Thursday, December 5, 2013

بکروالی آتی ہے؟

یاد آیا رفحا (عراقی سرحد کے ساتھ سعودیہ کا ایک شہر)  میں ایک لڑکا نیا آیا پاکستان سے، اس کا چاچا ساتھ لایا تعارف کو۔  اقامہ بننے میں دیر تھی میرے پاس آ جاتا ھٹی پر گپ شپ کو، یہ نیت بھی رہتی کہ کچھ یہاں کے ماحول کا علم ہو جائے گا، زبان کا ٹانکا درست ہو گا۔  کچھ دن آیا اور پھر غائب، بہت دنوں بعد دوبارہ شکل دِکھی تو پوچھا! بھیا کدھر گم تھے۔ کہنے لگا اپنے جاننے والوں میں سے کچھ رنگسازی کا کام کرتے ہیں وہ ساتھ لے جاتے تھے کام پر کہ کچھ خرچہ پانی بنا لو اپنا۔ پھر! کیا ہوا۔ ہونا کیا تھا۔ سارا دن  دیواریں کھرچ کھرچ ہاتھ چنڈیا گئے، کمر دوہری ہوئی جاتی اور باتیں الگ۔ پھر بھی جی کڑا کر ہفتہ دس دن نکال لئے کہ بیکار سے بیگار بھلی، لیکن کل حد ہی ہو گئی۔  وہ اکتایا ہوا لگ رہا تھا۔
کیا ہوا؟ میں نے اشٹوری میں حصہ ڈالا۔ دیوار رگڑتے ہوئے کچھ رنگ باقی رہ گیا تو ایک بولا "  اوئے  دیکھو کمپوٹر انجینیر، سولہ سال کیا پڑھا ، تمہیں کسی نے ریتی مارنی نہیں سکھائی"

اور مامے کا قصہ!
ماما پانچویں  کا  امتحان دے کر فارغ تھا جب اک دن فوجے کے ساتھ بکریاں چرانے "ٹاکے" گیا۔ سارے محلے کی مل ملا کر پچیس تیس بکریاں اور دو  بکروال۔ فوجا آوازیں لگا لگا بکریوں کو ھنکا رہا تھا۔ جب کہ مامے کی طرف سے  کوئی نہ کوئی بکری جُل دے کر کبھی ادھر کو نکلے کبھی اُدھر کو بھاگ جائے۔
فوجا تنک کر بولا!
"پنجویں ناں امتیان دتا ای سہ تے بکریاں موڑنیاں اجے کوئی نو آئیاں۔ سکول ماسٹر کے پڑھانے نی"

پانچویں کا امتحان دے رکھا اور بکریاں چرانا نہیں آیا۔ اسکول ماسٹر کیا سکھاتے ہیں"

Flickr