ایک نئے وطن دشمن کی کہانی کچھ ایسی ہوتی ہو گی۔ مان لیا کہ میرا بھائی دہشت گرد ہے۔ تسلیم کہ وہ وطن دشمن ہے۔ سچ ، کہ اس کا تعلق کالعدم تنظیم سے ہے۔ صحیح کہ وہ حکومتی تنصیبات پر حملے میں ملوث۔ حقیقت کہ اس کا رابطہ ملک دشمن عناصر سے ہے۔ ہو سکتا وہ کہیں مارا گیا ہو، ممکن وہ سرحد پار موجود ہو۔ تم نے کہہ دیا اور سب الزامات ثابت ہوئے۔ مان لیا۔ جب وہ غائب ہوا، گرفتار ہوا، اغوا ہوا، اٹھایا گیا یا سرحد پار چلا گیا۔ تو میرے گھر میں اک قیامت نازل ہوئی تھی۔ اس کے معصوم بچوں نے چیخ چیخ کر آسمان سر پر اٹھا لیا تھا۔ اس کی بیوی نے رو رو کر آنکھیں خشک کر لی تھیں، بوڑھی ماں نے بین کر کر کے سب کو رلا دیا تھا۔ ضعیف باپ کی بےبس آہوں نے سب کے دل دہلا دئے تھے۔ اور ان سب حالت دیکھ کر، دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر میں اس کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا تھا۔ میں سوچ رہا تھا یہ میرا انسانی، اسلامی، آئینی حق ہے کہ میں پتا کر سکوں میرا بھائی کہاں ہے کس حالت میں ہے کس جرم میں گرفتار ہے۔ جب میں اسے تلاشتا ہوا مختلف در کھٹکھٹا رہا تھا تو فریاد کے ساتھ میری آہ بھی نکل جاتی۔ شاید یہی آہ ، میری یہی آواز اندر بڑوں کو "ڈسٹرب" کرتی تھی۔ ان کے سکون میں خلل ڈالتی تھی۔ جب میں بار بار پوچھتا کہ میرا بھائی کہاں ہے تو وہ مجھے بھی اسی کا ساتھی قرار دیتے۔ میں سوچتا "حقوق" کیا ہوتے ہیں۔۔ وہ کہتے تمہارا بھائی کے متعلق ہمیں معلوم نہیں۔ پھر ایک دن اس کی کٹی پھٹی مسخ شدہ لاش مل گئی۔۔۔۔ مجھے پھر اپنوں کی حالت نے مجبور کیا کہ میں ان کے زخموں کے مداوے کے لئے انصاف مانگوں تا کہ ان کا درد کم ہو سکے۔ میں سڑکوں پر، چوراہوں پر۔ ہوٹلوں میں، سکولوں کالجوں میں اس کے قتل کی وجہ پوچھنے لگا۔۔ اس کو قتل کرنے والوں کے بارے پوچھنے لگا۔۔ میرا تعلق صرف اپنی ماں کی آہوں سے تھا، میرا رابطہ بھائی کے یتیم بچوں کی معصوم سسکیوں سے تھا، میرا ہدف بیوہ بھابھی کے زخموں پر مرہم رکھنا تھا، بوڑھے باپ کے دل کو سکون پہنچانا تھا کہ انہیں معلوم تو ہو ان کا جوان کس جرم میں مارا گیا۔۔ مگر پھر مجھے اٹھا لیا گیا، مجھے اغوا کر لیا گیا، ملک دشمنی کے الزام میں، دہشت گردوں کے ساتھ تعلق کے الزام میں، پھر میں بھی وہیں رہا جہاں میرے بھائی کو رکھا گیا تھا، اسی حالت میں، اسی ازیت میں، اسی درد اور کرب کے ساتھ۔ اسی مار کٹائی کے ساتھ۔۔ مان لیا میرا بھائی دہشت گرد تھا، مان لیا میرا بھائی ملک دشمن تھا، لیکن میں تو صرف ایک بھائی تھا! ایک بیٹا تھا، ایک چاچا تھا۔
پنجابی کی گنڈاسہ فلموں میں گائوں کے غریب ماجھے کی بیوی بے آبرو کر دی جاتی ہے۔ اور انصاف مانگنے پر ماجھے کو چوہدری کے غنڈے قتل کر دیتے ہیں۔ پھر اسی ماجھے کا بیٹا گاما بڑا ہو کر انتقام لیتا ہے تھانیدار، تھانہ، پولیس والے، چوہدری کے حواری دوست یار سب اس گامے کی نظر میں گناہ گار ہیں۔ مجرم ہیں۔ کچھ اسی طرح ہمارے ہاں بھی ہو رہا ہے۔ بلوچستان کی صورت حال اور پنجابی کھڑاک فلم کی کہانی میں کچھ زیادہ فرق نہیں۔
بہت سچی بات ہے لیکن آہ جب جنگل کا قانون شہر میں نافذ ہو جائے تو صورت حال ایسی ہی ہوتی ہے اور اس صورت میں بس اپنے کو بچانا ہوتا ہے باقی سب کچھ جائے بھاڑ میں
ReplyDeleteیہ لعنت ہمارے خون میں اندر تک سرائت کرچکی ہے۔
ReplyDeleteیہ ہم ہی ہیں جن کی وجہ سے ایک پڑھا لکھا بلوچ نوجوان ڈاکٹر اللہ نذر ہتھیار اُٹھانے پر مجبور ہوا۔
اور ڈاکٹر شازیہ والا قصہ بھی یاد ہوگا۔
نیت صاف کرنے کی ضرورت ہے، جو ممکن نہیں رہی اب۔
بلاتبصرہ
ReplyDeleteاللہ سب پر رحم فرمائے۔
بلکل سچ ہے یہ
ReplyDeleteفلم دیکهتے وقت ایسے مناظر پر اتنی دلی تکلیف ہوتی ہے تو جس پر سچ میں یہ سب گزارتا ہے ان کا حال کیا ہوتا ہوگا ...... آپ نے بہت نقش ہوتے انداز سے لکها ہے
ReplyDeleteبس فروٹ تیار ہے
ReplyDeleteدرخت کے نیچے بیٹھ جآ
سیب ابھی گرا کے ابھی گرا
نویں تھیوریاں ایجاد کرنے کا سنہری موقع ہاتھ لگنے والا
ویسے تو ہمارے حکمران کیلوں اور قوم گنوں کی شوقین ہے
پھر کبھی کبھی ٹیسٹ بھی بدل لینا چاہئے
جو بویا ہے وہ کاٹنا تو پڑے گا
ReplyDeleteگویا لاپتہ افراد پر پہلی تحریر پوسٹ ہوگئی۔
ReplyDeleteاچھا قدم اُٹھایا ہے۔
اور یہ بات درست ہے کہ بٹیر اس وقت تک نہیں لڑتا ،جب تک اسکے سر پر انگلی سے بار بار وار کرکے اسکو جنگجو نہ بنایا جائے۔