Saturday, April 5, 2014

صحرا کا پھول

سنتے ہیں کہ نجد کے صحرا میں عشق کا پھول کھلا تھا۔  سینہء قیس میں۔ جو زلف لیلی کا اسیر تھا۔
کتنے ہی مائوں کے لال اس عشق نے بے حال کئے اور ایسے بھی   اہل بصیرت کو   دِکھے  جو اسی عشق کی بدولت  مالا مال ہو گئے ۔
عشق!  لیلائے شہادت کا، محبت دین الہی کی، تڑپ میدان جہاد کی۔
ایسے عشاق بھی گزرے جن کے  لئے  ہی کہا گیا
آ کے سجادہ نشیں قیس ہوا میرے بعد
نہ رہی دشت میں خالی کوئی جا میرے بعد
نجد کا وہ شہزادہ بھی کچھ ایسی ہی داستان سرائی میں مشغول تھا۔
صحرا کے بیچوں بیچ کھجوروں کا وہ باغ، چاندنی رات کا رومان پرور منظر،  ریت کو چھو کر آتی مست ہوا کے جھونکے اور اس پر اس کا بیان اللہ اللہ!
وہ کہے جا رہا تھا اور  میں محو سماعت تھا۔


""عرق انفعال اس کی کشادہ جبین پر چمک رہا تھا۔ آنسو موتی بن بن   ریش ، رخسار کو بھی منور کر رہے تھے۔  توبہ استغفار، آہ و فغان، ہچکیاں اور سسکیاں، اس کا بدن کانپ رہا تھا۔ وہ اپنے چہرے کو ہتھیلیوں میں چھپائے التجائیں کر رہا تھا، دعائوں کو لبوں سے   جدا کر رہا تھا۔ اس کی خوشبودار بھیگی  سیلی گیلی  سرگوشیوں میں مناجات کی چمکیلی رنگت صاف دکھتی۔ حرم پاک کے پاکیزہ، باوقار ماحول میں جہاں دل جلال الہی سے  نگوں   اور سینے  انوار سے پُر  ہوتے ہیں۔ وہ رکن یمانی کے عین سامنے
ایک ستون کی آڑ میں کعبہ رخ دوزانو بیٹھا  بید مجنوں   سا   لرزاں تھا
جمعہ کا مبارک دن اور مکہ مکرمہ کی پاکیزہ سرزمین، ایک جم غفیر کہ امنڈا چلا آ رہا۔  فلک بوس عمارتوں کے سایوں سے نکل کر سفید سنگ مرمر  کی سلوں پر قدم رکھتے ہی بندے کی تمام تر عاجزی اور انکساری کے جذبات احاطہ کئے ہوئے محسوس ہوتے۔دل  کی زمین خود بخود نرم ہو جاتی ہے ایسے میں ایمان کی کونپلیں پھوٹتے دیر نہیں لگتی۔  ایقان اپنے اوج تک جا پہنچتا ہے اور انسان کے سینے میں حق  سانسوں کی جا ، جاری ہوتا ہے۔
"عبدلوہاب رح"   کا محلے دار   اپنا  مافی الضمیر بیان کر رہا تھا۔ اس کی کوشش تھی کہ الفاظ آسان تر اور  عام فہم ہوں تا کہ مجھ سے نابلد کو تفہیم میں مشکل پیش نہ آئے۔ لیکن جذبات کا بہائو اور احساسات کے تیز جھونکے اس کی  زبان کو  فصیح و بلیغ  عربی میں کھینچ لے جاتے۔  اور میں اس کے " بھائو تائو  کو ماپتے، اس کے اشارے کنایوں اور رموز کو  پرکھتا اس کا مطلب سمجھنے کی کوشش کرتا۔
وہ  دیار عبدلوہاب کا باسی کہہ رہا تھا
" میری اس کی پہلی ملاقات  وہیں ہوئی تھی حرم مکی میں، عین کعبہ کے سامنے۔  وہ کتنی ہی دیر روتا رہا۔ اور میں اس کے پروقار چہرے کو حیرت سے تکتا رہا۔ ایسے بھی نوجوان ہوتے ہیں!! ایسے بھی مسلمان ہوتے ہیں!!
تھکاوٹ سے چور میں  کچھ دیر آنکھ لگانے کے ارادے سے لیٹا ہی   تھا، جب اس پر نظر پڑی اور آنکھ وہیں اٹک گئی تھی۔
کتنی گھڑیاں گزر گئیں، اور میں ٹک دیدم اس کا دیدار کرتا رہا۔   اس نے  ہتھیلیوں سے اپنا چہرہ صاف کیا اور اٹھ کر میری طرف مُڑا  ، میں نظریں چرانے لگا اس کے معصوم چہرے پر مسکراہٹ پھیلی  اور  مجھے سلام کر کے اپنا سامان اٹھانے  کی اجازت طلب کی۔  اس کا تھیلا میرے سر تلے دبا تھا۔
پھر وہ  بابِ فہد سے  باہر کی جانب چل دیا۔  میں سوچوں میں گم، اک عجیب کیفیت میں تھا۔ اس  کی آنکھوں سے جھلکتی کُڑھن، اس کی ھچکیاں، آنسوئوں سے تر چہرہ، اس کا لرزیدہ بدن اور اس پر طاری وجد بار بار میری نظروں کے سامنے آتا رہا۔ میرے دل میں اللہ نے اس کی محبت پیدا فرما دی۔  میں کتنی ہی دیر اس کے لئے دعا کرتا رہا۔ اور شاید زندگی میں پہلی بار مجھ گنہ گار کو  "دعا کی قبولیت" کا احساس ہوا۔   دو چار دن میں اس  کے خیال میں ڈوبا رہا اور پھر شب و روز کے بکھیڑوں میں اس کی یاد کہیں زہن  کے نہاں گوشوں میں تہہ ہو کر رہ گئی۔
عبدلوہاب رح کا پڑوسی  بولتے بولتے رُکا، جوں  دور دیکھ رہا ہو۔ پھر اچانک مجھ سے معذرت خوانہ لہجے میں کہنے لگا ۔
"یار میں اپنی رو میں بہہ رہا تھا۔ آپ کو سمجھ لگ رہی ناں"
آپ کہتے رہئے  بندے کو سمجھنے سے زیادہ سننے میں لطف محسوس ہو رہا"
میں نے اس کے احساسات کی لطافت کے بارے  خیال کرتے ہوئے کہا۔
وہ پھر گویا ہوا۔

""حسین اتفاق ایسے ہی ہوتے ہیں ! زی الحج، مطاف کعبہ میں ایک بوڑھا ایرانی جوڑا   تکبیر کا ورد   کرتے  طواف کر رہا تھا۔  انتہائی ضعیف  و نخیف بابا وہیل چئیر  پر  بیٹھا تھا اور مائی بمشکل اسے دھکیل رہی تھی۔   مجھے اچھا نہ لگا اور میں نے اشاروں سے سمجھا کر کرسی کی ہتھی اپنے حساب میں کر لی۔ شدید گرمی میں  پسینے  پھوٹ رہے تھے اور  میں تیسرے چکر میں ہی ہانپنے لگا۔  مقام ابراہیم سے زرا آگے کسی نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ اتنی بھیڑ میں یہ معمولی بات  ہوتی ہے۔ لیکن جب اس ہاتھ میں سے اپنائیت و محبت کی لہروں نے میرے دل پر دستک دی تو مجھے مُڑ کر دیکھنا پڑا۔ وہی نوجوان میرے زہن کی غلام گردشوں میں سفر کرتا میری آنکھ کے دریچوں سے جھانک رہا تھا۔  جی وہی رکن یمانی کے سامنے والے ستون کے پیچھے ھچکیاں لینے والا نوجوان۔
اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔ "اخی تھک جائو گے۔ مجھے پکڑائو، اور پھر وہ ایرانی جوڑے کو طواف کرانے لگا۔ میں بھی اس کے  ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔
اور یوں ہمقدم ہو گئے۔ حج کے تما م ایام مجھے اس کا ہمسفر بننے کی سعادت حاصل ہوئی۔  اس کا اخلاق مثالی تھا، اس کی مسکراہٹ نرالی تھی۔ اس کا  لہجہ محبت و موددت سے لبریز ہوتا اور اس کا ہر انداز انکساری والا تھا۔ وہ  ہر اس دل میں گھر کر جانے والا تھا جو اس کی رفاقت میں چند گھڑیاں گزار لیتا۔ اور میرے دل میں اس کی عزت و عظمت بڑھتی ہی چلی گئی۔  اس کی صحبت کا فیض مجھے مل رہا تھا۔ میرا دل بدل رہا تھا
( میرے زہن میں آیا
چنگے بندے دی صحبت جیویں دوکان عطاراں
سودا بھانویں مل لئے نہ لئے
چلہے آن ھزاراں)

حج کے بعد مدینہ منورہ کو ارادہ تھا، اس نے اپنے ہمراہ چلنے کی دعوت دی اور اس کی زبان میں ایسی حلاوت تھی کہ انکار ہو نہیں سکتا تھا۔ سو میں اس کے ساتھ ہی مکہ مکرمہ سے مدینہ کو چل نکلا۔
بیت عتیق سے لے کر میدان عرفات اور  منی ومزلفہ  سے غار حرا تک اس اللہ کے ولی نے میرے زہن میں انقلاب برپا کر دیا تھا۔ توحید کیا ہے، اللہ کون ہے، انسان کا  منصب کیا ہے اور فریضہ کیا،  دعوت حق کا طریق کیا اور تبلیغ دین کا   سلیقہ کیا۔ مکہ مکرمہ میں گزری نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی حیات مبارکہ کا ایک ایک لمحہ اس  مدینے کے شہزادے نے یوں بیان کیا کہ  میرے سامنے سارے منظر عیاں ہوتے چلے گئے۔
پھر وہ  مجھے لے کر  باغوں والی سرزمین کی جانب ہو لیا۔  میں اس کے پیچھے پیچھے "یہ میرا ھادی ہے"
ابو بکر رضی اللہ عنہ کفار کے پوچھنے پر  نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے متعلق فرماتے تھے۔  میرا  زہن و دل بھی  ابی بکر رضی اللہ عنہ کی سنت پر عمل پیرا تھا۔ وہ مجھے مکہ سے مدینے کو لئے جا رہا تھا اور میں ایک ٹرانس میں چل چلا چل۔
وہ   راہ کی منزلوں کا تعارف کراتے جاتا۔
اور پھر مدینہ آ گیا۔ منور و تاباں،
اور میں اس کی معیت میں اس سرزمین پاک پر  اس انداز میں گھوما کیا جوں اولیں بار ہو!
""
میں اپنے نبی کے کوچے میں
چلتا ہی گیا چلتا ہی گیا
اک خواب سے گویا اٹھا تھا
کچھ ایسی سکینت طاری تھی""
جب مسجد نبوی کو دیکھا
میں روضہء جنت میں پہنچا
جس جاء و مبارک چہرے کو
اشکوں سے اپنے دھوتا تھا
جب دنیا والے سوتے تھے
وہ ان کیلیے پھر روتا تھا
اک میں تھا کہ سب کچھ بھول گیا
اک وہ تھا کہ امت کی خاطر
کتنے صدمے اور کتنے الم
جھلتا ہی گیا جھلتا ہی گیا
میں اپنے نبی کے کوچے میں
چلتا ہی گیا چلتا ہی گیا
طائف کی وادی میں اترا
طالب کی گھاٹی سے گزار
اک شام نکل پھر طیبہ سے
میدان احد میں جا بیٹھا
واں پیارے حمزہ کا لاشہ
جب چشم تصور سے دیکھا
عبداللہ کے شہزادے کو
اس دشت میں پھر بسمل دیکھا
یہ سارے منظر دیکھ کے پھر
میں رہ نہ سکا کچھ کہہ نہ سکا
بس دکھ اور درد کے قالب میں
ڈھلتا ہی گیا ڈھلتا ہی گیا
میں اپنے نبی کے کوچے میں
چلتا ہی گیا چلتا ہی گیا
میں کیا منہ لے کر جائوں گا
کوثر کی طرف جب آئوں گا
تلوار میں میری دھار نہیں
وعظ و اصلاح سے پیار نہیں
باتوں میں میری سوز کہاں
آہیں میری دلدوز کہاں
کتنے ہی پیماں توڑ چکا
میں رب کی یادیں چھوڑ چکا
ایک ایک میرا پھر جرم مجھے
کھلتا ہی گیا کھلتا ہی گیا
میں اپنے نبی کے کوچے میں
چلتا ہی گیا چلتا ہی گیا
پھر لوٹ کے جب میں گھر آیا
اک شمع ساتھ ہی لے آیا
یہ حب سنت کی شمع
جس دن سے فروزاں کی میں نے
اس دن سے میں پروانہ بن کر
جلتا ہی گیا جلتا ہی گیا (احسن عزیز)
ہر  نماز کے بعد، ہر موقع پر میرا بھائی دعا کرتا، ایسی رقت آمیز دعا ، اسی لفط و اثر والی دعا اور ایسی خلوص و جوش والی دعا کہ دل کہتا قبول ہوئی ان شاء اللہ۔   اور پھر میں اسی کے ہمراہ طواف کے لئے مکہ کولوٹا۔
اک بار پھر  ""عرق انفعال اس کی کشادہ جبین پر چمک رہا تھا۔ آنسو موتی بن بن   ریش ، رخسار کو بھی منور کر رہے تھے۔  توبہ استغفار، آہ و فغان، ہچکیاں اور سسکیاں، اس کا بدن کانپ رہا تھا۔ وہ اپنے چہرے کو ہتھیلیوں میں چھپائے التجائیں کر رہا تھا، دعائوں کو لبوں سے   جدا کر رہا تھا۔ اس کی خوشبودار بھیگی  سیلی گیلی  سرگوشیوں میں مناجات کی چمکیلی رنگت صاف دکھتی۔ حرم پاک کے پاکیزہ، باوقار ماحول میں جہاں دل جلال الہی سے  نگوں   اور سینے  انوار سے پُر  ہوتے ہیں۔
ایک ستون کی آڑ میں کعبہ رخ دوزانو بیٹھا  بید مجنوں   سا   لرزاں تھا۔ میں اس کی دعائوں پر امین کہہ رہا تھا،  اس نے افغانستان سے صومال اور شیشان سے سوریا تک  آفیت طلب کی۔ کشمیر سے گجرات تک خیر مانگی۔ برما سے   افریقہ تک امت کی بھلائی کا سوال کیا۔  اور میں گم سم  یہ سوچتا رہا، کاش اس اللہ کے والی جیسا اک لمحہ مجھے میسر ہو جائے، اک ھچکی ایسی ہی میری بھی بندھے، اک آہ میرے لبوں سے اسی طرح کی پھوٹے، اک پھانس سینے میں ایسی ہی چھبے، اک درد رگوں میں ایسا ہی جاگے۔ میرے جگر میں بھی امت کا   ااثر کرے۔ کاش اک آنسو میری پلکوں سے ڈھلک جائے، کاش اک دعا اسی خلوص سے میرے حلق سے بھی وا ہو اور میرا بیڑا پار ہو جائے""
"مجھے بھی اس کی زیارت کرائو ناں!
میں اتنی دیر بعد بے تابانہ بولا۔
"ہمم اس کے لئے وہاں جانا پڑے گا"
اس نے  ایویں آسمان کی جناب ہاتھ اٹھا دیا۔
"کہاں" میرا دھیان کہیں اور تھا۔
"جنتوں میں"
او ، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ کب؟
میں نے   دل کی گہرائی میں درد کی ٹیس محسوس کی۔
" کچھ  ہفتے قبل وہ ر ب رحمان سے کیا وعدہ نبھا گیا"
وہ مسکرایا۔ " ایسی جدائی کے درد میں بندہ رو بھی نہیں سکتا کہ  انعامِ شہادت کی ناقدری ہوتی"
  
کوئی شب گزیدہ مرغ  نور تڑکے کے آثار قریب دیکھ کر بانگ دینے لگا  اور میں  اس نجد زادے کی عین الیقین سے پُر نظروں میں سحر زدگی سے دیکھے جا رہا تھا۔
ستاروں کی تنک تابی  نوید صبح روشن کی نوید سنا ر ہی تھی۔     ہم نے اٹھ کر قریبی کھال میں وضو کیا ۔  تہجد پڑھی اور میں نے اسے عرض کیا۔ بھیا! دعا مانگو۔ وہ دعا کرنے لگا۔  سسکیاں نکلیں۔ پھر  اس کی ھچکیاں بند گئیں۔ آہیں بلند ہونے لگیں۔ سینہ دھونکنی کے جیسے چلنے لگا آواز میں سوز اور درد تھا  اس نے سب مانگ لیا  ،اس سے اسی کو، پھر  خاموشی چھا گئی۔ طویل خاموشی۔   اور میں تہی دامن   کہ وہن زدہ ،  میرا جی جلنے لگا۔ میں چپ چاپ  سوچے جا رہا تھا
"کاش اک لمحہ اس جیسا مجھے بھی عطا ہو جائے۔ اے کاش ایسا درد میرے دل میں بھی اٹھے، ایسی ٹیس میری روح میں بھی پیدا ہو، ایسا سوز مجھے بھی ملے، ایسا   اک آنسو میرے رخسار کو بھی چومے، ایسی اک ہچکی میری بھی بندھے، ایسی تڑپ مجھے بھی ملے۔ ایسی ہی پھانس میرے سینے میں اٹکے۔  اے کاش کہ وہ دعا میں میرا نام لے کر کہہ دے۔
تہِ شمشیر یہی سوچ ہے مقتل میں مجھے
دیکھیے اب کسے لاتی ہے قضا میرے بعد




Saturday, March 15, 2014

سیانا کسان!

"قد افلح" کی کھیتی کب لہلہاتی ہے! جب بنجر سینے پر ضرب کلیمی کا اثر ہوتا ہے۔ قد افلح کا پرنور سبزہ کب پھوٹتا ہے! جب حب جاء والی سوکھی زمین پر زکر الہی سے انوار کی بارش ہوتی ہے۔ قد افلح کا بیج کب بویا جاتا ہے! جب دلوں سے ہر "غیر" جھاڑ جھنکاڑ صاف کر دیا جائے۔ قد افلح کا موسم کون سا! جب سردیوں میں وضو کے پانی سے کپککاہٹ طاری ہو جائے، جب گرم دوپہروں میں مسجد کو جاتے پسینہ شرابور کر جائے، جب رات کی گھنی تاریکی میں رب کی پکار لگے۔جب کبھی خشیت الہی سے آنکھیں جھڑی بن جائیں۔جب کبھی حب الہی سے چہرہ تمتما اٹھے۔ بھری جوانی کی تمام تر رعنائیوں میں، بڑھاپے کی ساری کمزوریوں میں، جب اعضاء جوارح کانپنے لگیں، جب ہوش جانیں لگیں۔ قد افلح کا موسم باقی رہتا تا وقتیکہ توبہ کا در نہ بند ہو جائے۔ قد افلح دنیا سے بے نیازی میں، قد افلح واحد لاشریک کے سامنے عجز اختیار کرنے میں، قد افلح جب سنت رسول کے سوتوں سے سیرابی قلب ہوتی ہے۔ قد افلح ۔ فلاح ملتی ہے اس فلاح کو جو کھیتی کو تیار کرنے میں تساہل نہ برتے، کھیتی لہلہاتی ہے اس کسان کی جو زمین کا سینہ چیرنے میں کوتاہی نہ دکھائے، جس کے ہل کے پھل تیز رہیں، جس کی زمینوں کی سیرابی بروقت ہو، جس کی فصل میں فالتو جڑی بوٹیاں نہ ہوں۔ جس کی حسیں تیز تر ہوں موسموں کے بدلنے سے قبل، وقت کے ڈھلنے سے پہلے جو بوائی کر لے۔ فلاح پاتا ہے وہ کاشکار جو
ناہموار زمین کو سیدھا کر لے، جو اونچے نیچے ٹیلوں کو نرم بنا لے، جو جھا ڑ جھنکار کو ختم کر لے۔ کامیاب ہوتا ہے وہ زمیندار!! فلاح ملتی ہے اس کاشتکار کو! قد افلح کی خوشخبری ہے اس جاگیردار کے لئے! جس نے اپنی زمین "پٹواریوں " سے بچا لی۔ جس نے اپنے کھیت گرداورں سے محفوظ کر لئے، جو اپنے قطعے "محکمہ مال" کی ہیرا پھری سے بچا پایا۔ جو شریکوں کی دست درازیوں سے اپنے کھلیانوں کی حدود کی حفاظت کر سکا۔ قد افلح جس نے اپنی زمینوں کے لئے سینے پر زخم لگوائے، قد افلح جس نے اپنی محنت بچانے کو لاٹھی اٹھائی، قد افلح جس نے اپنی فصل کی حفاظت خاطر سینہ تانا، قد افلح جس نے غیرت کھائی، قد افلح جس نے اپنی اولاد کے حق کے لئے لڑائی کی، قد افلح جو پرکھوں کی میراث کی خاطر غصہ ہوا۔ قد افلح جس نے پسینے کے ساتھ لہو بہایا۔ قد افلح جس نے جان گنوائی۔ فلاح وہی اور فلاح اسی کی جس نے خود کو، اپنی فصلوں کو، اپنی زمینوں کو، اپنے کھلیانوں کو رب کے حکم کے مطابق جہد مسلسل کر کے بچا لیا!


Saturday, March 1, 2014

سچائی کی پنہائیوں میں! پہلا حصہ۔

  ارن دھتی کہتی ہے ، "زمین ایک رِستے زخم کے جیسے  لہولہان ہے، سرخ دھول  نتھنوں سے ہوتی پھیپھڑوں میں بھر جاتی ہے۔ ان کے چہرے  لال ہیں، بال مٹیالے ہیں، لباس گرد میں اٹے ہوئے ہیں، آتے جاتے ٹرک ان کی زمینوں کا خزانہ چرا کر راستوں سے دھول اڑاتے گزرتے ہیں"۔ اور  بقول ارن دھتی رائے ، وہ  اپنے سونا   چین کی جانب جاتا دیکھ کر حسرت سے آہ ہی بھر سکتے ہیں۔

 دو ہزار نو کے شروع میں ہندوستانی سرکار نے " سبز شکار" کا ارادہ بنایا۔ ایک بڑا عمل جراحت، "گرین ہنٹ"   ان  "سبز پوش سرخوں" کے خلاف جو تین   دھائیوں سے دہلی سرکار کی ناک میں دم کئے ہوئے ہیں۔ اس تحریک میں سانولے لڑکے،  سلونی لڑکیاں،  کالی بھجنگ عورتیں، توانا    مرد،  بے ڈھول بوڑھے  شامل ہیں   وہ نکسل باڑی جو ھندوستان  کے پانچ سے زائد صوبوں اور پچاس سے زیادہ اضلاع کو اپنی لپیٹ میں لئے ہوئے ہے۔ وہ مائو نواز باغیوں کی تحریک جس نے  جنوب مشرق کی پوری پٹی پر اپنا اثر بنا رکھا ہے۔   کرناٹکا،  مہارشٹرا، جھاڑ کھنڈ، بہار چھتیس گڑھ، بنگال، اڑیسہ، آندھرا پردیش، کیرلا اور تامل ناڈ تک کو  اپنے قابو میں کر رہے۔ دیہاتوں میں، جنگلوں میں،  دریائوں میں ، پہاڑوں اور دلدلی علاقے میں اپنا اثر و رسوخ رکھنے والی کیمونسٹ مسلح تحریک کے پاس  دو  لاکھ سے زائد رضا کار ہیں۔  چالیس ہزار کے لگ بھگ لڑاکے ۔ بہادر، بے دھڑک، موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر زندگی گزارنے والے دیہاتی۔  جان ہتھیلی پر رکھ کر جینے والے قبائلی۔ سنگ دل ،گلے کاٹنے والے۔ سخت جان ، دشمن کو نہ بخشنے والے۔ دیش دروہی، بقول من موہن سنگھ  ہندوستانی ریاست کے لئے سب سے بڑا اندرونی خطرہ، وطن دشمن  جو اپنی ہی سر زمین کو لہو لہان کر رہے۔٭٭  ہندومت کے تکفیری ،  اپنے فوجیوں کو   "مسلمان" قرار دے کر مارنے والے٭٭۔   پولیس والوں کے سینے چھلنی کرنے والے۔

ریل کی پٹڑیاں اکھاڑنے والے،  بسوں کو اغوا کرنے والے۔" آدی واسیوں "کے لئے  ھیرو اور  ہندوستانی میڈیا       کے بقول  دہلی سرکار کے سر کا  درد۔ ہندوستانی زمین کا ناسور۔ جو  اپنے علاقوں پر کالا جنگلی قانون لاگو کرنا چاہتے۔ جو ترقی کے دشمن ہیں، جو وطن کو پتھر کے زمانے میں دھکیلنا چاہتے۔   بھدے،  بد شکل، کم عقل، جاہل  مائو نواز قبائلی۔ ۔  آسان الفاظ میں سمجھئے تو ہندوستان  میں نکسلیوں کے بارے ویسی ہی کہانیاں مشہور جوں پاکستانی میڈیا  "طالبان" کے لئے پیش کرتا ہے
پاکستانی میڈیا  "طالبان" کے لئے پیش کرتا ہے۔


لیکن سب لوگ آنکھیں بند کر کے یقین کرنے والے نہیں ہوتے۔ خاص کر جب معاملہ انسانیت کا ہو، مسئلہ  زندہ جانوں کا  ہو۔  ارن دھتی رائے بھی سچ کے متلاشیوں میں سے ایک تھی۔ جو کھوٹے کو کھرے سے الگ کرنے کی سوچ رکھتی ہے، اور اس کے لئے ہمت بھی۔

ارن دھتی سچ کو اپنی آنکھوں سے  مشاہدہ کرنا چاہتی تھی۔ وہ ان کے دلائل، ان کی منطق اپنے کانوں سے سننا چاہتی تھی۔  انہیں جانچنے، پرکھنے اور سمجھنے  کے لئے، ان کی نفسیات پڑھنے کے لئے، ان کا رہن سہن دیکھنے کے لئے، ان کی سوچ، ان کے خیالات اور  ان کے جذبات جاننے کے لئے  ان کے پاس پہنچ گئی۔
اس کے بائیس دن کا سفر جنگل کنارے سے شروع ہوا ۔ جو گھنے  درختوں کے تاریک سائے  سے ہوتا اونچے نیچے رستوں پر چلتا، دریا کی لہروں پر ہچکولے کھاتا کسی گائوں کی پگڈنڈی تک پہنچ جاتا ہے۔ کبھی کسی آدی واسی کی جھونپڑی تک، اس کے چولہے سے اٹھتے دھویں کی لکیروں میں  زندگی کی بےثباتی کو جاننے کی کوشش کر رہی تھی۔ کسی علاقے کے سکول میں پڑھتے بچوں  تک، ان کی آنکھوں میں جھانکتے ، ارن دھتی حقیقت تلاشنے کی سعی میں مصروف تھی۔  ان قبائلیوں کے کندھوں سے لٹکتی بندوقوں کے دھانوں سے جھانکتے بھیانک حقائق،  جو  وسطی شہروں کے اے سی لگے کمروں میں ، ٹی وی پر میکاپے چہروں والی نیوز کاسٹر، اور جھریوں کو چھپائے چیختے چنگاڑتے تجزیہ نگاروں کی زبان سے کبھی سمجھ نہ آسکیں.وہ ان کہی سچائیاں جو اپنا آپ  ظاہر کرنے کو بے تاب لیکن کوئی نظر ہی نہیں، جو دیکھ سکے۔ کوئی صاحب نظر ہی نہیں جو پرکھ سکے۔


بقیہ حصہ وقفے کے بعد۔


Thursday, February 27, 2014

ہر جابر وقت!!

شمال مغرب میں تباہی کے بادل منڈلا رہے۔ توپیں بجلیاں بن کر کڑکنے کو تیار اور آہنی پرندے پنجوں میں گولہ بارود بھر کر گرانے کو بے چین۔
غریب بستوں کو ملیامیٹ کرنے کا منصوبہ آخری مراحل میں، پچیس پچاس "بے زبانوں" کو ہر روز "طالبان" کہہ کر زندہ درگور کرنے کے جواز تراشے جا رہے۔ "بے جوڑ دوستانہ" دامے درمے سخنے فوج اور حکومت کو کھینچ کھانچ کر "آپریشن تھیٹر" میں لے آیا ہے۔ بے گناہوں کا خون پہاڑوں کو آبشار بنائے گا اور میدانوں کو سیراب کرے گا۔ شمال پھر سرخ ہونے جا رہا، افق کی سمت لالی بڑھے گی۔ لیکن جلتے جسموں کی بو، تڑپتے انسانوں کی چیخیں، بچوں کی سسکیاں، عورتوں کے بین، بوڑھوں کے بددعائیں شاید ہم تک نہ پہنچ سکیں، شاید ہی کوئی ملالہ "میران شاہ" سے بی بی سی کو اپنی ڈائری بجھوا سکے، شاہد ہی کسی یوسفزئی کے گھر پر ڈاکومنٹری بن پائے۔ شاید ہی ہمیں کبھی معلوم ہو سکے کہ "ملالہ کی دوست" کی ڈائری پر کسی فوجی نے "رومانوی اشعار" لکھے۔ خاک نشینوں کی گنتی کون کرے گا، لہو میں لتھڑے لاشوں کا حساب کس لئے ہو گا۔ بس "آپریشن" کے آخر میں کہہ دیا جائے گا۔ کامیاب رہا!۔
قوم کے کانوں میں "امریکی ڈالر زدہ" جہاد کا کا "بھونپوں" بجایا جا رہا۔ طبل جنگ کی ڈم ڈم سنائی دے رہی۔ پاک سرزمین کو "دہشت گردی" کے پنجوں سے نکالنے کی "امید" دکھائی جا رہی۔
قوم کو "وار ہسٹریا" میں مبتلا کیا جا رہا۔ بےہوشی والی دوا اس قدر چھڑکائی جا رہی کہ ہوش آنے پر بھی ہوش نہ آنے کا۔

نہ تباء شدہ گائوں ، نہ ملیامیٹ علاقہ، نہ گری چھتوں کا دلدوز منظر، نہ ٹوٹی ڈیوڑیوں کا دل دہلانے والا نظارہ، نہ لہو لہان لاشوں کا زکر، نہ چیتھڑے بنے انسانوں کا تذکرہ، نہ معصوم بچوں کے سرخ لاشے، نہ عورتوں کے کٹے پھٹے اجسام، نہ چیخیں، نہ آہیں، نہ سسکیاں، نہ شور شرابا، نہ رولا رپا نہ بدعائیں نہ التجائیں۔ نہ بزرگوں کی پگڑیوں کی بے توقیری کا دھڑکا، نہ عزت ماب مائوں بہنوں کی بے عزتی کا احساس۔ نہ ہنستے بستے مسکینوں کی بے گھری کا غم، نہ لٹے پٹھے قافلوں کا الم۔

نو بجے کے شو میں سنئیے دیکھیے اور سمجھئے فقط "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دہشت گرد مارے گئے"

باقی کا تجزیہ ""تاریخ اکہتر کے آئین"" کی روشنی میں خود کر لے گی۔


بیرون دریا کچھ نہیں۔



" گنہ گار ہو اس لئے اسلامی نظام کی بات نہ کرو" اخیر نتیجہ تمام تر منطق کا یہی نکلتا، یعنی چرسی کو ہسپتال کا نام نہیں لینا چاہئے، بیمار ، علاج کا سوچ نہیں سکتا!  مریض دوا کی گفتگو نہ کرے!! اور زخمی پھاہوں کا زکر نہ چھیڑے!! وہ جو کیچڑ میں پھسل کر گر پڑا اسے صفائی کو یاد رکھنے کی ضرورت نہیں، وہ جو کھڈے میں پڑا ہوا اسے بولنا نہیں چاہئے کہ "اُس طرف کا راستہ ہموار ہے، اِس طرف کو مت آئیو" پہلے  صحت مند ہو لو پھر صحت افزا مقام کو چلیں گے۔ پہلے ناسور ٹھیک ہو  جائے ، مرھم بعد میں دیکھیں گے۔   خلافت کی بات کرتے ہو! "ہوں" پہلے چھ فٹ  پر اسلام تو نافذ کر لو۔ اسلامی قوانین کا  زکر کرتے ہو! پہلے  اپنا آپ تو سنوار لو۔   بات تو مناسب لگتی  ۔"کتنے منافق ہیں، چوری بھی کریں گے، رشوت بھی کھائیں گے، دھوکہ بھی دیں گے، ناحق مال بنائیں گے، قتل و غارت بھی کریں گے، زنا کو معیوب نہ سمجھیں گے، شراب کے نشے میں دھت رہیں گے، "ہوں" بڑے آئے اسلامی نظام کے دعویدار۔    منطق کی میزان پر تولیں، انصاف کی نظر سے دیکھیں تو یہ تمام ، عام، لوگ اسی معاشرے، اسی سماج کا حصہ ہیں۔ ممکن ان کی "باقائدہ تعلیم" کم ہو،  وہ زمانے کے حالات سے نابلد ہوں۔ لیکن وہ اسی معاشرے کے فرد  ہیں، تھوڑا سا احساس رکھنے والے، کچھ سوچ، کچھ خیال، ہلکا پھلکا تجزیاتی زوق، اور مشاہداتی شوق ان کا بھی ہو گا۔  "اتی سی" عقل ان میں بھی ہو گی۔ تھوڑی سی سمجھ انہیں بھی ہو گی۔   اس معاشرے کی منافقت سمیت زندگی بسر کرتے ہوئے جب  کبھی یہ "منافق" لوگ  ایک "یوٹوپئائی اسلامی نظامِ خلافت" کی بابت خواب دیکھتے، یا اس کا زکر کرتے، یا اس کی خواہش کا اظہار کرتے۔، تو ان کی اس موجودہ نظام سے جھنجلاہٹ بول رہی ہوتی، اس جاری طریقہ کار ِ زندگی سے اکتاہٹ جھلک رہی ہوتی۔  اور لاشعور کے کسی کونے میں یہ ادراک ہلکورے لے رہا ہوتا کہ "اسلامی نظام" کی جو بات کہی جاتی ہے اگر وہ نافذ ہو جائے تو اس  جبر، ظلم، استحصال، کی چکی سے نکلا جا سکتا۔  اِس "منافقت" سے بچا جا سکتا۔ انہیں اس  امر کا بخوبی ادراک ہوتا ہے کہ "چوری کی سزا پر  ہاتھ کٹتے ہیں" زنا پر کوڑے لگتے ہیں یا سنگساری ہوتی ہے۔ نماز نہ پڑھنے  پر تعزیر  لاگو ہوتی ہے۔ رشوت لینے پر سر عام  ھنٹر پڑ سکتے۔  حقدار کا حق مارنے پر پھینٹی لگے گی، دھوکہ دہی، قتل ، لڑائی جھگڑے،  منشیاتی استعمال، حدود کو پھلانگنے پر بے حد سنگین  سزائوں کا اطلاق ہو سکتا۔   وہ جانتے ہیں، سمجھتے ہیں،  اسی لئے تو وہ "اسلامی نظام " کی بات کرتے ہیں۔ کیونکہ یہ تمام، عام، لوگ اس معاشرے کی رگ رگ سے واقف ہیں، اور اس کی منافقت کے علاج سے بھی،   اور "اسلامی نظامِ خلافت" کی خواہش کا اظہار کرنے والے  چاہتے ہیں کہ  نظم و ضبط ، حدود و قیود  میں رہ کر ہی "منافقت" سے جان چھوٹ سکتی۔

Thursday, January 30, 2014

نشئی!!


خفاش صِفتوں نے اودھم مچا رکھا ہے۔
منبر و محراب  پر  اگلتے ہیں۔ چیخ ، چنگھاڑ سے کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی،
گرگوں کی گلیوں میں حکومت ہے اور شغالوں  کی بھوکی نگاہوں نے ،
سجدے میں پڑے بدمستوں کو  لاشے سمجھ لیا ہے۔
 سگان آوارہ آتے ہیں ، مسجد کی چوکھٹ پر ایک ٹانگ اٹھا کر موت جاتے ہیں۔
مداری سروں پر  گنج اگائے، تماشا لگائے، مجمع بنائے جبہ و دستار والوں کا ٹھٹھہ اڑاتے ہیں۔ ،  اہل   لحیہ پر تبرے  کو بستی کی تمام بلیوں نے ،
کتوں کے ساتھ  یارانہ لگا لیا۔  فضا کی صحت یابی کو بھنگ کی کاشتکاری ، اور پوست کی تیاری میں امیر شہر کو فقیہان کِرم کا آسرا ہے۔
دم مارو دم کی صدا تمام رات  لوری کا کام کرتی ہے۔  فصیل شہر کے چوبداروں کے نوکدار ڈنڈے رعایا کے پچھواڑوں کی لالی غائب نہیں ہونے دیتے، اور  عامتہ الناس اٹھتی ٹیسوں کو نشے کی لہر سمجھ کر گہری نیند سوتی ہے۔


Flickr