیب سے"تخت لاہور" کو گالیاں دلوانے والے ملا ہیں? لیگوں کی سنچریاں ملا نے بنا رکھی ہیں? پارٹیوں کی لائنیں ملا نے لگا رکھی ہیں? تحریکوں کے جھمگٹے مُلا  نے لگائے ہوئے? اس سماج میں ایک سیاسی جماعت سے تعلق رکھنے والے  دوسری جماعت والوں کے ہاں رشتہ نہیں لیتے دیتے زمہ داری کس کی? اس معاشرے میں ایک سیاسی امیدوار کو ووٹ دینے والے مخالف امیدوار کے سپوٹروں کی موت مرگ میں شرکت نہیں کرتے۔ گناۃ گار مسجد کا خطیب ہو گیا? انہیں علاقوں میں سیاسی بنیادوں پر سینکڑوں ہزاروں لوگ موت کے منہ میں چلے جاتے۔ جرم کسی مدرسے والے کے سر? الیکشن ڈرامے کے دوران گائوں کے گائوں ڈانگ ڈنڈا لے کر ایک دوجے پر پل پڑتے کیا کوئی مولوی ایسا کرنے کو کہتا? زات برادری کی بنیاد پر دشمنیاں مولوی پیدا کرتا? سیاسی جماعتوں کے مسلح ونگ مولوی کے کہنے پر ہی بنائے گئے? جن پر ہزاروں بے گناہوں کے خون کا الزام ہوتا۔کیوں کسی سیاستدان کا گریبان نہیں پکڑا جاتا! کسی سماجی کارکن سے سوال کیوں نہیں کیا جاتا? کسی این جی او  والے سے کس لئے نہیں پوچھا جاتا۔ سوال کا حدف بنے تو مُلا۔ تنقید کی زد میں آئے تو مولوی، برا بھلا سہے تو بے چارا  دیندار طبقہ۔ یا تو ٹھیکہ دو معاشرے کا مولوی کو ۔یا پھر ملا کا زکر خیر کرو جتنا حق بنتا ہے۔ جتنا سچ ہوتا ہے۔

Friday, May 10, 2013

جمہوری کنیکٹ




ووٹ تو لازما ڈالنا ہے۔۔
خیر! کل تک تو تیرا خیال نیند پوری کرنے کا تھا۔
ہاں یرا! لیکن وہ تیری بھابھی نے میسج کیا، ووٹ لازمی ڈالنا۔
ہاہاہا! یعنی ابھی سے تھلے لگا ہوا۔ تیرا کیا ہو گا کالیا!
بکواس نہ کر۔ اس پر تو ایویں کا احسان چڑھانا۔ اصل میں فتوی پڑھا ۔ ووٹ امانت ہے۔  شہادت کی طرح اہم فریضہ ہے اس لئے سوچا نیکی کما لی جائے۔
واہ حاجی ثناء اللہ!  پھر کسے ووٹ ڈالے گا۔ ڈاکٹر عبداللہ  کو؟
لے دس۔ اس "مسیتڑ "کو ووٹ کیوں دینا۔ میں تو   "گوہر مرزا"  کو ووٹ ڈال رہا۔
کیوں! پچھلی بار تیرے ابے نے ایک سو ستر ووٹ   تڑوائے تھے اس "گوہر مرزے" کے۔
چھوڑ یار میرے ابے کو۔ ایویں سٹھیایا ہوا۔
لیکن یار وجہ بھی تو جینوین تھی۔   
کیا وجہ جینوین ہونی، ابا کو ایویں ہیرو بننے کا شوق۔
اب کرامتے کی لڑکی خود سیٹ تھی، جمالے کے ساتھ۔
لیکن چار لڑکوں نے اسے ریپ کیا تھا۔ اور  تیرے "گوہرے"  نے کیس دبا دیا تھا۔
او چھڈ توں  اس نے خود تو نہیں کیا تھا ناں۔ اور ویسے بھی وہ اس وقت دوسری پارٹی میں تھا۔
میں تو کہوں ۔ اس بار ڈاکٹر عبداللہ  کو ووٹ ڈال!
چل اوئے چل،  "مسیتڑوں" کو ووٹ ڈالنے سے بہتر میں  راکھی ساونت کی فلم دیکھ لوں۔
یار ۔ مسئلہ کیا ہے؟ ڈاکٹر عبداللہ  پڑھا لکھا  بندہ ہے۔ صاف ستھرا کریکٹر۔  نہ کوئی مقدمے بازی نہ گالم گلوچ نہ ہلڑ ہُلڑ۔
اور پھر نہ کوئی ریپ ، نہ  رسہ گیری نہ زمینیں ہنڈائی ہوئی۔ تیرے "گوہر مرزے" سے تو سو فیصدی بہتر ہے۔
توبہ کر! یہ مسیتڑ آ گئے تو  ملک سو سال پیچھے چلا جائے گا۔
لیکن کل تیرا "مرزا"  تو تقریر میں   دوسری پروگریسو  جماعت کا کہہ رہا تھا  کہ ملک کو سو سال پیچھے دھکیل دیا۔
( موبائل  کی گھنٹی بجنے لگی)
وہ ایک طرف کو چلتے ہوئے۔ دیکھ باقی بحث بعد میں۔ لیکن ووٹ "گوہر صاحب "  کو ہی دینا تو بھی۔
اور ہاں پولنگ سٹیشن پر آنا تیری بھابھی سے  ڈیٹ ہے تجھے بھی ملوائوں گا۔ پولنگ ایجنٹ ہو گی۔
لیکن مجھے کیا۔ میں نے ووٹ ڈالنا ہی نہیں۔
ووٹ کو مار گولا۔  وہاں آنکھوں کو تراوٹ  بخش مال ملے گا۔   ایک دم فِٹ۔

Friday, May 3, 2013

غیر سیاسی مکالمے، مباہلے، مناظرے

 نیدو: "میرے  دادا ابو  کے پاس اتنے جانور تھے ،اتنے جانور تھے کہ ان کے چارے والی کھرلی ،سال پورا چلتے  رہو، ختم نہیں ہوتی تھی۔"
  پھُلا ! کھرلی سیدھی تھی۔؟
 نیدو: ہاں ایک دم سیدھی میلوں دور تک ۔
پُھلا:  یہ تو کچھ نہیں۔  میرے دادا کے پاس اتنی لمبی ڈانگ تھی، اتنی لمبی کہ رات کو  اسے سیدھا کر کے آسمان کے تارے ہلاتے رہتے تھے۔ "
نیدو:  چل جھوٹے!  اتنی  لمبی ڈانگ ہو ہی نہیں سکتی۔  
 پُھلا:  کیوں نہیں ہو سکتی اتنی لمبی ڈانگ"
۔ نیدو: "ابے اتنی لمبی ڈانگ جو آسمان کے تاروں کو چھو سکے، اسے رکھیں گے کہاں؟"
 پُھلا:   تیرے دادے کی کھرلی میں"۔


یہ قند مکرر   فری آفر والا۔
فرنی:   میرے پڑدادا کی گھڑی دریا میں گر گئی۔ سو سال بعد نکالی اسی طرح چل رہی تھی۔
کھیر:  میرے  دادو  دریا میں گر گئے تھے۔ سو سال بعد نکالے اسی طرح زندہ سلامت۔
فرنی:  تیرے دادو  دریا میں سو سال کیا کرتے رہے؟
کھیر:  تیرے پڑدادا کی گھڑی کو چابی دیتے رہے۔


سیاسی جماعتوں کے حامی کاکوں ،کاکیوں کا حال بھی ایسا ویسا ہی نہیں؟

Wednesday, May 1, 2013

پیرا کوئی تعویذ لکھ دے

پیرا کوئی تعویذ لکھ دے، کوئی ایسی دواکر پیرا، میرا وچھڑیا ڈھول ملا پیرا، کیہڑا مل لگدا اے تیرا...


کسی گائوں میں ہفتہ وار ڈاکے پڑنا شروع ہو گئے۔ڈاکو ہر ہفتے ترتیب سے ایک ایک گھر لوٹتے اور تمام مال و اسباب لے جاتے۔ آخر میں دو چاار گھر باقی بچے، آخری گھر والوں کو اپنے لالے پڑے تو وہ اپنے "پیر" کے پاس گئے اور عرض گزار ہوئے "سرکار کوئی حل، کوئی وظیفہ، کوئی دعا، دارو، کوئی تعویذ عطا ہو ، تا کہ ہم اس مصیبت سے بچ جائیں"۔ سرکار نے فرمایا اپنے گھر میں ہتھیار رکھو، کوئی چاقو، چھری، کوئی کلہاڑی، کوئی بندوق، پستول، خوفزدہ مریدوں نے عرض کیا۔ "حضرت ڈکیت بہت خطرناک ہیں، وہ جان لینے سے بھی گریز نہیں کرتے، اور ایسے سر پر پہنچتے ہیں کہ خبر بھی نہیں ہوتی۔ پیر جی نے فرمایا۔ " بابا کسی  گلٹیری کو پال لو، کوئی بھگیاڑی کُتا  رکھ لو، آنے جانے والے کی خبر ہو جایا کرے گی اس کے بھونکنے سے۔۔ مریدوں نے پیر صاحب 
کے پائوں پکڑ لئے،  اور لگے عقیدت و ارادت سے گڑگڑانے " سائیں سانوں کچھ پتا نہیں! سرکار تُسئ ساڈے گلٹری، تسی ای ساڈے بولھی، تسئ بھگیاڑی، جو کج کرنا تُسی ای کرنا اے""


ہون ایہنوں پڑھو!



Flickr