Friday, July 12, 2013

یا ابن تاشفین

اس بوڑھے کی نیند اڑی ہوئی تھی۔ روح کی بے چینی آنکھوں سے عیاں تھی۔ دل کا کرب ماتھے کی سلوٹوں سے کوند رہا تھا۔ جب سے اسے خبر ہوئی  تھی کہ ظالم الفانسو نے اس کے کلمہ گو بھائیوں کی بستیاں اجاڑ دی ہیں۔ مائوں  کی چادر یں، بہنوں کی ردائیں اور بیٹیوں کےآنچل محفوظ نہیں۔ بزرگوں کی پگڑیاں اچھل رہی ہیں اور نوجوانوں کو زبح کیا جا رہا اس کا چین آرام سب اتھل پتھل تھا۔
جس عمر میں قوی مضمحل ہوتے ہیں۔ عمر بھر کی تھکاوٹ چہرے کی جھریوں سے عیاں ہو رہی ہوتی ہے۔ گھوڑے کی پیٹھ کی بجائے نرم بستر کی گرمائش دل کو بھاتی ہے۔ وہ اپنے روحانی جد ابن  زیاد کی پیروی میں  ٹھنڈے ٹھار موسم کا سامنا کرنے سمندر پار جا پہنچا۔
وہی جبل الطارق جہاں چار صدیاں قبل  مٹھی بھر جانبازوں نے موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر  کشتیاں جلائی تھیں اور تاریخ عالم کو ورطہ حیرت میں گم کیا تھا۔ وہی اندلس جس کے مرغزار اور حسین وادیاں چار سو سال سے مسلمان مجاہدین کے گھوڑوں کی ٹاپوں سے  بہت مانوس رہے تھے ۔   لیکن اب انگور کے  خوشوں کی لذت، اندلس کے ٹھنڈے میٹھے چشموں کے پانیوں کا لطف، لانبی گھنیری زلفوں کی چھائوں اور مرغزاروں  میں جھلنے والی باد نسیم نے طارق بن زیاد کے روحانی جانشینوں کو خوابیدہ کر دیا تھا۔
شیرازہ خلافت بکھر چکا تھا۔ سلطنت اندلسیہ زوال پذیر  اور   مسلم علاقے عیسائی حکمرانوں کے باج گزار بن کر رہ گئے تھے۔ بٹی ہوئی مسلم ریاستیں الفانسو کے لئے تر نوالہ ثابت ہو رہی تھی۔ اک ایک کر کے عیسائی فرمانروا ،  اسلامیوں کے علاقے ہڑپتا جا تا۔ اور مسلمان حکمران اپنے آپ میں مگن۔ مرد کوہستانی کی نایابی پر قدرت نے بندہ صحرائی کو چنا۔قشتالہ کا الفانسو  ایک لاکھ بیس ہزار کا ٹدی دل لشکر لے کر  مسلمانوں کی حکومت کو نیست و نابود کرنے کے ارادے سے نکلا۔ ۔   ادھر چھہتر سالہ شیر اپنے بیس ہزار لشکریوں کی ہمراہی میں محاز کی جانب لپکا۔   آسمان کتنی بار امتحان لے چکا۔ اللہ کے شہروں کو کبھی روباہی نہیں آئی۔ ایک سات پر بھی بھاری رہا۔ اب کی بار بھی عرصہ امتحان کا تھا۔ ایک کے مدمقابل چھ۔ 
باداجوز کے مقام پر میدان سجا ہوا تھا ۔ الفانسو  کو  ابن تاشفین کا پیغام بھجوایا جا چکا تھا۔  اللہ کی بندگی میں آ جائو۔ جزیہ دو یا  پھر  فیصلہ میدان میں ہو گا۔الفانسو تو اس سے قبل  ہی اپنا  سندیسہ بھجوا چکا تھا۔ جب اس نے تکبر اور نخوت کی سیاہی میں قلم ڈبو کر خط لکھوایا تھا۔ " میرا مقابلہ تم کیسے کر سکتے ہو۔ خود خدا بھی فرشتوں کو لے کر زمین پر اترے تو مجھ سے شکست کھا جائے"۔ اور جوابا  مسلم  سپہ سالار نے خط کے پیچھے فقط اتنا لکھنا گوارا کیا۔ میدان سجائو۔ جو زندہ رہا دیکھ لے گا۔"
سو الفانسو نے حملہ کر دیا۔
آفتاب  بادلوں کی اوٹ سے تلواروں کی چمک اور جند اللہ کے جانبازوں کے چہروں کی دمک دیکھ رہا تھا۔  حزب الشیطان کی قوت کا کوئی تول نہ تھا۔ لیکن اللہ کے شیر اپنے جذبوں کو کندن بنائے، اپنے رب سے اجر عظیم کی امید میں حوصلے جواں کئے مقابلے میں آ گئے۔ اسلامیوں کا لشکر دو حصوں میں تقسیم تھا۔  الفانسو کا سامنا پہلے گروہ سے ہوا ۔ عباد ثالث المعتمد کی قیادت میں اندلسی فوجوں نے اپنے جوہر دکھانے شروع کئے۔  مسلمان مجاہد ایک ایک کر کے کٹ رہے تھے۔ مخملیں گھاس سے مزین زمین لہو سے تر ہوئی جا تی۔ گھوڑوں کی ہنہناہٹ، تلواروں کی جھنکار اور جنگی نعروں سے سرد موسم میں بھی ماحول آتشیں تھا۔  پھر مسلمانوں کے قدم پیچھے ہٹنے شروع ہوئے۔ لشکر اسلام میں سراسیمگی پھیلنے لگی۔  جوں جوں سورج  کی تپش بڑھ رہی تھی۔ عیسائی فوج کی یلغار میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔  فلک  چپ سادھے دیکھ رہا تھا۔ چار سو سال بعد اندلس مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل کر ظالموں کی جھولی میں گرنے والا تھا۔ تاریخ کا دھارا بدل ہی جاتا لیکن اللہ کی تدبیر کچھ اور ہی ہوتی ہے۔ یوسف بن تاشفین افریقہ کے تپتے صحرائوں سے اٹھ کر سمندر پار  سیاحت کو ہر گز نہ آیا تھا۔ بصیرت سے معمور اس مجاہد نے جب دیکھا کہ دشمن کی فوج فتح کے نشے سے مخمور ہوئی جا رہی ہے۔ اور تھکن سے چور مزید جنگ لڑنے کی آرزو مند نہیں۔ اس نے اپنے لشکر کو حملے کا حکم دیا۔ تازہ دم اسلامی بجلی کی سی لپک سے میدان میں موجود اپنے بھائیوں سے جا ملے۔ پھر جذبے تلواریں بن گئے۔ حوصلے نیزوں کی طرح دشمن کے سینوں میں پیوست ہونے لگے۔ چشم فلک نے یہ منظر بھی دیکھا کہ ایک ایک مجاہد نے  بیس بیس دشمنوں کی گردنیں ناپ لیں۔ لشکر کا سالار خود بھی چھپٹتا، پلٹتا، پلٹ کر چھپٹتا اور  مجاہدین کا لہو گرماتا جاتا۔ اس بوڑھے  مجاہد کی تلوار بجلی کی طرح کوند رہی تھی۔ اس کے دل و دماغ میں وہی الفاظ گونجتے۔"اے رب کریم  اگر تیرے مٹھی بھر نام لیوا مٹ گئے تو پھر اس سر زمین پر تیرا نام لینے والا کوئی نہ ہو گا۔" اسے قلیل شیروں کے ساتھ ہزارہا بھیڑیوں کو قابو کرنا تھا۔    وہ  لڑائی کے عین بیچ گھوڑا دوڑاتا جاتا اور اپنے مجاہدوں کو پکار پکار کر آگے بڑھنے کی تلقین کرتا۔    کشتوں کے پشتے لگتے رہے۔ لہو بہتا رہا۔ الفانسو کے لشکری کٹ کٹ کر گرتے رہے۔ نئی تاریخ رقم ہوتی رہی۔   مسلمانوں کے ہاتھ سے پھسلتا اندلس بہادروں کے مضبوط حصار میں تھا۔ مورخین نے اس میدان کو  "زلاقہ"  (پھسلن والی زمین۔ خون کے بہنے کی وجہ سے  لشکریوں کا زمین  پر قدم جمانا مشکل  ہو رہا تھا) کا نام دیا۔  لیکن الفانسو کے ہاتھ ایک کامیابی لگی۔ وہ اپنی ایک کٹی ٹانگ اور پانچ سو وفاداروں کے ہمراہ بھاگنے میں کامیاب ہو گیا۔ یوسف بن تاشفین  کی حوصلہ مندی اور مجاہدین کے جذبے نے تاریخ کے پہیے کو چار صدیوں کے لئے روک دیا۔ چار سو سال اندلس کی چوٹیوں پر مسلمانوں کا پھریرا لہراتا رہا۔ ایک مجاہد رہنما کی بے آرامی کی بددولت مسلمانان اندلس چار سو سال سکون کی نیند سوتے رہے۔

Tuesday, July 2, 2013

اچھو ان جدہ

ہیں جی!  اور گڈی شٹارٹ۔
۔ سفید موتیوں والے دندان ، چم چم لشکارے مارتے سامنے  بندے کو دندان شکن جواب دینے میں کام آتے۔  شخصیت کا پہلا "سفید"  تاثر یہی تھا۔ اپنا رنگ تو جوں چراغ تلے ہوتا ہے۔ لیکن اتنا بھی گہرا نہیں زرا سرمئی سا۔ مناسب سی رفتار سے دھیمے انداز کی گفتگو۔ لیکن ٹو  دی پوائینٹ، یہ اور بات کہ پوائینٹ  " اسلامآبادی  زیرو پوائینٹ سے لے کر  سرائکی  ملتان " تک پہنچ جائے۔ ملتانی مٹی اور چینی ظروف کمال کا سنگم  تھا  ۔ بتلانے لگے کہ چین میں کھلونوں کا کاروبار ہے۔ حد ادب مانع رہا ، ورنہ پیٹ میں مروڑ اٹھتے ہی رہے کہ عرض گزار ی کروں۔ "حضرت کھلونے بچوں کے یا بڑوں والے!"
اس سے قبل کئی سال صحرائے نجد کی خاک چھانی، حیرت ہے گرمی اور گردا  تو ملتان میں بھی مل جاتا۔ عرب کی آب و ہوا کا اثر ہے کہ عربی فر فر بولتے ہیں۔ فون پر کسی سے گفتگو فرما رہے تھے اور ناچیز کو پی ٹی وی  کا رات بارہ بجے "الاخبار" پڑھنے والا یاد آ گیا۔
لیکن بولنے سے  بھی زیادہ سمجھتے ہیں۔ اسی لئے اردو خوانوں کو عربوں کی سمجھداری گھول کر پلاتے ہیں۔
گول مٹول  زرا چھوٹے سے،  دل ہی دل میں شکر ادا کرتا رہا کہ محفل میں کوئی تو کسی حساب میں مجھ سے کم  ہے۔
بندہ    سکول   بیٹھا نہیں  ، واقعی پڑھا ہے۔  بات چیت میں "میتھ میٹکس"  کی مشقوں جیسے مثال بھی لازمی ساتھ ہوتی۔  بہت مددگار اور کام آنے والے انسان ہیں۔ فون میں موجود  تمام تصاویر میں حضرت  ،خواتین کو سہارا دیتے نظر آ رہے تھے۔   جناب  ظاہرا  دیسی اسٹائل ہونے کے باوجود  صنف نازک کو بہت احترام بخشتے۔  ۔ حتی کے کھانے میں بھی   مونث  "بھنڈی"  پسندفرماتے۔
آدمی    محنتی نظر آیا اور اس کا سب سے بڑا ثبوت ہر پانچویں مہینے مکہ کا چکر ہے۔ پانچ مہینوں میں "نو سو" کی گنتی  مکمل کرنا خالہ جی کا گھر تو نہیں ناں! اب معلوم نہیں یہ "چینیوں" کی صحبت کا اثر ہے یا بچپن کی عادت۔
جدہ کے موسم سے بخوبی آگاہی تھی، تبھی سفید ساٹن کا کی کھلی ڈھلی شلوار قمیص پہن رکھی تھی۔ تا کہ ہوا لگتی رہے۔   اپنے کپڑے یقینا دھوبی کے پاس رکھ چھوڑے ہوں گے۔
آئی فون کے علاوہ  چوتھی سفید ی ان کی ریش میں تھی۔ باریش اور بے ریش کے بین بین "بی ریش" ٹائپ کی۔ اور اس کے متعلق  توضیح بھی فرمائی کہ یہیں تک ہے ۔ چینی حدود میں داخلے  کے وقت رگید دی جائے گی۔ وہاں کی  عوام کو شاید باوقار چہرہ پسند نہیں یاموصوف  دوستوں کی چھبن کا خیال کرتے ہیں۔
جی دار اور پر مزاح ، ہر بات پر مسکرانا لازمی سمجھتے ہیں ،   رونے والی بات پر قہقہ لگاتے ہیں۔
گھر والوں کا ایک آدھ بار زکر خیر فرمایا جیسے جیل سے چھوٹا قیدی جیلر کو یاد کرے۔

مسکین سی شکل بنائے سامنے بیٹھے ملتانی  اچھو کے ماتھے پر صاف لکھا تھا۔  سیدھا اور سادہ  ، تیسری ملاقات میں لاکھ  دو لاکھ  ادھار مانگ لو۔ روپے ملیں نہ ملیں ، ناں! نہیں ہو گی۔ 

Flickr