Saturday, December 17, 2016

نفرین


ہوا درختوں کی شاخوں سے  مل کر مانوس  سا شور مچا رہی تھی۔  اوپر ٹہنیوں پر بیٹھتے اڑتے  پرندےکُرلا رہے تھے۔بے ساختہ ہنسی اس کے   منہ سے بہتی رال کے ساتھ ملتی تو ہوا میں کئی غبارے چمکنے لگتے۔ سورج پار چوٹی کے درختوں میں چھپ رہا تھا۔آملے کے تنےسے ٹیک لگائے وہ نیچے دور تک ،  پائوں پسارے  وادی  ،کی طرف نظریں جمائے ہوئے تھا۔    جدھر  بگولوں کا راج تھا۔ تھوڑی دیر بعد  آس پاس  گرا کوئی آملہ ہاتھ میں اٹھاتا ، قمیص کے پلو سے رگڑتا اور منہ میں رکھ کر چبانا شروع کر دیتا۔ دو چار چوسے لگا کر   سامنے   سر نکالتی شہتوت کی شاخوں کو نشانہ بنانے کی کوشش کرتا۔ اسے یہاں بیٹھے کتنی ہی دیر ہو چلی تھی۔    سال ڈیڑھ بعد آج ادھر آ نکلا تھا۔  کبھی وہ زمانہ تھا کہ بڑی ڈھیری  سے  گھر  کے  راستے میں ہی لڑکھنیاں کھاتا رہتا۔ کبھی اماں کے پیچھے پیچھے۔ کبھی بہن کے ساتھ گھسٹتا ہوا۔کبھی ابا کے کاندھے پر سوار۔  لیکن   اتنے وقت سے   وہ بڑے شاہ  کی دیوڑی کا پتھر ہو کر رہ گیا تھا۔ وہیں پڑا رہتا، میلا کچیلا، گندہ مندہ، زائرین کی ٹھوکروں میں،  مریدین کی جوتیوں پر۔ نہ کھانے کا ہوش نہ پینے کی سدھ۔ کبھی کسی نے جھلا سمجھ کر  کچھ سامنے لا دھرا تو دو چار لقمے منہ میں دے  کر جگالی کرتا رہتا۔  
سامنے اس کا مکان تھا۔ جس کی  چھجے اور صحن اماں بڑی محنت اور محبت سے لیپا کرتی تھی۔ چھت زمین سے                                                                              آ  ن ملی ہوئی اور   شہتیر ،بالے ندارد ۔  پچھواڑے  کی دیواریں اکھڑی  ہوئی اور پتھر غائب۔شاید  گائوں والوں میں کوئی باپ کا مال سمجھ کر اٹھا لے گیا  تھا۔  سڑک       تازہ تارکول کی چمک سے  کسی مالذادی کی مانند چھاتی  تانے نیچے  موڑ میں اتر رہی تھی۔ غالبا عرس کے لئے تیار  ہوئی تھی  یا پھر ووٹوں کا زمانہ قریب تھا اس لئے   مہمانوں  کی خاطر نویں نکور کردی گئی تھی۔  
جب پرانے رستے پر بڑے شاہ  نے سڑک نکالنے کی ٹھانی تو   اسی رستے کو ہموار کرنے کا طے ہوا جو اس کے پڑدادا نے پیر شاہ کی گھوڑی واسطے بنایا تھا۔  اس کی  اماں بتاتی تھی کہ پڑدادا نے یہاں سے لے کر بڑی ڈھیری تک سارا رستہ اکیلے سیدھا کیا تھا۔
تیلو اور اس کی بہن  نے  ابا سے ات ضد کی، لیکن وہ  بے چارہ کیا کرتا۔ اسے تو  بڑے شاہ کا حکم بجا لانا تھا، چاہے باغیچے بجائے اس کے اپنے پھولوں کی قربانی  ہی دینی پڑتی۔  سڑک ان کے پچھواڑے سے ہو کر گزرنی تھی۔ جہاں   دونوں  نے مل کر گل عباسی کے بےشمار پودے لگا رکھے تھے۔    خرگوشوں کی موریاں بھی بیچوں بیچ تھیں۔ جن کے اندر روئی کے گالوں جیسے بہت سارے بچے موجود رہتے۔  ایک طرف چنبیلی کا بڑا سا پیڑ اپنی بہار دکھلاتا۔  اور اس قطعے کے آخری سرے پر  آم کے چھتنار  پیڑ ان کی گرمیوں میں کھیلن کو سایہ فراہم کرتے۔  پھدکتی گلہریاں،  چہکتے پرندے ، رٹتے توتے یہی تو ان کے کھلونے تھے نیچے والی تھوڑی سی ہموار زمین پر ایک  کمرہ چھت کر جانوروں کے رہنے  جوگا بنایا گیا تھا۔   یوں ان کی آم  پر  ٹنگی  پینگ کا   لمبا ہلارہ لیتے   نیچے ڈھلوان میں گرنے کا خدشہ بھی ختم ہو گیا تھا۔
ایک سیدھ میں مکان کے چار کمرے، دائیں طرف چولہانہ اور اس کے پیچھے مرغیوں کا بڑا پنجرہ، جس کے ایک حصے میں  باوجود اماں کی مخالفت ،اس نے درجنوں  گلابی، نیلی، پتھری ، پیلی آنکھوں والے کبوتر پال  رکھے تھے۔ کبوتروں کے شوق میں ابا اس کا سانجھے دار تھا۔ گائوں کی باقی  تیس بتیس مکان  آدھ  میل پرے تھے ۔ درمیان پھلاہی اور شیشم کا  گھنیرا جنگل پڑتا ۔ نیچے کی ڈھلوان پتھریلی تھی۔ آدھے رستے تک اکا دُکا چیڑ وادی کی پہرہ داری  کرتے نظر آتے۔ پہاڑی چشموں  کا سارا پانی چھوٹی چھوٹی کَسیوں سے ہوتا ہوا  بڑی ڈھیری سے زرا پہلے  جوبن میں آ جاتا۔ پتن بڑی ڈھیری کے قریب بل کھاتا دوسری طرف مڑ جاتا جیسے رکوع میں جھکا  جا رہا ہو۔  سارا علاقہ "بڑے شاہ " کا مرید تھا۔ چار پانچ پشتوں سے بڑی ڈھیری آباد تھی۔ مزار میں لیٹے پیروں کی کرامت نے زندہ وارثوں کا شِملہ اونچا رکھا ہوا تھا۔ بڑے شاہ ،چھوڑ ،جب ان کے پوتے بھی راستے میں نکلتے تو چلنے والے  گھوڑی کی سموں کا غبار بیٹھنے تک ہاتھ باندھے کھڑے رہتے۔   گھروں  میں چارپائی تک کی پائینتی بڑی ڈھیری کی طرف نہ کی جاتی۔ اس کا ابا بڑی ڈھیری پر مٹھائیوں کی دوکان کرتا تھا۔ بتاشے،  مکھانے، نگدیاں، سنگترے وہ  جیبیں بھر بھر کھاتے رہتے۔ درگاء پر آنے جانے والوں کا جھمگٹا رہتا۔  عید، شبرات پر ہجوم دوگنا ہوتا اور بڑے عرس پر تو دور دور سے لوگ آتے۔ جھولے لگتے، ٹھیلے سجتے۔ بٹیر لڑائے جاتے، مرغے ٹھونگے مار مار اک دوجے کو لہو لہان کرتے ، تن آور جسموں، اونچے کوہانوں اور تیز نوکدار سینگوں والے  بیل  طویل کھیتوں میں دوڑ لگاتے ، کتوں کی لڑائی میں چھوٹے کتے بڑے کتوں کے کان کتر جاتے۔رنگ برنگی چوڑیوں کے تھال سجتے اور  گوریاں ،کلائیوں پر چوڑیاں چڑھاتے  دل سینوں سے باہر کھینچ لیتیں۔
اور پورے سال میں آمدن  کے بعد   واحد خرچہ جو شاہوں کی جیب سے نکلتا  سونے کے پانی میں ڈھلے وہ تاج جو جیتنے والے  مقابلہ  بازوں  کے سر وں پر رکھےجاتے۔      تیلو کا ابا  فقط کبوتر اڑاتا۔  اس کا کہنا تھا بے زبان جانوروں کو لڑا کر ،؛ ان کا لہو نکال کر گناء ملے گا۔مقابلے میں حصہ لینے والے ہر سال اس آس امید پر اپنے کبوتر فضا میں چھوڑتے کہ شاید اب کی بار تیلو کے کبوتر جلد تھک  کر چھتری پر جا بیٹھیں گے
تیلو کا ابا ہر سال جیت  کا تاج سر پر سجا کر لاتا اور تیلو اپنے پیروں پر چلنے کے قابل ہوا  تب سے تاج اس کے سر سجنے لگا تھا۔  کیسا سرشاری والا لمحہ ہوتا جب  مقابلے کا آخری کبوتر بھی   فضا میں تاڑتے بہریوں، ندروں سے بچ بچا، ہانپتا کانپتا، قلابازیاں کھاتا کسی چھتری پر آ بیٹھتا۔ اور تیلو کے رنگلے رتے,روجھے لال سرےکبوتر دور فضا میں قلقلاتے ہوئے پر پھڑپھڑا   رہے ہوتے۔ پھر تیلو  لوگ ہاتھ ہلا ہلا کر اپنی ڈار کو واپسی کے لئے آمادہ کرتے۔  غول غٹر غوں کرتا ، پر پھڑپھڑاتا   معبد کے اوپر سے چکر کاٹتا، ایک ایک کر کے  کبوتر چھتریوں پر آ بیٹھتے۔   زائرین کے تالیوں، نعروں اور واہ ، شاباش کے شور میں آب زر والا تاج تیلو اپنے ننھے سر پر جمائے  گردن اکڑا لیتا۔ اب کی بار  تو میلے کی رونقیں دوگنی اور ھجوم بڑھ کر  ہونا تھا  کہ  عرس کی تاریخوں سے کچھ  دن قبل ووٹ بھی ڈلنے تھے ۔  اس لئے   خاص تیاری  واسطے تیلو کے ابے نے    بادام گری،سُچے موتیوں، عنبر ، زعفران  اور پستے سے    کبوتروں کے لئے  کشتہ تیار کیا۔ تیلو روز نور تڑکے ان سات   بازی کبوتروں کو علیحدہ  نکال کر گولیاں کھلاتا،  اور سب سے نظریں بچاتے آملے کا  تیل  ان کے پروں پر مل دیتا۔   ابھی پچھلے ھفتے   اماں اسے بخار، درد میں آملے کی کڑھی بنا کر پلاتی   رہی اور   بدن تیل میں چپڑ تے اسے سمجھاتی کہ تیل کی مالش پٹھوں  میں چستی پیدا کرتی ہے-   
       ہوائیں بے موسمی سرد ہو رہی تھیں۔ خنکی ھڈیوں میں  جذب ہو جاتی  ؛  پالا مردوں کے پسلیوں میں  کپککپاہٹ طاری کر دیتا اور  برودت سے ڈری عورتیں اوڑھنیوں پر ہاتھ مزید مضبوط کر لیتیں۔ ڈور ڈنگر اندرونی طویلوں میں منتقل ہو گئے۔ بستی کے کُتے بھی ، بجائے بھونکنے بس چوں چوں ہی کرتے رہتے جوں ان کے گلے میں   تریل جم گئی ہو۔   ارد گرد  گیدڑ، لومڑوں کی بولتی بند تھی۔        سورج جوں ہی  سامنے کو چوٹی سے پرے ہوتا ، چولہانوں سے دھواں اٹھنے لگتا۔  کثیف، گاڑھا، دھواں، عجیب شکلیں بناتا ،ہوا کے سنگ لہراتا دھواں۔ گائوں کی مسجد سے موذن کی آواز گونجتی یا مرغوں کی بانگ سنائی دیتی۔ اور تیلو کے پچھواڑے کبوتروں کی غٹر غوں۔
ابے نے   مٹھائیوں کے لئے زیادہ مال منگوا لیا تھا۔  ڈھیری پر     ٹھٹھ تو ابھی سے لگنے لگا تھا۔ جیپوں کا ، لمبی کاروں کا، اور بسوں ٹریکٹروں میں   ارد گرد کے گائوں دیہات سے لوگوں کی آمد ہوتی رہتی۔ ڈھول کی تھاپ،  ٹولیوں کا رقص۔ ماحول پر  میلے کے شوق سے زیادہ ووٹوں کا جوش غالب تھا۔ بڑی بڑی چمکتی گاڑیاں ، حکومتی اھلکار اور سرکار کے لوگ  جب دھول اڑاتے تیلو کے پچھواڑے سے گزرتے تو وہ شام گئے تک کبوتروں کے پروں سے پھونکیں مار مار  مٹیالہ رنگ ھٹاتا رہتا۔ مقابلے کا تو سوال ہی نہ تھا کہ شاہوں کے سامنے کون کھڑا ہوتا مگر دھوم دھام اور دھاک بٹھانے کو ھلہ گلہ بھی لازم۔ شاہوں کے اپنے جتھے دار کچھ کم نہ تھے لیکن نہروں سے منڈاسوں والی ٹولیاں بھی  آ گئی تھیں۔  ڈھیری پر اٹھنے بیٹھنے والے بتاتے   نئے  آنے والوں میں زیادہ تر ان مفروروں کے سگے ، قرابتی ہی ہیں جو سال کا بیشتر مہینے ڈھیری  کے اوطاقوں میں یا آس پاس کے دیہات میں گزارتے  ۔      لوگ ان  مفروروں کی موجودگی سے سہمے سہمے رہتے ، چوپالوں ، چولہانوں  میں ان کے متعلق بے شمار  عجیب وغریب کہانیاں مشہور تھیں۔
بھینس لاٹھی والوں کے  باڑے ہی   سجتی، سو ووٹ پڑے اور  ڈھیری والے بن گئے۔    پہاڑیاں  گولیوں کی آوازوں سے تڑتڑ کر اُٹھیں۔
رات کو ایسا چراغاں ہوا کہ علاقے والے پچھلے سبھی   الیکشنوں، عرسوں کو بھول گئے۔
لڈیاں بھنگڑے، نچنیاں، گویے، ڈھول، بانسری؛ شاہ ساب کے حکم   پر مہمانوں کے لئے خصوصی انتظام   کیا گیا تھا۔
دھن کی پیاس، جوف کی بھوک کے ساتھ شب باسی کا بندوبست کیسے چھوٹ سکتا تھا۔ لیکن اب کی بار شاید مہمانوں کی گنتی زیادہ تھی ۔
ووٹوں کے دوسرے دن جب جشن  منانے والے ابھی سو رہے تھے۔    قریبی محلوں سے بین اٹھنے لگے۔ رات کو عجیب آندھی چلی تھی۔  سیاہ بگولوں والی۔      گھمن گھیری  میں کیا کچھ اٹھک  پٹخ ہوئی!  بستی والوں کو بس دو بچیوں کی اوڑھنیاں ہی مل سکیں۔   پھر بگولوں کی عادت ہی بن گئی۔ کبھی کسی کا بیل اڑ گیا، کبھی کسی کی بھوسے میں آگ لگی۔ کہیں عورتوں کی نچڑی لاشیں ملیں کہیں مردوں کے ادھ کھائے جسم۔
بستی والوں کے سیانوں نے حساب لگایا؛ آئینہ پکڑا  معصوم بچوں کو بٹھایا؛ فال نکالے؛ اور پتا کرایا کہ بگولے دن میں بڑی ڈھیری کے اوطاقوں میں جا سوتے ہیں۔  مگر مجال کس کی جو  شاہوں کی ڈھیری سے کسی کو جگا  پائے۔
بستی  والوں نے آواز اٹھائی، شور مچایا، غصہ دکھایا۔  پنچائیت بلائی گئی، پریا بیٹھی ، اور جوانی کی گرمی والے جوان لڑکوں نے منڈاسے والوں  کی  طرف ٹیڑھی آنکھوں سے دیکھا۔  بڑی ڈھیری والوں کو یہ بات بہت ناگوار گزری۔  بات تو تکار تک پہنچی۔  اور پنچائیتی کھاناپینا کر کے اٹھ آئے۔
اس رات بستی  کے کچھ گھبرو ، ٹیلو ںمیں جا بیٹھے۔   سویرے ایک بگھیاڑ  کی لاش نالے سے ملی، اس کے چہرے پر سیاہ منڈاسا  بندھا تھا۔
پھر  معمول بن گیا۔ کبھی  کوئی بستی والا بگولے میں اڑ جاتا اور کبھی کوئی منڈاسے والا بگھیاڑ  مارا جاتا۔
ڈھیری والوں کے لئے یہ معاملات ناقابل برداشت تھے۔ پنچوں کو پیغام بھجوایا گیا، پریا بیٹھی اور دھمکی لگائی گئی۔ لیکن گرم خون کو بڑھاپے کا  تجربہ کب راس آتا۔
پانچ سات منڈاسے والوں کی موت ہوئی تو ڈھیری والوں کا ماتھا ٹھنکا۔  بستی والوں کو سخت پیغام بھجوائے گئے۔ اور شدید نتائج کی دھمکیاں دی گئیں۔ مگر بات سیانوں کے ہاتھوں سے نکل کر دیوانوں کے تک جا پہنچی تھی۔
شہر سے پولیس منگوائی گئی اور بستی کا گھیرائو کر لیا گیا۔ بہت سارے مرد عورتیں گرفتار کر لئے گئے، کچھ آگے پیچھے کو کھسک لئے۔ کچھ نالوں میں اتر گئے اور کچھ پہاڑوں پر چڑھ گئے۔  تیلو کا ابا  اپنا مکان چھوڑنے کو تیار نہ تھا۔ کسی طرح اس نے اپنے تعلقات والوں کے زریعے صفائیاں پیش کر کے امان حاصل کر لی۔  مگر سکون کچھ دن ہی رہ سکا۔ ایک شب تیلو کی اماں اور بہن غائب ہو گئیں۔ تیلو کا ابا بڑی ڈھیری کی طرف فریاد لے کر بھاگا اور بس اتنا پتا چل سکا کہ اس کا پیر پھسلا تھا اور وہ تیل والے کڑا میں گر کر پکوڑا ہو گیا۔
بستی میں اکا دکا جی ہی باقی بچے تھے جو بڑی ڈھیری والوں کی نظر میں نمک حلال تھے مگر ڈر ان کی  لبوں پر بھی سوکھے میں پپڑیوں کی طرح جما ہوا تھا۔
اس دن بھی تیلو دروازے میں مڑا چڑا ایک کپڑے میں لپٹاتھا جب کسی زائر کی ٹھوکر سے بلبلا اٹھا۔ وہ اٹھ کر اس طرف کو نکل آیا جہاں زائرین کے لئے دیگیں  پکتی ہیں۔  دیر تک ایک چولہے کے پاس بیٹھا آگ تاپتا رہا۔ پھر نجانے دل میں کیا سمائی مٹھی بھر کر دیگ  میں ابلتے  سالن میں ڈال کر بھاگ کھڑا ہوا۔   باورچی گالیاں بکتا رہ گیا اور تیلو دور کھڑا ہوا کر اس کا منہ چڑانے لگا۔
پھر وہ روتا بلکتا اپنے مکان کی جانب  جانکلا۔
سڑک سے بندوق برداروں سے لدی جیپ  زوں زوں کرتی  گزری۔  تیلو نے جلدی سے دو ڈھیلے مٹی کے اٹھائے اور جیپ کے پیچے بھاگا جو  موڑ مڑ کر دور جا چکی تھی۔ غوں غاں کی آوازیں نکال کر اس نے ڈھیلے   دھول کے پیچھے پھینک دئے
ہوا تیز چلنے لگی۔   اوپر گزرتے بادلوں نے پانی  کا ھلکا سا چھینٹا پھینکا جوں پیار سے پوچھتے ہوں! اوئے ٹیلو ، کیا چپ کر کے بیٹھا ہے۔
اماں   شام میں آٹا گوندھ کر ٹیلو کے چہرے پر  انگلیوں سے نچڑتا پانی پھینکا کرتی۔ " میرا شیں  ، اٹھ کبوتر بند کر کے چولہانے میں آ جا۔
اور تیلو کی بہن بھاگتی جا کے کبوتروں کو آوازیں نکال پنجرے میں بند کر تی۔ تیلو کے ہاتھ دھلا  ، چولہانے میں جا بٹھاتی۔
اماں توے سے روٹی اتارتی  اور بہن شوربے میں چوری  کوٹ،  نوالے اس کے منہ میں ڈالے جاتی۔    کبھی ابا جو مغرب میں پہنچ آتا تو ان کا کھانا  جلیبیاں،مٹھائیاں ہی ہوتیں۔
ماحول میں خنکی بڑھ رہی تھی۔ ٹیلو کو سردی کا احساس ہو رہا تھا۔ وہ اٹھا اور  نیچے  اکھڑے صحن کے کونے میں جا لیٹا۔ اپنے گھر کے کونے کھدرے بھی  ماں کی گود جیسے ہی ہوتے۔    اسے   نیند نے آ لیا۔
نگوڑا کے دیر سویا، پھر کسی گاڑی کی چنگاڑ نے جگا دیا۔    پکی سڑک سے دھول تو نہ اٹھی لیکن دھواں اس کے نتھنوں میں بھر گیا۔  وہ اٹھ کر  سڑک کی جانب بھاگا، گاڑی  موڑ مڑتی یہ جا وہ جا۔  وہ واپس صحن میں آ بیٹھا۔ ارد گرد ایک پرحول سناٹا اور جھینگروں کا  سیاپا  تھا۔ نہ  کبوتروں کی غٹر غوں ،  نہ مرغوں کی بانگیں، نہ ممتا کا سراپا، نہ بہن کا بہناپا، نہ باپ کا پہلو، بس  تیلو کا اکلاپا۔
جھاڑیوں میں آواز پیدا ہوئی تو وہ ادھر کو بھاگا   اور جھانک کر دیکھنے لگا شاید کوئی خرگوش ہے۔
ایک جھاڑی میں کسی پرندے کا گھونسلہ اور انڈوں پر نظر پڑی تو اسے اپنے کبوتر یاد آ گئے
اس کی رال پھر بہنے لگی۔ لبوں سے بھی اور شاید آنکھوں سے بھی۔

وہ اٹھ کر مکان کے پچھواڑے والی سڑک پر جا  لیٹا۔ بارش کی بوندیں دھیرے دھیرے تیز ہو ری تھیں ہوا کی ٹھنڈک بڑھ گئی تو وہ کانپنے لگا۔  اسے مثانے میں سہرن محسوس ہوئی تو اٹھ کر آم کے پیڑ کے نیچے آن کھڑا ہوا جہاں کبھی وہ بہن کے ساتھ اس بات پر لڑائی کرتا تھا کہ پہلے کون پینگ کا ھلارا لے گا۔  نیچے  وادی میں درخت بین کرتی چڑیلوں کی طرح دکھائی دے رہے تھے۔ دور بڑی ڈھیری پر روشنیاں پھیلی ہوئی تھیں۔ بستی کی جانب  سے گیڈڑ اور لومڑ آوازیں نکالتے تو ماحول آسیب زدہ ہو جاتا۔ تیلو نے قمیص کا پلو اٹھایا اور مثانہ خالی کرنے لگا۔ تیز ہوا کے جھونکے بڑی  ڈھیری کی جانب دوڑ رہے تھے۔

Thursday, December 1, 2016

ہم بولیں گے!!!



ہمارا ضمیر ضرور جاگے گا، جب حلب کے کسی مکان تلے دبا، اکیلا بچ جانے والا زخموں سے چور بچہ زرا بڑا ہو کر کسی وڈیو میں کسی مغوی کا گلا کٹتا نظر آئے گا۔
ہم لازم آواز اٹھائیں گے جب کبھی بمباری میں تباۃ حال گائوں کی اکیلی بچی کچھ عرصے بعد کسی محاز پر کلاشنکوف پکڑے گولیوں کی بوچھاڑ کرتی دکھے گی۔
ہم بالکل احتجاج کریں گے جب گولیوں کی تڑتڑاھٹ، ٹینکوں کی گڑگڑاہٹ، جہازوں کی پروازوں، گولہ بارود کی بو، دھویں، غبار کے منظر میں ٹوٹی پھوٹی عمارتوں کے بیچ پرورش پانے والا بچہ کل کلاں کو کسی مصروف۔ پر رونق بازار میں پھٹے گا۔ ہم بولیں گے اور ہم ہر صورت بولیں گے جب بے بسی کی پینگوں میں ھلارے لینے والا طفل یتیم کسی کے گلو پر بے حسی سے خنجر چلائے گا۔
ہم چیخیں گے اور ہم کیوں نہ چیخیں جب رنگ و نور والے چوراہے میں خون آشام دہشت گرد معصوم بے گناہ غیر مسلح انسانیت کو لہو کا چولا پہنا دے گا۔ جب کبھی سارے خاندان کی اجتمائی قبر سے لپٹ کر رونے والا بچہ، کسی چوک میں نہتوں کو رلائے گا۔
جب کبھی ماں، بہن بیٹی کی لٹی عزت پر چادر چڑھانے والا اور باپ، بھائی، بیٹے کی کٹی پھٹی لاشیں اٹھانے والا کسی نیو ائیر نائیٹ کو ماتمی شام میں بدلے گا۔ ہماری ڈی پیوں کا رنگ بھی بدلے گا۔ ہمارے دلوں میں ٹیسیں بھی اٹھیں گی۔ہمارے چہرے پر ملال بھی نمایاں ہو گا۔ ہماری آنکھوں سے اشک رواں ہوں گے۔ ہمارے کی بورڈوں سے تعزیت، افسوس، لعن تعن کے لئے لمبی لمبی پوسٹیں ٹھک ٹھک کرتی نمایاں ہوں گی۔
ہم انسانیت کے ساتھ کھڑے ہوں گے جب بھی کوئی مظلوم ہماری بے حسی، پتھر دلی، ستم کوشی، طوطا چشمی اور بے غیرتی کی وجہ سے انسانیت نامی شے سے مایوس ہو کر کسی "پر امن ظالم" کے گریبان میں ہاتھ ڈالے گا ہم بولیں گے۔

Thursday, March 31, 2016

میراثیوں کا رولا!

بالے میراثی کی برادری بڑی تھی اور ٹبر بھی۔ ہر تیسرے دن کوئی نہ کوئی مر پڑتا۔ کوئی بوڑھا دمے سے موت کا شکار ہوا، کوئی عورت زچگی کے دوران مر گئی، کوئی بچہ نمونیے سےفوت ہو گیا، کوئی لڑکی تندور پہ آگ لگنے سے ہلاک۔کوئی مرد کرنٹ لگنے سی لڑھک گیا۔ سبھی گھر ایک ہی گائوں میں آس پاس تھے۔ روز کی بیماریاں، 
مردے، میتیں،کفن دفن، قبریں، جنازے؛ بالا تو گویا 'اک' ہی چکا تھا۔ خاص کر سسرالیوں سے ان بن کے باوجود منہ بسورے ان کی کھاٹیں اٹھانی پڑتیں۔
ایک رات گائوں میں ڈاکہ پڑا۔ مزاحمت پر بالے کے سسر سمیت تین دیگر سسرالی گھر کے مارے گئے۔ بالا گاؤں سے باہر تھا۔ اس کی عورت تابعدار اس کی اجازت کے بغیر دہلیز پار نہ کرنے والی۔ بالے کو حادثے کا معلوم پڑا تو بھاگا چلا آیا۔ کالے کپڑے نکالے، بیوی کو بھی کہا ماتمی لباس پہنے۔ جورو کو غم کے باوجود اچھا لگا کہ پہلی بار سسرالیوں کے دکھ میں اس کو اپنے آپ مضطرب دیکھ رہی تھی۔
دونوں گھر سے باہر کو چل دئیے۔ سامنے درختوں کی جھنڈ سے پرے عورتوں کے بین کی آوازیں آ رہی تھیں۔ بالا اور اس کی جورو آگے پیچھے چلتے پگڈنڈیاں ناپنے لگے۔ شیشم کے بڑے درخت سے بالا اوپری محلے کو مڑ گیا۔ پیچھے آتی اس کی عورت ٹھٹک کے رکی۔ لمحہ بھر انتظار کے بعد روہانسی ہو کے پکاری۔'' اے بالے، اوئے میرے دکھیارے۔ غم میں پگلا گیا''۔
اودھر کو چل ناں، ساری میتیں ابے کے ویہڑے ہی رکھی ہیں۔ بالا رکا، اور پیچھے دیکھے بغیر بولا '' کمینیے، چپ کر کے چل، رات ڈاکو، چوہدری کی مج بھی لے گئے۔ پہلاں اس کا افسوس کرنا ہے۔

Sunday, February 1, 2015

سپارٹکس کا مدرسہ۔

سپارٹکس، ایک دومالائی کردار، یورپ کے داستان گو کا سورما۔اساطیری سرباز،بہادر، جری۔

عظیم سلطنت روما کا باغی۔ سو ہزار برگشتہ و منحرف غلاموں کا رہنما۔
جی ہاں وہی غلام شمشیر زن، نیزے باز، تیغدار جن کی بارے فلمیں بنا بنا ھالی وڈ پیسے کماتا ہے۔ گلیڈی ائیٹر!!
آزادی کا متوالا، صرف اکیس سو سال قبل وہ رومن فوج کے ہر اول دستے کا بہترین سپاہی تھا۔ پھر کسی شاہی فرمان کے برعکس اس نے اپنی ہی عوام پر تلوار اٹھانے سے انکار کر دیا۔
پاداش میں اس کا گھر جلا دیا گیا، اس کو بیوی سمیت غلام بنا کر بیچ ڈالا گیا۔
روم کی ان بھول بھلیوں میں جہاں موت کا کھیل کھیلا جاتا تھا۔ جہاں پنجروں میں بجائے جانوروں کے انسان پالے جاتے اور جہاں میدان میں   آدمی لڑائے جاتے۔
وہ پیدائشی حریت پسند تھا۔ آزاد منش، اس کی ماں نے اسے آزاد جنا تھا، اس کا بچپن، اس کی جوانی آزاد ہی گزری تھی۔
اسے رومیوں کی دلجوئی کے لئے، ان کے وحشیانہ شوق کی تسکین کے لئے ان کے سامنے کٹنا کاٹنا، مرنا مارنا انہتائی ناگوار گزرتا۔
اپنے دوستانہ انداز نے اسے  پہلوانوں کے درمیان پسندیدہ شخصیت بنا دیا اور اسی کا فائڈہ اٹھاتے ایک دن وہ اپنے ستر ساتھیوں سمیت فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا۔
ان ستر مفروروں نے چھاپہ مار کاروائیوں سے  بہت جلد روم اور مضافات میں اپنی دھاک بٹھا دی۔ لوگوں کی زبان پر ان کا نام عام ہونے لگا۔ اور غلام انہیں نجات دہندہ سمجھ کر ان کے پاس پہنچنے لگے۔
وہ ستر سے سات سو ہوئے اور پھر سات ہزار۔ رومیوں کے ستائے ہوئے، ان کے انسانیت سوز مظالم سے تنگ آئے غلام فرار ہو کر ان کے پاس پہاڑوں میں پہنچنے لگے، عورتیں ، بچے، بوڑھے۔ اس قافلے میں سبھی  ملتے جارہے تھے۔ سپارٹکس جہاں  جنگی مہارت میں لاجواب تھا وہیں انتظامی صلاحیتوں کا بھی بہترین مظہر ثابت ہوا۔  اس نے سلطنت روما کے ان باغی غلاموں کے اندر   اک آزاد زندگی کا جذبہ پھونک ڈالا۔ وہ مرنے مار نے کے پروردہ تو پہلے ہی تھے اب ان کے سامنے ایک منزل تھی ایک خواہش تھی اور ایک جذبہ جو  دوسرے ہر خیال سے برتر تھا، بدلے کا،  انتقام کا، ظلم کے عوضانے کا۔ اور  برسوں ظلم کی آگ میں جلنے کے بعد،  ان غلاموں کے لئے  انسانی جان بے وقعت تھی۔ سو  وہ مستقل اور منتقم مزاجی کے ساتھ سلطنت  پر حملے کرنے لگے۔  وہ شہروں، قصبوں دیہاتوں پر حملہ آور ہوتے ، مال دولت لوٹ لیتے اور کشتوں کے پشتے لگا دیتے۔ ان کے سامنے آنے والا نہ بوڑھا ہوتا، نہ عورت نہ بچہ، ان کی نظر میں سب ایک تھے "ظالم رومی"۔
اس  مفروری سپاہ کی انتقامی کاروائیوں میں جان سے جانے والے رومیوں کی گنتی کا اندازہ ہی لگایا جاتا ہے۔ چار لاکھ، پانچ لاکھ، سات لاکھ۔
سپارٹکس ایک بہترین گوریلا رہنما تھا، وہ پلٹنے، چھپٹنے، چھپٹ کر پلٹنے کی حکمت عملی سے بخوبی واقف تھا  اور ان جنگی حکمت عملیوں پر عمل پیرا ہو کر اس نے سلطنت روما کی بنیادوں کو ھلا کر رکھ دیا۔ اس کی سرکوبی کے لئے بہت  دفعہ کوششیں کی گئیں لیکن بےسود و بےکار۔
ایک سال کے عرصے میں سپارٹکس کے پاس ایک لاکھ سے زائد لوگ اکٹھے ہو چکے تھے۔ 
سپارٹکس کو  اپنے لوگوں کی فکر تھی۔ اتنی بڑی آبادی کو یوں جنگلوں ، پہاڑوں میں ساتھ رکھ کے گوریلا جنگ ممکن نہ تھی اس لئے اس نے اپنے غیر جنگی ساتھیوں کو  سلطنت روما کی پہنچ سے دور پہنچانے کا منصوبہ بنایا۔
اس منصوبے کی مخالفت میں اس کا جانثار دوست   کرکسِز ، اپنے تیس ھزار  ہمنوائوں کے ساتھ عیلحدہ ہو  کر رومیوں کے ساتھ جا بھِڑا اور مارا گیا۔
دوسری طرف سپارٹکس کے ہمراہیوں نے بھی روم سے نکلنے سے انکار کر دیا۔ سپارٹکس انہیں لے کر   روما کی اس تنگ پٹی کی جانب چلا  جہاں سمندر کے اس پار سِسلی واقع ہے۔ وہ اپنی "رعایا" کو کسی محفوظ جگہ بسانا چاہتا تھا۔ لیکن  قسمت نے ساتھ نہ دیا اور وہ کبھی سمندر پار نہ کر سکا۔  رومی  اپنے رہنما کراسِس  کی قیادت میں بھرپور تیاری کے ساتھ موقعہ غنیمت جان کر  واپسی کے پینتسی میل چوڑے راستے کو بند کر دیتے ہیں۔
تنگ آمد بجنگ آمد سپارٹکس اپنے جانثاروں کے ہمراء رومیوں سے لڑتے ہوئے مارا گیا۔
ساٹھ ہزار کے لگ بھگ   سپارٹکس کے ساتھی بھی اس جنگ میں کام آئے۔ چھ ہزار کے قریب زندہ گرفتار ہوئے، جنہیں بعد ازاں  سلطنت روما نے اپنی دھاک بٹھانے کو سرعام ٹٹکیوں پر باندھ کر مارا۔
غلاموں کی اس جدوجہد کا اثر یہ ہو کہ رومیوں کو عقل آگئی اور وہ   غلاموں سے قدرے بہتر سلوک کرنے لگے۔اور سلطنت روما۔۔۔۔ سلطنت روما کی چولیں ہل چکی تھیں، بیس پچیس برس کے بعد  نقشہ بہت بدل چکا تھا۔
لاکھوں رومیوں کے قاتل، عورتوں ، بچوں اور بوڑھوں تک پر بھی رحم نہ کرنے والے اور عظیم سلطنت روم کے ایک بہت بڑے باغی کو یورپی عمرانیات کے ماہرین ، "ریووشنلسٹ، ریفامر، اور آئیڈئلسٹ قرار  دیتے ہیں۔  اسے مارٹن لوتھر کنگ 
اور  رابن ھڈ جیسا ہیرو گردانا جاتا ہے۔
مکمل کہانی تاریخ کے اوراق پر درج ہے۔ اور ہمارے  لائیٹنے کا مقصد فقط یہ کہ تاریخ دانوں نے سپارٹکس کی خون ریز طبعیت کی وجہ اس کا   مسعود اظہر کی تقریریں سننا، اس کی انسانیت سوزی  کی نفسیات کے پیچھے  مرید کے والے اجتماع  میں شرکت، اور اس کے ظلم و ستم  کا موجب ضیاء الحق کی مونچھوں والا ستائل بتایا ہے۔
عورتوں کو مارنے کی تعلیم اس نے بنوری ٹائون سے حاصل کی، بچوں پر رحم نہ کرنے کی تربیت کا خرچہ سعودی حکومت نے اٹھایا اور بوڑھوں کو بے دردی سے مارنے کا جذبہ اس نے  مودودی کی کتابیں پڑھ کر پالا۔
مورخین اس بات سے بھی  متفق ہیں کہ سپارٹکس  "اسلامی وہابی شدت پسندانہ" نظریات سے  متاثر تھا۔
اور اس کا اسلامباد کے چند مدارس میں بھی آنا جانا تھا۔

Thursday, January 15, 2015

کیا اب ختنوں کی تجدید ہو گی؟؟


تو کیا؟
حجامت کی دوکان کھولی؟
اب ریش کو زبان دانی کی قینچیوں سے کترو گے؟
اپنی داڑھیوں کو تراش کر نالیوں میں بہا دیں؟
لوطیوں سے چہرے بنا لیں!
تو کیا ؟
تمہارے ذوق نظر کی خاطر،
اپنی شلواروں کو کاندھے پر دھر لیں، کہ اونچے پائینچوں سے تمہارے عدسے کے زاویے خراب ہوتے ہیں۔
اب کاتبین کے ترلے ڈالیں ،
ہمارے اعمال ناموں میں امن کے پکوڑے ڈال کر موم بتیوں کی لو والوں میں بانٹ دو۔
ہم دل کو سینوں سے نکال کر بٹوے میں رکھ لیں .
(کہ گلی کے نکڑ پر امن کے فوجدار دُکھ کی ماہیت و کیفیت چیک کریں گے)
کیا آنسوءں کا خاکیوں کی لیبارٹری سے ٹیسٹ ہو گا؟
کونسا قطرہ وطن کی محبت سے لتھڑا ہوا اور کس آنکھ میں منافقت ہے۔
اور قبل ازیں، آسمان کو رسیوں سے کھینچ کر خدا کو زمین پر اتاریں ۔
آئو!
ہماری سینوں پر نیک نیتی کی مہریں ثبت کر دو۔
ہم سجدوں کے نشاں چھپانے کو قشقے کھینچے،
ہم تسبیحوں کی جا گلے میں صلیبیں لٹکائیں اور ہم
مصلے کا رخ قبلے سے موڑ کر تمہارے سفید محل کی جانب کر لیں!!


Saturday, April 5, 2014

صحرا کا پھول

سنتے ہیں کہ نجد کے صحرا میں عشق کا پھول کھلا تھا۔  سینہء قیس میں۔ جو زلف لیلی کا اسیر تھا۔
کتنے ہی مائوں کے لال اس عشق نے بے حال کئے اور ایسے بھی   اہل بصیرت کو   دِکھے  جو اسی عشق کی بدولت  مالا مال ہو گئے ۔
عشق!  لیلائے شہادت کا، محبت دین الہی کی، تڑپ میدان جہاد کی۔
ایسے عشاق بھی گزرے جن کے  لئے  ہی کہا گیا
آ کے سجادہ نشیں قیس ہوا میرے بعد
نہ رہی دشت میں خالی کوئی جا میرے بعد
نجد کا وہ شہزادہ بھی کچھ ایسی ہی داستان سرائی میں مشغول تھا۔
صحرا کے بیچوں بیچ کھجوروں کا وہ باغ، چاندنی رات کا رومان پرور منظر،  ریت کو چھو کر آتی مست ہوا کے جھونکے اور اس پر اس کا بیان اللہ اللہ!
وہ کہے جا رہا تھا اور  میں محو سماعت تھا۔


""عرق انفعال اس کی کشادہ جبین پر چمک رہا تھا۔ آنسو موتی بن بن   ریش ، رخسار کو بھی منور کر رہے تھے۔  توبہ استغفار، آہ و فغان، ہچکیاں اور سسکیاں، اس کا بدن کانپ رہا تھا۔ وہ اپنے چہرے کو ہتھیلیوں میں چھپائے التجائیں کر رہا تھا، دعائوں کو لبوں سے   جدا کر رہا تھا۔ اس کی خوشبودار بھیگی  سیلی گیلی  سرگوشیوں میں مناجات کی چمکیلی رنگت صاف دکھتی۔ حرم پاک کے پاکیزہ، باوقار ماحول میں جہاں دل جلال الہی سے  نگوں   اور سینے  انوار سے پُر  ہوتے ہیں۔ وہ رکن یمانی کے عین سامنے
ایک ستون کی آڑ میں کعبہ رخ دوزانو بیٹھا  بید مجنوں   سا   لرزاں تھا
جمعہ کا مبارک دن اور مکہ مکرمہ کی پاکیزہ سرزمین، ایک جم غفیر کہ امنڈا چلا آ رہا۔  فلک بوس عمارتوں کے سایوں سے نکل کر سفید سنگ مرمر  کی سلوں پر قدم رکھتے ہی بندے کی تمام تر عاجزی اور انکساری کے جذبات احاطہ کئے ہوئے محسوس ہوتے۔دل  کی زمین خود بخود نرم ہو جاتی ہے ایسے میں ایمان کی کونپلیں پھوٹتے دیر نہیں لگتی۔  ایقان اپنے اوج تک جا پہنچتا ہے اور انسان کے سینے میں حق  سانسوں کی جا ، جاری ہوتا ہے۔
"عبدلوہاب رح"   کا محلے دار   اپنا  مافی الضمیر بیان کر رہا تھا۔ اس کی کوشش تھی کہ الفاظ آسان تر اور  عام فہم ہوں تا کہ مجھ سے نابلد کو تفہیم میں مشکل پیش نہ آئے۔ لیکن جذبات کا بہائو اور احساسات کے تیز جھونکے اس کی  زبان کو  فصیح و بلیغ  عربی میں کھینچ لے جاتے۔  اور میں اس کے " بھائو تائو  کو ماپتے، اس کے اشارے کنایوں اور رموز کو  پرکھتا اس کا مطلب سمجھنے کی کوشش کرتا۔
وہ  دیار عبدلوہاب کا باسی کہہ رہا تھا
" میری اس کی پہلی ملاقات  وہیں ہوئی تھی حرم مکی میں، عین کعبہ کے سامنے۔  وہ کتنی ہی دیر روتا رہا۔ اور میں اس کے پروقار چہرے کو حیرت سے تکتا رہا۔ ایسے بھی نوجوان ہوتے ہیں!! ایسے بھی مسلمان ہوتے ہیں!!
تھکاوٹ سے چور میں  کچھ دیر آنکھ لگانے کے ارادے سے لیٹا ہی   تھا، جب اس پر نظر پڑی اور آنکھ وہیں اٹک گئی تھی۔
کتنی گھڑیاں گزر گئیں، اور میں ٹک دیدم اس کا دیدار کرتا رہا۔   اس نے  ہتھیلیوں سے اپنا چہرہ صاف کیا اور اٹھ کر میری طرف مُڑا  ، میں نظریں چرانے لگا اس کے معصوم چہرے پر مسکراہٹ پھیلی  اور  مجھے سلام کر کے اپنا سامان اٹھانے  کی اجازت طلب کی۔  اس کا تھیلا میرے سر تلے دبا تھا۔
پھر وہ  بابِ فہد سے  باہر کی جانب چل دیا۔  میں سوچوں میں گم، اک عجیب کیفیت میں تھا۔ اس  کی آنکھوں سے جھلکتی کُڑھن، اس کی ھچکیاں، آنسوئوں سے تر چہرہ، اس کا لرزیدہ بدن اور اس پر طاری وجد بار بار میری نظروں کے سامنے آتا رہا۔ میرے دل میں اللہ نے اس کی محبت پیدا فرما دی۔  میں کتنی ہی دیر اس کے لئے دعا کرتا رہا۔ اور شاید زندگی میں پہلی بار مجھ گنہ گار کو  "دعا کی قبولیت" کا احساس ہوا۔   دو چار دن میں اس  کے خیال میں ڈوبا رہا اور پھر شب و روز کے بکھیڑوں میں اس کی یاد کہیں زہن  کے نہاں گوشوں میں تہہ ہو کر رہ گئی۔
عبدلوہاب رح کا پڑوسی  بولتے بولتے رُکا، جوں  دور دیکھ رہا ہو۔ پھر اچانک مجھ سے معذرت خوانہ لہجے میں کہنے لگا ۔
"یار میں اپنی رو میں بہہ رہا تھا۔ آپ کو سمجھ لگ رہی ناں"
آپ کہتے رہئے  بندے کو سمجھنے سے زیادہ سننے میں لطف محسوس ہو رہا"
میں نے اس کے احساسات کی لطافت کے بارے  خیال کرتے ہوئے کہا۔
وہ پھر گویا ہوا۔

""حسین اتفاق ایسے ہی ہوتے ہیں ! زی الحج، مطاف کعبہ میں ایک بوڑھا ایرانی جوڑا   تکبیر کا ورد   کرتے  طواف کر رہا تھا۔  انتہائی ضعیف  و نخیف بابا وہیل چئیر  پر  بیٹھا تھا اور مائی بمشکل اسے دھکیل رہی تھی۔   مجھے اچھا نہ لگا اور میں نے اشاروں سے سمجھا کر کرسی کی ہتھی اپنے حساب میں کر لی۔ شدید گرمی میں  پسینے  پھوٹ رہے تھے اور  میں تیسرے چکر میں ہی ہانپنے لگا۔  مقام ابراہیم سے زرا آگے کسی نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ اتنی بھیڑ میں یہ معمولی بات  ہوتی ہے۔ لیکن جب اس ہاتھ میں سے اپنائیت و محبت کی لہروں نے میرے دل پر دستک دی تو مجھے مُڑ کر دیکھنا پڑا۔ وہی نوجوان میرے زہن کی غلام گردشوں میں سفر کرتا میری آنکھ کے دریچوں سے جھانک رہا تھا۔  جی وہی رکن یمانی کے سامنے والے ستون کے پیچھے ھچکیاں لینے والا نوجوان۔
اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔ "اخی تھک جائو گے۔ مجھے پکڑائو، اور پھر وہ ایرانی جوڑے کو طواف کرانے لگا۔ میں بھی اس کے  ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔
اور یوں ہمقدم ہو گئے۔ حج کے تما م ایام مجھے اس کا ہمسفر بننے کی سعادت حاصل ہوئی۔  اس کا اخلاق مثالی تھا، اس کی مسکراہٹ نرالی تھی۔ اس کا  لہجہ محبت و موددت سے لبریز ہوتا اور اس کا ہر انداز انکساری والا تھا۔ وہ  ہر اس دل میں گھر کر جانے والا تھا جو اس کی رفاقت میں چند گھڑیاں گزار لیتا۔ اور میرے دل میں اس کی عزت و عظمت بڑھتی ہی چلی گئی۔  اس کی صحبت کا فیض مجھے مل رہا تھا۔ میرا دل بدل رہا تھا
( میرے زہن میں آیا
چنگے بندے دی صحبت جیویں دوکان عطاراں
سودا بھانویں مل لئے نہ لئے
چلہے آن ھزاراں)

حج کے بعد مدینہ منورہ کو ارادہ تھا، اس نے اپنے ہمراہ چلنے کی دعوت دی اور اس کی زبان میں ایسی حلاوت تھی کہ انکار ہو نہیں سکتا تھا۔ سو میں اس کے ساتھ ہی مکہ مکرمہ سے مدینہ کو چل نکلا۔
بیت عتیق سے لے کر میدان عرفات اور  منی ومزلفہ  سے غار حرا تک اس اللہ کے ولی نے میرے زہن میں انقلاب برپا کر دیا تھا۔ توحید کیا ہے، اللہ کون ہے، انسان کا  منصب کیا ہے اور فریضہ کیا،  دعوت حق کا طریق کیا اور تبلیغ دین کا   سلیقہ کیا۔ مکہ مکرمہ میں گزری نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی حیات مبارکہ کا ایک ایک لمحہ اس  مدینے کے شہزادے نے یوں بیان کیا کہ  میرے سامنے سارے منظر عیاں ہوتے چلے گئے۔
پھر وہ  مجھے لے کر  باغوں والی سرزمین کی جانب ہو لیا۔  میں اس کے پیچھے پیچھے "یہ میرا ھادی ہے"
ابو بکر رضی اللہ عنہ کفار کے پوچھنے پر  نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے متعلق فرماتے تھے۔  میرا  زہن و دل بھی  ابی بکر رضی اللہ عنہ کی سنت پر عمل پیرا تھا۔ وہ مجھے مکہ سے مدینے کو لئے جا رہا تھا اور میں ایک ٹرانس میں چل چلا چل۔
وہ   راہ کی منزلوں کا تعارف کراتے جاتا۔
اور پھر مدینہ آ گیا۔ منور و تاباں،
اور میں اس کی معیت میں اس سرزمین پاک پر  اس انداز میں گھوما کیا جوں اولیں بار ہو!
""
میں اپنے نبی کے کوچے میں
چلتا ہی گیا چلتا ہی گیا
اک خواب سے گویا اٹھا تھا
کچھ ایسی سکینت طاری تھی""
جب مسجد نبوی کو دیکھا
میں روضہء جنت میں پہنچا
جس جاء و مبارک چہرے کو
اشکوں سے اپنے دھوتا تھا
جب دنیا والے سوتے تھے
وہ ان کیلیے پھر روتا تھا
اک میں تھا کہ سب کچھ بھول گیا
اک وہ تھا کہ امت کی خاطر
کتنے صدمے اور کتنے الم
جھلتا ہی گیا جھلتا ہی گیا
میں اپنے نبی کے کوچے میں
چلتا ہی گیا چلتا ہی گیا
طائف کی وادی میں اترا
طالب کی گھاٹی سے گزار
اک شام نکل پھر طیبہ سے
میدان احد میں جا بیٹھا
واں پیارے حمزہ کا لاشہ
جب چشم تصور سے دیکھا
عبداللہ کے شہزادے کو
اس دشت میں پھر بسمل دیکھا
یہ سارے منظر دیکھ کے پھر
میں رہ نہ سکا کچھ کہہ نہ سکا
بس دکھ اور درد کے قالب میں
ڈھلتا ہی گیا ڈھلتا ہی گیا
میں اپنے نبی کے کوچے میں
چلتا ہی گیا چلتا ہی گیا
میں کیا منہ لے کر جائوں گا
کوثر کی طرف جب آئوں گا
تلوار میں میری دھار نہیں
وعظ و اصلاح سے پیار نہیں
باتوں میں میری سوز کہاں
آہیں میری دلدوز کہاں
کتنے ہی پیماں توڑ چکا
میں رب کی یادیں چھوڑ چکا
ایک ایک میرا پھر جرم مجھے
کھلتا ہی گیا کھلتا ہی گیا
میں اپنے نبی کے کوچے میں
چلتا ہی گیا چلتا ہی گیا
پھر لوٹ کے جب میں گھر آیا
اک شمع ساتھ ہی لے آیا
یہ حب سنت کی شمع
جس دن سے فروزاں کی میں نے
اس دن سے میں پروانہ بن کر
جلتا ہی گیا جلتا ہی گیا (احسن عزیز)
ہر  نماز کے بعد، ہر موقع پر میرا بھائی دعا کرتا، ایسی رقت آمیز دعا ، اسی لفط و اثر والی دعا اور ایسی خلوص و جوش والی دعا کہ دل کہتا قبول ہوئی ان شاء اللہ۔   اور پھر میں اسی کے ہمراہ طواف کے لئے مکہ کولوٹا۔
اک بار پھر  ""عرق انفعال اس کی کشادہ جبین پر چمک رہا تھا۔ آنسو موتی بن بن   ریش ، رخسار کو بھی منور کر رہے تھے۔  توبہ استغفار، آہ و فغان، ہچکیاں اور سسکیاں، اس کا بدن کانپ رہا تھا۔ وہ اپنے چہرے کو ہتھیلیوں میں چھپائے التجائیں کر رہا تھا، دعائوں کو لبوں سے   جدا کر رہا تھا۔ اس کی خوشبودار بھیگی  سیلی گیلی  سرگوشیوں میں مناجات کی چمکیلی رنگت صاف دکھتی۔ حرم پاک کے پاکیزہ، باوقار ماحول میں جہاں دل جلال الہی سے  نگوں   اور سینے  انوار سے پُر  ہوتے ہیں۔
ایک ستون کی آڑ میں کعبہ رخ دوزانو بیٹھا  بید مجنوں   سا   لرزاں تھا۔ میں اس کی دعائوں پر امین کہہ رہا تھا،  اس نے افغانستان سے صومال اور شیشان سے سوریا تک  آفیت طلب کی۔ کشمیر سے گجرات تک خیر مانگی۔ برما سے   افریقہ تک امت کی بھلائی کا سوال کیا۔  اور میں گم سم  یہ سوچتا رہا، کاش اس اللہ کے والی جیسا اک لمحہ مجھے میسر ہو جائے، اک ھچکی ایسی ہی میری بھی بندھے، اک آہ میرے لبوں سے اسی طرح کی پھوٹے، اک پھانس سینے میں ایسی ہی چھبے، اک درد رگوں میں ایسا ہی جاگے۔ میرے جگر میں بھی امت کا   ااثر کرے۔ کاش اک آنسو میری پلکوں سے ڈھلک جائے، کاش اک دعا اسی خلوص سے میرے حلق سے بھی وا ہو اور میرا بیڑا پار ہو جائے""
"مجھے بھی اس کی زیارت کرائو ناں!
میں اتنی دیر بعد بے تابانہ بولا۔
"ہمم اس کے لئے وہاں جانا پڑے گا"
اس نے  ایویں آسمان کی جناب ہاتھ اٹھا دیا۔
"کہاں" میرا دھیان کہیں اور تھا۔
"جنتوں میں"
او ، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ کب؟
میں نے   دل کی گہرائی میں درد کی ٹیس محسوس کی۔
" کچھ  ہفتے قبل وہ ر ب رحمان سے کیا وعدہ نبھا گیا"
وہ مسکرایا۔ " ایسی جدائی کے درد میں بندہ رو بھی نہیں سکتا کہ  انعامِ شہادت کی ناقدری ہوتی"
  
کوئی شب گزیدہ مرغ  نور تڑکے کے آثار قریب دیکھ کر بانگ دینے لگا  اور میں  اس نجد زادے کی عین الیقین سے پُر نظروں میں سحر زدگی سے دیکھے جا رہا تھا۔
ستاروں کی تنک تابی  نوید صبح روشن کی نوید سنا ر ہی تھی۔     ہم نے اٹھ کر قریبی کھال میں وضو کیا ۔  تہجد پڑھی اور میں نے اسے عرض کیا۔ بھیا! دعا مانگو۔ وہ دعا کرنے لگا۔  سسکیاں نکلیں۔ پھر  اس کی ھچکیاں بند گئیں۔ آہیں بلند ہونے لگیں۔ سینہ دھونکنی کے جیسے چلنے لگا آواز میں سوز اور درد تھا  اس نے سب مانگ لیا  ،اس سے اسی کو، پھر  خاموشی چھا گئی۔ طویل خاموشی۔   اور میں تہی دامن   کہ وہن زدہ ،  میرا جی جلنے لگا۔ میں چپ چاپ  سوچے جا رہا تھا
"کاش اک لمحہ اس جیسا مجھے بھی عطا ہو جائے۔ اے کاش ایسا درد میرے دل میں بھی اٹھے، ایسی ٹیس میری روح میں بھی پیدا ہو، ایسا سوز مجھے بھی ملے، ایسا   اک آنسو میرے رخسار کو بھی چومے، ایسی اک ہچکی میری بھی بندھے، ایسی تڑپ مجھے بھی ملے۔ ایسی ہی پھانس میرے سینے میں اٹکے۔  اے کاش کہ وہ دعا میں میرا نام لے کر کہہ دے۔
تہِ شمشیر یہی سوچ ہے مقتل میں مجھے
دیکھیے اب کسے لاتی ہے قضا میرے بعد




Flickr